نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی تماشا اور پی ایس ایل۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرکٹ کی وجہ سے ’میری میکس‘ مشہور ہوئے۔ مقصود صاحب 1980 کی دہائی میں اسلام آباد سے نکالے انگریزی اخبار ’دی مسلم‘ کے سپورٹس ایڈیٹر تھے۔ ان دنوں میں اسی اخبار کا ’چھوٹا رپورٹر‘ ہوتے ہوئے شہری مسائل اور یہاں ہوئی ثقافتی اور ادبی تقریبات کے بارے میں ’ڈائری‘ نما کالم لکھتا تھا۔ وہ میری تحریروں کو شفیق استاد کی طرح سراہتے۔ چند ستائشی جملے ادا کرنے کے بعد مگر اصرار کرنا شروع ہو جاتے کہ میں کرکٹ میچوں پر بھی تبصرہ نما چیزیں لکھا کروں۔ میں بارہا عرض کرتا کہ مجھے کرکٹ کی ککھ سمجھ نہیں ہے۔ میں آج تک یہ بھی نہیں جان پایا کہ کوئی بلے باز ایل بی ڈبلیو کی وجہ سے پچ سے باہر کیوں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ مصر رہتے کہ ان کے ہمراہ دو یا تین ٹیسٹ میچ کمنٹری باکس میں دیکھنے کے بعد میں اس کھیل کے اسرار و رموز بآسانی جان لوں گا۔ ان کے ہاتھ مگر میں نہیں آیا۔ ادب اور ثقافت پر لکھنے سے ’ترقی‘ پاکر ملکی سیاست اور خارجہ امور پر رپورٹنگ شروع کردی اور خود کو پھنے خان رپورٹر سمجھنے کا جواز ڈھونڈ لیا۔

ہفتے کی شام مرحوم مجھے بے تحاشا یاد آئے۔ دو قریب ترین دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر پی ایس ایل کا فائنل دیکھا۔ لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز کے مابین آخری گیند تک کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ بالآخر جیت قلندر کی ہوئی اور مجھے اس کی بابت بے پناہ طمانیت اس وجہ سے بھی محسوس ہوئی کہ اس ٹیم کے بانی اور سرپرست رانا برادران ہیں۔ وہ میرے چھوٹے بھائیوں کی مانند ہیں۔ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ سمجھتے ہوئے اکثر وہ ٹی شرٹس بھیجتے رہتے ہیں جو لاہور قلندرز کے کھلاڑی میچ کے دوران پہنتے ہیں۔ ان کی پشت پر میرا نام لکھا ہوتا ہے۔ ہفتے کا میچ دیکھتے ہوئے مجھے بالآخر یہ علم بھی ہو گیا کہ ’کوور ڈرائیو‘ کیا ہوتی ہے!

لاہور قلندرز سے محبت کے باوجود ہفتے کے روز ہوا میچ میں نے اپنے اعصاب کو تسکین دینے کے لیے نہایت شوق سے دیکھا۔ گزشتہ کئی دنوں سے حکومت اور عمران خان کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جو جنگ جاری تھی اس نے میرے وسوسوں بھرے دل کو اداس و پریشان کر رکھا ہے۔ دل میں کھولتی تشویش پر قابو پانے کے لیے مجھے ’کچھ اور‘ کی ضرورت تھی۔ ہفتے کے میچ نے وہ فراہم کر دیا۔

یہ میچ دیکھنے کے بعد میں عمران خان اور حکومت کے درمیان جاری مقابلے کا ’سکور کارڈ‘ بیان کرنے میں بھی آسانی محسوس کر رہا ہوں۔ کوئی پسند کرے یا نہیں میری دانست میں سابق وزیر اعظم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھان متی کا کنبہ دکھتی حکومت کے لیے ناقابل تسخیر بن چکے ہیں۔ ان کے گرویدہ کارکن کئی دنوں تک لاہور کے زمان پارک میں ان کے آبائی گھر کے باہر حصار کی صورت جمع رہے۔ اپنے قائد کو انھوں نے ’ریڈ لائن‘ بنائے رکھا۔ عمران خان کے خلاف بنائے مقدمات کی وجہ سے جاری ہوئے وارنٹ کی بدولت گرفتاری سے بچنے کے لیے سابق وزیر اعظم کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنا لازمی تھا۔ ان کی درخواست کو ہمدردی اور احترام سے سنا گیا۔ عدالت نے اس امر کو بھی تسلیم کیا کہ اپنے مداحین کے ہجوم کے ساتھ زمان پارک سے مال روڈ کے آخری گوشے میں واقع عدالت تک پہنچنے کے لیے تحریک انصاف کے قائد بروقت حاضر نہیں ہو سکیں گے۔ ان کا انتظار ہوا۔ ان کی جان کو درپیش خطرات نگاہ میں رکھتے ہوئے ’ملزم‘ کی بلٹ پروف کار کو ہائی کورٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت بھی مل گئی۔

مذکورہ حقائق ہی کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عمران خان جب لاہور سے اسلام آباد کی نچلی سطح کی عدالت کے روبرو پیش ہونے کے لیے روانہ ہوئے تو متعلقہ عدالت ’ایک دن کے لیے‘ جوڈیشل کمپلیکس منتقل کردی گئی۔ وہ عمارت بھی تاہم عاشقان عمران کے نرغے میں آ گئی۔ انھیں عدالت کے کمرے میں بلوانے کے بجائے ان کے خلاف قائم ہوئے مقدمے کی فائل ان کی مداحین کے ہجوم میں گھری گاڑی تک بھجوا دی گئی۔ ان کی جانب سے مذکورہ فائل پر ہوئے دستخط ’حاضری‘ کے برابر قرار پائے۔

دریں اثنا عمران خان جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے تو لاہور پولیس نے زمان پارک پر دھاوا بول دیا۔ وہاں موجود حفاظتی انتظامات کو کرینوں کے ذریعے مسمار کر دیا گیا۔ عارضی کیمپوں میں بیٹھے چند جانثار گرفتار بھی کر لیے گئے۔ سوشل میڈیا پر پولیس دھاوے کی ’وحشت‘ اجاگر کرنے کو لمحہ بہ لمحہ تصاویر کی بوچھاڑ جاری رہی۔ بنیادی پیغام اس کی وجہ سے یہ ملا کہ لاہور پولیس روایتی ’چالاکی‘ سے عمران خان کے اسلام آباد روانہ ہونے کی منتظر تھی۔ جیسے ہی وہ موٹروے پہنچے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا گیا۔ یہ دھاوا لوگوں کی اکثریت کو ’غیر قانونی اور پولیس گردی‘ بھی محسوس ہوا۔ حالانکہ ایک عدالت سے پولیس نے زمان پارک میں بنائے کیمپوں میں مبینہ طور پر موجود ’دہشت گردوں‘ کو گرفتار کرنے کے وارنٹ حاصل کر رکھے تھے۔ یہ پہلو تاہم ہیجان کی بدولت کماحقہ انداز میں لوگوں کے روبرو نہ آ پایا۔ تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ حکومت کی پراپیگنڈا مشینری چلانے والے تنخواہ دار ملازمین کے پاس ان کے بیانیے کا توڑ موجود نہیں ہے۔ مقامی ہی نہیں عالمی میڈیا بھی وہ کہانی ہی پروموٹ کرنے کو ٹھوس وجوہات کی بنا پر مائل ہوجاتا ہے جو تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم اجاگر کرتی ہے۔

عمران خان کے انداز سیاست کے بارے میں میرے ہزاروں تحفظات ہیں۔ ان کے اظہار سے کبھی گریز بھی نہیں برتا۔ میڈیا کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ حقیقت مگر نظرانداز نہیں کر سکتا کہ سیاست میں حقائق سے کہیں اہم تاثر یا پرسیپشن ہوتا ہے۔ اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد شدت سے یہ محسوس کر رہی ہے کہ ’غیر ملکی سازش‘ کی بدولت قائم ہوئی ’امپورٹڈ حکومت‘ سابق وزیر اعظم اور ان کے حامیوں کے خلاف مسلسل ’زیادتیوں‘ کی مرتکب ہو رہی ہے۔ وفاقی اور پنجاب کی نگران حکومت مذکورہ تاثر جھٹلانے میں قطعاً ناکام رہی ہیں۔

جو تماشا کئی دنوں سے جاری ہے ’اب کیا ہو گا‘ والے سوال کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنا دشوار تر بنا رہا ہے۔ میں اس ضمن میں ناکام ہو جانے کے بعد ہی نہایت اشتیاق سے پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کو مجبور ہوا۔ پی ایس ایل کا تاہم اختتام ہو گیا ہے۔ وسوسوں بھرے دل کی تسلی کے لیے اب غیر سیاسی تماشوں کی گنجائش بھی نظر نہیں آ رہی۔ بہتر یہ ہی ہو گا کہ رمضان المبارک کے آغاز کا بے تابی سے انتظار کیا جائے اور ربّ کریم سے اس مقدس مہینے میں ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگیں کہ وہ ہم پر رحم کرے۔ ہمارے دلوں کو سکون پہنچانے کا کوئی راستہ بنائے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author