مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دودھ والی گاڑی گزر چکی|| وجاہت مسعود

یہ کھیل ہمارے ملک کی تاریخ سے خاصی مطابقت رکھتا ہے۔ 75 سالہ تاریخ میں بیرونی دنیا سے ملک ٹرین ہمیشہ ہمارے ہاں رکتی رہی، کبھی سیٹو اور سینٹو کا اسباب لائی تو کبھی افغان جنگ میں پرائی آگ کا ایندھن۔ ہم نے تو دہشت گردی مخالف جنگ میں بھی اپنے حصے کا دودھ مکھن جھپٹ لیا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے ملک کی تحقیر کا خیال بھی کسی ذمہ دار شہری کو زیب نہیں دیتا۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں ادیب اور فنکار اپنے بندوبست حکومت اور طرز معاشرت پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنی زمین سے دشمنی نہیں ہوتا بلکہ اپنی دھرتی کو مزید روشن کرنا ہوتا ہے۔ اپنے لوگوں کے لئے خوشی، انصاف، تخلیقی صلاحیت اور پیداواری توانائی کا خواب دیکھنا ہوتا ہے۔ 67 برس کی عمر میں پاسٹرناک کا ناول ڈاکٹر ژواگو شائع ہوا تو سوویت حکومت نے بوڑھے ادیب پر جینا حرام کر دیا۔ اس نے ایک خط میں اپنی اذیت بیان کرتے ہوئے لکھا تھا، ’میرا جرم کیا ہے۔ میں نے یہی تو دکھایا ہے کہ میرا ملک اور اس کے لوگ کس قدر خوبصورت ہیں اور سرکاری بالشتیوں نے ذاتی مفاد کے لئے اس ملک کو کیسے برباد کیا ہے۔ ‘ ہمارے ملک میں بھی تمدنی سرگرمی روبہ زوال ہے۔ تھیٹر، فلم اور مصوری تو خیر کبھی یہاں قدم ہی جما نہیں پائے، ایک کلاسیکی موسیقی کا دم تھا، اب اسے بھی ریاستی بالاخانے پر منظور شدہ بندش کی سرگم کا پابند کیا جا رہا ہے۔ صدیوں سے شعر و ادب کی محل سرا البتہ آباد تھی۔ تابکے! کچھ برس قبل کراچی، لاہور، ملتان اور بہاولپور جیسے تہذیبی مراکز تو ایک طرف، چھوٹے چھوٹے قصبوں میں علم و سخن کے چشمے رواں تھے۔ ’پہلے کچھ لوگ ہوا کرتے تھے‘۔ جہاں تہاں چراغوں کا دھواں ابھی باقی ہے مگر یہ کہ ’زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے‘۔ جہاں صادقین ( 76ء) ، اقبال حسین ( 83ء) اور کولن ڈیوڈ ( 90ء) کی مصوری پر پارساؤں کے مسلح جتھے ان مسخروں کی انگیخت پر حملہ آور ہوں جو فن کی ابجد سے نابلد ہوں، جہاں غلام عباس کو اپنا افسانہ ’دھنک‘ پیش کرنے پر حلقہ ارباب ذوق میں جہل کی یلغار کا سامنا ہو، جہاں ڈرامے کے دو کرداروں میں ایک مکالمے پر تجدید نکاح کے فتوے جاری ہوں، جہاں شہر میں 444 بے گناہ شہریوں کی موت پر سناٹا ہو اور فنی اظہار میں اس بپتا کا نوحہ مرتب کرنے والی عدیلہ سلیمان گردن زدنی ٹھہرے، وہاں فنون عالیہ کا رنگ کیا خاک جمے گا۔ فن تو روایت کی سنگی دیوار میں امکان کا بارود رکھنے کا عمل ہے۔ دنیا آئندہ منزلوں کے جرس کی صدا پر سبک قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے، ہم خود کشیدہ بادہ غفلت کی پینک میں ہیں۔ سنگین دیواروں، نیم تاریک راہداریوں اور کوتاہ نظری سے بنی سازشوں کے حمام باد گرد میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس کی کچھ تفصیل سے پہلے اوقیانوس کے پار امریکا میں ایک کامیاب تمدنی پیش قدمی کا کچھ ذکر ہو جائے۔ ناکامی کی گراں باری میں بھیروں کے لطیف سر حوصلہ دیتے ہیں۔

انیسویں صدی کے امریکا میں ڈرامے کی روایت مفقود تھی۔ جدید یورپ ناروے کے ابسن، سویڈن کے سٹرانبرگ اور روس کے چیخوف جیسے عہد ساز تمثیل نگار پیدا کر چکا تھا لیکن امریکی ڈرامہ دھول دھپا سے معمور ناٹک سے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ انیسویں صدی میں امریکی ناول کی دنیا میں موبی ڈک، انکل ٹامز کیبن، سکارلٹ لیٹر اور ریڈ بیج آف کریج جیسے شاہکار سامنے آ چکے تھے۔ جدید نظم میں والٹ وٹمین ملکی حدود سے آگے نکل کر عالمی شاعری میں اپنا مقام پیدا کر رہا تھا لیکن امریکی ڈرامہ ہنوز منت پذیر شانہ تھا۔ 1914 ءمیں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہی نہیں ہوا، امریکی درسگاہ ہارورڈ میں امریکی ڈرامے کی نمود کا اہم سنگ میل بھی عبور کیا گیا تھا۔ اتفاق سے اس برس ڈرامے کی شعبے میں چند عبقری طالب علم داخل ہوئے جنہیں بعد ازاں کلاس آف 14 کا نام دیا گیا۔ 1915 کے آس پاس واشنگٹن اسکوائر میں تھیٹر گلڈ اور پراونس ٹاؤن جیسے تمثیل گھر تعمیر ہوئے۔ بالآخر 1918 میں یوجین اونیل کے کھیل Beyond the Horizon نے سنجیدہ امریکی ڈرامے کی آمد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں ڈرامے کی تاریخ امریکی ڈرامے سے عبارت ہے۔ عالمی ڈرامے کا کون سا سنجیدہ طالب علم ہے جس نے ٹینیسی ولیمز کا کھیل A Streetcar Named Desire (1947) ، آرتھر ملر کی تمثیل Death of a Salesman (1949) ، یوجین اونیل کے ڈرامے Long Day ’s Journey Into Night (1956) اور ایڈورڈ ایلبی کے کھیل Who‘ s Afraid of Virginia Woolf? (1962) میں انسانی تضادات، اجتماعی نا انصافی، انفرادی المیے اور وجود کے جشن کی باریک نقش کاری سے لطف نہیں اٹھایا۔

تاہم آج ہمارے اجتماعی تناظر میں ٹینیسی ولیمز کے کسی قدر کم معروف کھیل The Milk Train Doesn’t Stop Here Anymore کا ذکر مقصود ہے۔ ریلوے کی آمد کے فوراً بعد روایت تھی کہ ٹرین ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکتی تھی تاکہ مقامی کسانوں سے دودھ، مکھن اور پنیر جیسی یافت اٹھائی جا سکے۔ سو ملک ٹرین (دودھ گاڑی) خوشحالی کا استعارہ ٹھہری۔ ذرائع آمدورفت بہتر ہوئے تو ٹرین کے لئے ہر اسٹیشن پر رکنا غیر ضروری ہو گیا۔ ٹینیسی ولیمز کے اس کھیل میں بنیادی کردار ایک بوڑھی خاتون کا ہے جو متعدد شادیوں سے عطر حیات کشید کرنے کے بعد اب موت کے انتظار میں اپنی یادیں جمع کر رہی ہے۔ دوسرا کردار ایک نیم استعاراتی نوجوان کا ہے جو اچانک بڑھیا کے گھر چلا آیا ہے۔ یہ پراسرار شخص موت کی علامت بھی ہو سکتا ہے لیکن بوڑھی خاتون کے لئے گزشتہ زندگی کی لطافت کا موہوم اشارہ بھی۔ یہ کھیل ہمارے ملک کی تاریخ سے خاصی مطابقت رکھتا ہے۔ 75 سالہ تاریخ میں بیرونی دنیا سے ملک ٹرین ہمیشہ ہمارے ہاں رکتی رہی، کبھی سیٹو اور سینٹو کا اسباب لائی تو کبھی افغان جنگ میں پرائی آگ کا ایندھن۔ ہم نے تو دہشت گردی مخالف جنگ میں بھی اپنے حصے کا دودھ مکھن جھپٹ لیا۔ آج صورت یہ ہے کہ آئی ایم ایف ٹینیسی ولیمز کی تمثیل کے اجنبی نوجوان کی طرح ہماری دہلیز پر بیٹھی ہے۔ خواہی اسے تباہی کا اشارہ جانو، خواہی خواب جوانی کی تجدید۔ تاہم ملکی تمثیل کے پردے پر مختلف قوتوں کی باہم رسہ کشی بتاتی ہے کہ ابھی ہمیں اس بنیادی سچ کا ادراک نہیں ہو رہا کہ دودھ والی گاڑی کے ہمارے اسٹیشن پر رکنے کا زمانہ گزر چکا۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: