اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کتاب کو معزز سمجھنے والے امجد اسلام امجد۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھل کر قہقہہ لگاتے لگاتے اگلی بات کہنے کے لیے رک جانے والے، کسی بھی اختلافی نقطے سے دامن بچا کر نکل جانے والے، ہنس مکھ لاہوریے مگر اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے ہمہ وقت فکرمند اور اچھے جمالیاتی شاعر، کسی نظریے کے ٹیگ سے بظاہر عاری، کتاب کو معزز سمجھنے والے امجد اسلام امجد اپنے سے عمر میں چھوٹے اور کم رتبہ افراد سے ملاقات میں محسوس نہ ہونے دیتے کہ وہ مشہور ادیب اور شاعر ہیں اور اتنے بہت سے انعامات بھی اُن کے پاس ہیں۔
اردو کی صحت کے لیے ہر وقت تشویش کا شکار اکثر لوگ لکھنؤ بھی ساتھ میں لے آتے ہیں اور بھونڈا، فرسودہ، گھن لگا، پان میں لپٹی زبان جیسا کائی زدہ کلچر بھی ساتھ لے آتے ہیں اور ہمارے دماغ کا چھالیہ سروتے سے کترتے رہتے ہیں۔ امجد اسلام امجد اردو کی بات کرتے تھے مگر جملہ لکھنؤ پرست نحوستوں کے بغیر۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو، مگر وہ اردو کی مزید ترویج چاہتے تھے۔ خود اکثر پنجابی میں ہی بات کرتے رہتے، یا بیچ بیچ میں پنجابی بولتے۔ ساری عمر لاہور میں ہی گزاری۔
گزشتہ برس جون میں اُن کے گھر ملنے گیا تو مرصع صوفوں والے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ چپل اور شلوار قمیض میں ملبوس امجد اسلام امجد کے چہرے پر عمر کے آثار نہیں تھے۔ فرنیچر میں زیادہ تر چیزیں سنہری اور نسواری تھیں، دو اے سی میں سے ایک پرانا تھا اور وہی چل رہا تھا، کیونکہ نیا والا خراب تھا۔ وہ سامنے والی دیوار کے ساتھ رکھے پندرہ فٹ دور صوفے کے کنارے پر مستعد ہو کر بیٹھے اور ایک تقریباً اجنبی فیملی کے ہم تین افراد کو بالکل محسوس نہ ہونے دیا کہ ہم دوسری بار ملے ہیں۔ وہ مخاطب کر کے پوری توجہ اور صراحت سے بات کرتے تھے۔ بیٹی سے پوچھا کہ کیا پڑھ رہی ہے؟ اس نے بتایا کہ ایف اے۔ بس وہ نہایت شفقت سے اُسے اردو زبان و ادب کی اہمیت سمجھانے لگے۔ پھر تیزی سے اُٹھ کر گئے، چائے لائے، پیش کرنے لگے تو سعدیہ نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی اور اُنھیں بیٹھنے کا کہا۔ ساری ملاقات میں ایک لمحے کا بھی ناگوار وقفہ نہ آیا۔
مختلف لوگوں کے متعلق بات کرتے ہوئے میں کوئی سخت جملہ کہتا تو وہ اتفاق نہ کرنے کے باوجود تردید نہ کرتے، نہ ہی برا مانتے، کیونکہ خود بھی کہیں نہ کہیں متفق لگتے تھے، یا شاید سوچ رہے تھے کہ چلو کوئی تو یہ بات کھل کر کہتا ہے۔ واپس آتے وقت گیراج میں تھے تو دوستانہ انداز میں کہنے لگے، ’’یار تھوڑا غصہ گھٹ کر۔ ایناں وی چنگا نہیں۔‘‘
اس موقعے پر دونوں ہاتھوں سے اپنی نئی کتاب پیش کی، جس پر میں نے گزشتہ ماہ تبصرہ کیا اور پھر فون پر بات کی۔ کہنے لگے: ’’یار میں تمھاری تحریریں پڑھتا ہوں، خوشی ہے کہ کوئی ادب کو اس طریقے سے بھی دیکھتا ہے۔ تمھارا انداز الگ ہے…… جلد ملتے ہیں، میں ذرا ٹھیک ہو جاؤں…… واش روم میں گر گیا تھا….. فریکچر ہو گیا….. ابھی دو ہفتے لگیں گے اور پلستر کھلنے میں…..۔ لیٹا لیٹا تنگ آ گیا ہوں۔‘‘ وہ اتنے خوش اخلاق، وضع دار اور ملنسار تھے کہ حوصلہ افزائی اور تعریف کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
موت سے فرار نہیں، اُنھوں نے زندگی سے بھی فرار نہ پایا۔ امجد اسلام امجد جیسوں کے رخصت ہونے کے ساتھ ہمارے معاشرے کے توانا پہلو ایک ایک کر کے مٹتے جاتے ہیں۔ مخالف بات شائستگی اور سمجھ داری سننے کی نشانیاں محو ہوتی جاتی ہیں۔ کوئی بھی مرنے والے سے زیادہ اپنے کسی پہلو کے نقصان پر رنجیدہ ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ تو رنجیدگی کی اہلیت سے بھی محروم ہو چکا ہے۔ کون غور کرے گا کہ اب امجد صاحب کی جگہ کون ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: