اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آٹھ مارچ کا لاہور۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کا یہ موقف درست نہیں کہ عمران خان کی ریلی اور عورت مارچ کا روٹ ایک تھا اور عمران اپنی ریلی کے شرکا کو عورت مارچ کی آڑ میں تشدد کے لئے استعمال کرسکتے تھے اس لئے ایجنسیوں کی رپورٹ پر لاہور میں دفعہ 144 نافذ کی گئی۔

تحریک انصاف کی ریلی نے مال روڈ پر آئے بغیر داتا صاحب تک جانا تھا جبکہ عورت مارچ مال روڈ پر ہی رہنا تھا۔ تھوڑی سی کوشش کرکے پی ٹی آئی کی الیکشن و عدلیہ بچائو ریلی کے روٹ کا میپ پارٹی کی طرف سے جاری سوشل میڈیا سے مل سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے 8مارچ کی ریلی کا فیصلہ اتوار کی شام کیا اور سوموار کو اس کا باقاعدہ اعلان۔

پنجاب کی نگران کابینہ کی جانب سے لاہور میں سات دن کے لئے دفعہ 144 کے نفاذ کا باضابطہ اعلان 8مارچ کی صبح کیا گیا۔ اگر رانا ثناء اللہ کا دعویٰ درست ہے کہ دفعہ 144 ایجنسیوں کی رپورٹ پر نافذ کی گئی تو پھر اس کا اعلان 7مارچ کو کیوں نہ ہوا؟

7مارچ کو شہر میں 144کے نفاذ کے ساتھ شہری انتظامیہ پی ٹی آئی کی دستیاب قیادت سے رابطہ کرتی (اس طرح کے رابطے سیاسی جماعتوں سے عموماً ہوتے ہیں) اور ریلی ملتوی کرنے کے لئے کہتی۔

دوسری بات تحریک انصاف کے جاں بحق ہونے والے کارکن بلال احمد عرف ظلے شاہ کے حوالے سے ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ مرحوم کارکن کو ایک سفید گاڑی سروس ہسپتال چھوڑ کر گئی۔ ہسپتال اور سیف سٹی کے کیمروں کی مدد سے گاڑی اور اس کے سواروں کو تلاش کیا جارہا ہے لیکن سروس ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر مختار احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلال احمد عرف ظلے شاہ کو پولیس مردہ حالت میں ہسپتال لائی تھی۔

تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ کارکن پولیس تشدد سے جاں بحق ہوا۔ بعض اطلاعات کے مطابق ہلاکت سڑک کے حادثے کے نتیجے میں ہوئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے کچھ حقیقت بہرطور سامنے آسکتی ہے۔ سڑک حادثے میں کارکن جاں بحق ہوا تو حادثہ شہر میں کس جگہ پیش آیا۔ پولیس تشدد سے ہلاکت ہوئی ہے تو کیا یہ واقعہ زمان پارک کے باہر پیش آیا جہاں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں میں جھڑپیں ہوئیں۔

اچھا زمان پارک کے باہر نہر پر پولیس نے ابتداً لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس استعمال کی؟ اس بارے میں متضاد دعوے ہیں لیکن اگر اس سارے واقعہ کے حوالے سے دستیاب ویڈیوز کو ترتیب سے دیکھ لیا جائے تو یہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ پولیس کی بھاری نفری کا پہلا حصہ جونہی زمان پارک کے قریب نہر والے حصے تک پہنچا، ڈنڈے اور لاٹھیاں اٹھائے پی ٹی آئی کے کارکن اس پر چڑھ دوڑے، شدید نعرے بازی کی اور پولیس کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے۔ یہ تصادم کا نکتہ آغاز تھا۔

اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ دو درجن سے زیادہ چینلوں کے کیمرہ مینوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے حامی یوٹیوبرز واقعہ والی جگہ پر بنفس نفیس موجود اور واقعات کی پل پل ویڈیو بنارہے تھے۔ یوٹیوبرز ممکن ہے تعاون نہ کریں لیکن نجی چینلوں سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ ابتداء سے اختتام تک کے ویڈیو کلپس اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن بنتا ہے تو اس کے حوالے کریں۔

اسی طرح وزیراعلیٰ کے ترجمان نے مرحوم کارکن کو سفید گاڑی میں ہسپتال لائے جانے کے حوالے سے ہسپتال اور سیف سٹی کے کیمروں کے حوالے سے جو دعویٰ کیا ہے اس کے حوالے سے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ صوبائی انتظامیہ کو دعوے کا ثبوت تو بہرطور پیش کرنا ہوگا۔

سروسز ہسپتال کے ایم ایس کا موقف بالائی سطور میں عرض کر چکا ۔ یقیناً ہسپتال انتظامیہ کے پاس اپنے موقف کے حق میں موثر شہادتیں ہوں گی وہ بھی ریکارڈ پر لانے کی ضرورت ہے۔

بلال احمد کی وفات افسوسناک ہے۔ 8مارچ کی شام پی ٹی آئی کے بعض ذمہ داران اور چند دوسرے لوگ 2سے 3 افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کرتے اور مرحومین کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہے ان سب سے بھی اپنے دعوئوں کے حق میں موجود شواہد طلب کئے جانے چاہئیں۔

یہ طے شدہ ہے کہ پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں کئی گھنٹوں تک جاری رہیں۔ لاٹھی چارج ہوا، آنسو گیس پھینکی گئی۔ پی ٹی آئی الزام لگارہی ہے کہ واٹر کینن سے گندا زہریلا پانی اس کے کارکنوں پر پھینکا گیا۔ اس کے 50کے قریب کارکن گرفتار کئے گئے۔ 15سے 20کارکن زخمی ہوئے۔

جبکہ پولیس کے 2ڈی ایس پیز سمیت ایک ایس ایچ او اور 15 اہلکار زخمی ہوئے۔

عمران خان نے اپنے مرحوم کارکن بلال احمد عرف ظلے شاہ کے والد کو زمان پارک بلواکر ان سے تعزیت کی۔ ماضی میں بھی وہ وزیراعظم ہائوس بلاکر تعزیت کیا کرتے تھے۔

مرحوم کرکٹر عبدالقادر کے صاحبزادے نے اس طرح کی تعزیت وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا ’’والد میرے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جسے تعزیت کرنی ہے وہ ہمارے گھر تشریف لائے یہی مروجہ طریقہ ہے‘‘۔

زمان پارک والی قیام گاہ کے باہر سے نہر پر مال روڈ والے اشارے تک زمان پارک جانے والی سڑک میدان جنگ بنی رہی۔ پی ٹی آئی کے جو رہنما شام کے بعد ٹی وی کیمروں کے سامنے نمودار ہوکر جذباتی بیانات دے رہے تھے وہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے عمران خان کی قیام گاہ یا اپنے محفوظ ٹھکانوں سے باہر نکل کر کارکنوں کے پاس کیوں نہ پہنچ سکے۔

پی ٹی آئی کے جو ہمدرد نگران وزیراعلیٰ کو کربلا کے ایک منفی کردار سے ملاکر پیش کررہے ہیں انہوں نے یہ اصول اس وقت کیوں نہ اپنایا جب لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ وغیرہ میں اساتذہ، معلمات، نرسوں، ایل ایچ ویز، کسانوں، سرکاری ملازمین (ایپکا اور دوسری تنظیموں والے) مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا؟

اپنے مطلب کےلئے کسی کو قافلہ حسین اور کسی کو یزید قرار دینے کی یہ سیاست بھی عجیب ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کے نومولود حسینی لیڈر نے وزیراعظم کی حیثیت میں کوئٹہ میں پڑی لاشوں کے حوالے سے کیا بیان دیا تھا۔ ان لاشوں کے نام نہاد ورثاء آج بھی عمران خان کے اتحادی ہیں شرم انہیں اس وقت آئی نہ اب نگران وزیراعلیٰ کو یزید قرار دیتے ہوئے۔

پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جھڑپوں سے پیدا شدہ صورتحال یقیناً افسوسناک ہے۔ حالات اس نہج پر کیوں پہنچے۔ دفعہ 144 لگانی تھی یہ ایک دن قبل لگائی جاسکتی تھی۔

تحریک انصاف کا یہ موقف کم از کم میرے لئے حیرانی کا باعث ہے کہ صدر مملکت نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ دے دی تھی اس لئے ہم اپنی الیکشن مہم کا آغاز کررہے تھے۔

انتخابی مہم کا آغاز سوفیصد جمہوری حق ہے مگر انتخابی مہم الیکشن شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی شروع ہوتی اور الیکشن شیڈول 8مارچ کی سپہر آیا۔

اس بحث میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ مرحوم بلال احمد عرف ظلے شاہ کی ذہنی حالت کیا تھی ہم سب سے بہتر اس بارے درست معلومات اس کا خاندان اور اہل محلہ دے سکتے ہیں اور وہ بتا بھی رہے ہیں ۔

تحریک انصاف کے پرجوش مبلغ عمران خان نامی یوٹیوبر نے (ماٗضی میں مختفل چینلز پر اینکر بھی رہے) سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے تین زخمی کارکنوں کی تصاویر جاری کیں اور لکھا ’’پولیس تشدد سے زخمی ہونے والے غدار‘‘۔ پاکستانی سیاست سازشوں اور داعش تک کے گھریلو معاملات کے حوالے سے سب سے زیادہ ’’باخبر‘‘ ہونے کے مدعی اس یوٹیوبر نے ان تین تصاویر میں 2019ء کی ایک وہ تصویر بھی شامل کردی جس میں دیکھائی دینے والے زخمی بزرگ پی ٹی آئی کے دور میں ایک مذہبی جماعت پر ہونے والے پولیس تشدد سے زخمی ہوئے تھے۔

دعوئوں اور معلومات کی یہ اڑان اصل میں پروپیگنڈے میں رنگ بھرنے کا حصہ ہے لیکن اس سے تحریک انصاف کا موقف کمزور ہوا۔

ان تین تصویروں میں ایک تصویر والے شخص کے گلے میں بندھے ایپرن پر لگے سرغ داغ واقعی کسی زخم سے رسنے والے خون کے ہیں یا اس نے سینیٹر فیصل جاوید والا طریقہ واردات اپنایا؟ حرف آخر یہ ہے کہ جو ہوا اچھا نہیں ہوا ایک شخص جان سے گیا 15پولیس اہلکار اور 3افسران زخمی ہوئے۔ پی ٹی آئی کے بھی دودرجن کے قریب کارکنان زخمی ہوئے۔

مکرر عرض ہے دفعہ 144 لگانی تھی تو ایک دن قبل لگاکر اس بدمزگی سے بچا جاسکتا تھا جو 8مارچ کو ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: