نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر2022ء کے تیسرے ہفتے تک قمر جاوید باجوہ اپنی معیادِ ملازمت میں ایک اور توسیع کے حصول کے لئے بے قرار تھے۔ اس ضمن میں جو مہرے اور حکمت عملی استعمال ہوئے ان میں سے چند کی بابت ذاتی طورپر آگہی کا حامل ہوں۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی پسند کے صحافیوں سے گپ شپ کے دوران وہ غالبؔ کی بیان کردہ سادگی کو پرکاری میں بدلتے ہوئے یہ تاثر دینے میں مصروف رہتے کہ بے چینی سے ریٹائرمنٹ کے منتظر ہیں۔ہماری ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کی تین کے بجائے مسلسل چھ برس تک سربراہی نے انہیںتھکادیا ہے۔وہ گوشہ نشین ہوکر اپنے پوتوں سے کھیلتے ہوئے پرسکون زندگی گزارنے کے منتظر ہیں۔
ریٹائر ہوجانے کے بعد مگر وہ گوشہ نشین نہیں ہوئے۔ صحافیوں سے طویل گفتگو کو آمادہ رہتے ہیں۔ ’’نیوز سائیکل‘‘ یا خبروں میں نمایاں رہنے کی عادت سے جند چھڑانا ان کے لئے ممکن نظر نہیں آرہا۔ حال ہی میں انہوں نے ایک اور انٹرویو دے مارا ہے۔اس کا جو حصہ ابھی تک منظر عام پر آیا وہ چسکہ فروشی کے سودے سے مالا مال تھا۔
مذکورہ حصہ رعونت سے اعتراف کرتا ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کی خاطر ان کے ادارے کو ایک طاقت ور بیانیہ تشکیل دینے کے بعد اسے ’’مجاہدانا‘‘ لگن کے ساتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس ضمن میں روایتی صحافیوں کی ’’بری عادتوں‘‘ سے آزاد ’’نئے چہروں‘‘ کی ضرورت تھی۔ وہ ڈھونڈلئے گئے تو نام نہاد ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ لڑنے ٹی وی سکرینوں پربٹھادئے گئے۔ٹی وی سکرینوں پر ان مجاہدوں کے لئے جگہ بنانے یا ’’ٹائم سلاٹ‘‘ کے حصول کے لئے چند اینکرز کو فارغ کروانا بھی لازمی تھا۔ ٹی وی چینل کے مالکوں پر دبائو بڑھاکر مطلوبہ ہدف بآسانی حاصل کرلیا گیا۔فارغ کروائے صحافیوں میں یہ گنہگار بھی شامل تھا۔ذلت آمیز انداز میں زندگی میں پہلی بار نوکری سے نکالا گیا۔ اس سے قبل ہمیشہ ازخود مستعفی ہوتا رہا تھا۔ جس ذلت آمیز انداز میں فارغ ہوا اس نے کچھ دن کے لئے جی کو اذیت میں مبتلا رکھا۔ بعدازاں مگر شاہ حسین کا وہ شعر بے پناہ تسلی کا باعث ہوا جو ’’مکھیوں کی بھنبھناہٹ‘‘ سے آزاد ہوجانے کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے۔سرجھکاکر کالم نویسی کی جانب لوٹ آیا۔
میرے کئی بہادر اور جی دار ساتھیوں نے مگر جرأت سے کام لیتے ہوئے آج کے ڈیجیٹل زمانے میں یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار ڈٹ کر جاری رکھا۔ چن چن کر انہیںکٹ‘‘ لگوائی گئی۔ رضی دادا اور عمران شفقت جیسے ساتھیوں کو ہتھکڑیاں لگیں۔مطیع اللہ جان اسلام آباد کے تقریباََ مرکز سے اغوا ہوا۔ابصار عالم کو گولی لگی اور اسد علی طور کے فلیٹ میں ’’نامعلوم افراد‘‘ گھس آئے۔باجوہ صاحب ان واقعات سے انکار نہیں کرتے۔ ان کی ذمہ داری لینے کو مگر تیار نہیں۔ سارا ’’ملبہ‘‘ فیض حمید اور ان کے حکم پر متحرک ہونے والوں کے سرڈال رہے ہیں۔ ’’عذرگناہ بدترازگناہ‘‘ کی ایسی دیدہ دلیر مثال میں ڈھونڈنے سے قاصر ہوں۔
بات مگر ’’عذرگناہ‘‘ تک ہی محدود رہتی تو غالباََ میں یہ کالم لکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتا۔باجوہ صاحب کے حالیہ فرمودات کو بھارت کے علاوہ عالمی میڈیا اور تھینک ٹینکوں میں پاکستان پر نگاہ رکھنے والوں نے جس انداز میں لیا بہت ہی پریشان کن تھا۔آپ کی اکثریت کو غالباََ یاد ہوگا کہ کارگل جنگ کے دوران پاک فوج کے خلاف "Rogue”جیسی تحقیر آمیز اصطلاع استعمال ہونا شروع ہوگئی تھی۔مقصد اس کا دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ ہمارے عسکری ادارے میں ’’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘‘ کا نظام کمزور ہوچکا ہے۔عسکری ادارے کی اجتماعی اور نہایت سوچ بچار کے بعد اپنائی پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے چند افسر ’’اپنے تئیں‘‘ ایسی حرکتوں میں مصروف ہیں جو ’’سکھاشاہی‘‘ کی یاد دلاتی ہیں۔’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ کے لئے مجھے بھرتی کے قابل ہی تصور نہیں کیا گیا۔اس کے باوجود خارجہ امور کا متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے میں سفارت کاروں کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں میں مذکورہ تاثر جھٹلانے کو ڈٹا رہتا۔
ستمبر2005ء سے لیکن افغانستان پر امریکہ کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے دوران امریکہ اور یورپ کے بے تحاشہ قد آور صحافیوں اور تبصرہ نگاروں نے بھی جنرل مشرف کی حکومت پر ’’ڈبل گیم‘‘ کھیلنے کا الزام تواتر سے لگانا شروع کردیا۔مذکورہ جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تصور ہوتا تھا۔ہمارے ’’تعاون‘‘ نے انتہا پسندوں کو ناراض کیا۔ وطن عزیز میں وہ دہشت گردی پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔ ہزاروں بے گناہ پاکستانی شہری ان کی وحشت کا نشانہ بنے۔ہم پر نازل ہوئے عذاب کے باوجود ’’ڈبل گیم‘‘ کے الزام مگر جاری رہے۔طالبان کا میں حامی نہیں۔ جنرل مشرف بھی مجھے ناپسند کرتے تھے۔اس کے باوجود پاکستان پر ’’ڈبل گیم‘‘ کا الزام لگانے والوں سے ملاقاتیں ہوتیں تو میں ناقدین کو ’’افغان جہاد‘‘ کی تاریخ یاد رکھنے کی تلقین کرتا۔ ’’ڈبل گیم‘‘ کا ورد کرتے ہوئے یہ سازشی کہانی بھی بالآخر بہت تواتر سے پھیلنا شروع ہوگئی کہ پاکستان کے ’’ایٹمی اثاثے‘‘ بالآخر ’’دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھ بھی آجائیں گے جو انہیں دنیا میں تباہی پھیلانے کو اُکسائیں گے۔امریکی وزارت خارجہ کے کئی سینئر اہلکاروں سے بھی میری اس ضمن میں اکثرتکرار ہوئی۔
ذاتی دُکھ مجھے یہ ہے کہ قمر جاوید باجوہ کے حالیہ انٹرویو کا جو حصہ ابھی تک منظر عام پر آیا ہے وہ ہمارے ناقدین کے لئے ’’ٹھوس گواہی‘‘ ثابت ہوا ہے۔تحقیر آمیز الفاظ سے باجوہ صاحب کی ’’بے بسی‘‘ والا اعتراف اجاگر کیا جارہا ہے۔چھ سال تک کامل اختیارات کے ساتھ ادارے کے سربراہ کا متعصب ترین نقاد بھی ان سے ایسی ’’گواہی‘‘ کی توقع باندھنے کے قابل نہ تھا۔ اپنے ’’مادر ادارے‘‘کی ساکھ کو کاری ضرب لگانے کے بعد قمر جاوید باجوہ نے منصور علی خان جیسے متحرک اور مقبول صحافی کو بذریعہ ٹیلی فون ’’تردیدی‘‘ بیان دیا۔انگریزی والا Damageیا نقصان مگر ہوچکا ہے۔ ’’تردیدی‘‘ ٹیلی فون اس کا ازالہ نہیں۔قمر جاوید باجوہ صاحب کو مگر اس کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ ان کا ’’مادر ادارہ‘‘ بھی غالباََ اپنی روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک سابق سربراہ کے خلاف تادیبی کارروائی سے اجتناب برتے ۔ ان سے مگر یہ درخواست تو کی جاسکتی ہے کہ خدارا اپنا منہ بندرکھیں اور وعدے کے مطابق بچوں سے کھیلتے ہوئے گوشہ نشینی میں وقت گزاریں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر