اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میم شائشتہ و استاد سعید الرحمان||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میم شائشتہ و استاد سعید الرحمان
گاہے گاہے باز خوانی قصہ ہائے پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
میری پرائمری کی استانی میڈیم نسیم، پرائمری میں ہی استاد محمد شریف دونوں نے ہمیں اسکول اور اپنے گھروں میں پڑھایا –
سرکاری اسکول کی فیس کے سوا کبھی کوئی شئے نہ تو طلب کی اور نہ ہی شام کے وقت اوور ٹائم لگا کر پڑھانے کا معاوضہ طلب کیا-
مڈل سیکشن میں ششم جماعت میں انگریزی کے استاد پطرس سندھو، پھر ہفتم اور ہشتم میں انگریزی کے استاد سید عقیل شاہ صاحب، ایسے ہی ششم سے ہشتم تک ریاضی کے استاد عبدالغنی صاحب، ڈرائنگ کے استاد اللہ بخش صاحب، اردو کے استاد فیروز الدین صاحب، معاشرتی علوم استاد اکرم صاحب، اسلامیات اور عربی کے استاد قاری غلام رسول صاحب یہ سب کے سب ہماری ابتدائی پرداخت میں بہترین رہنمائی کرنے والے بنے – ان میں سے ہر ایک نے امتحانات سے تین ماہ قبل تو لازمی اوور ٹائم لگایا جبکہ انگریزی، ریاضی ان دو مضامین کے مڈل اساتذہ نے تو سارا سال ہمیں اسکول ٹائم کے بعد شام کو ٹیوشن مفت دی –
میں میڈیم نسیم، پطرس سندھو، سید عقیل شاہ کو یہ کریڈٹ دیتا ہوں انہوں نے مجھے انگریزی لغت ساتھ رکھنے اور گاہے بگاہے اُس سے استفادے کی عادت ڈالی اور اس عادت کو پختہ کردیا –
سید عقیل شاہ صاحب نے مجھ سمیت کلاس کے سب لڑکوں کو انگریزی اجزائے کلام اور گرائمر کے اصول اور اُن کی عملی مشق کرنے میں مہارت حاصل کرنے کی طرف راغب کیا –
اردو کے استاد فیروز الدین صاحب نے مجھے ‘قریشی لائبریری’ کی راہ دکھائی اور مڈل درجے میں ہی میں نے قریشی لائبریری کے مالک پی پی پی کے سینئر رکن زاہد قریشی کی رہنمائی میں اردو کے معروف افسانہ نگاروں، عالمی جاسوسی ادب کے تراجم کو پڑھنا شروع کردیا تھا اگرچہ میرا محدود شعور اُن کی کماحقہ سمجھ سے عاری تھا مگر اتنا مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں ان کو پڑھ کر لطف اٹھاتا تھا – دت بھارتی، گلشن نندہ جیسے لکھاری میرے لیے اجنبی نام نہیں رہے تھے –
میں نے اپنے ایک کزن کے زریعے سے اسی قریشی لائبریری سے بچوں کے لیے ممنوعہ سمجھا جانے والا ادب بھی چوری چھپے پڑھنا شروع کردیا تھا جو قریشی صاحب نے مجھے ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ تک پہنچنے کے بعد مانگنے پر بھی کبھی نہیں دیا بلکہ کہا کہ وہ ایسی کتابیں اپنی لائبریری پر نہیں رکھتے لیکن میرا کزن جو مجھ سے بارہ سال بڑا تھا کے زریعے وہ مجھے پڑھنے کو ملتا رہا –
میٹرک تک تو وہ مجھے بشری رحمان، ناز کفیل گیلانی کی کتابوں سمیت پاپولر رومانوی ادب پڑھنے کو بھی نہیں دیتے تھے – حالانکہ اپنے کزن کے زریعے میں تو ایم اے زاہد کے فحش ناول تک پڑھ گیا تھا-
میرے کزن نے منٹو کے افسانوں کا ایک مجموعہ قریشی لائبریری سے ہی کرائے پر لیکر پڑھنے کو دیا اور کہا کہ یہ ایم اے زاہد سے کہیں بڑا ‘سیکسی کہانیاں’ لکھنے والا مصنف ہے اور جب میں نے منٹو کو پڑھا تو مجھے خاک مزا نہ آیا اور اپنے کزن کو کہا’جو مزا ایم اے زاہد کی کتاب’پیرس کی راتوں’ نے دیا وہ منٹو کی کہانیوں میں ہرگز نہیں ہے – ایسے ہی اُس نے عصمت چغتائی کا’ لحاف’ مجھے رازداری سے دیا اور کہا یہ عورت بھی کمال کی’ سیکسی کہانیاں ‘ لکھتی ہے لیکن وہ مجھے کہیں سے بھی’ سیکسی’ نہ لگا – بلکہ ان دنوں میں ہی جب میرے مڈل کے امتحان ہورہے تھے میں نے ‘چھلاوہ’ کہانی جو دو جلدوں میں تھی پڑھ ڈالی جو ‘لیزبین سیکس’ پر لکھی گئی تھی (اگرچہ لیزبین اور گَے جیسی اصطلاحوں سے میں قطعاً آشنا نہ تھا لیکن لیزبین سیکس بارے تو میں جانتا تک نہیں تھا ہاں گَے سیکس کو اور ناموں سے اور ایسے چند کرداروں سے واقف ضرور تھا) مجھے سخت اچنبھا ہوا کہ لڑکی بھلا لڑکی سے کیسے سیکس کرسکتی ہے اور میں جب اپنے کزن سے ملا تو اسے کہا کہ یہ ناول یقینا فرضی اور من گھڑت قصے کہانیوں پر مشتمل ہے –
اُس دور میں چند رازدار دوستوں جو اکثر کزنز وغیرہ ہوتے تھے سے ہی جنسیات پر اٹکل پچو گفتگو کی جاسکتی تھی – لفظ ‘سیکس’ اس کے اردو مترادف سے کہیں زیادہ بدن میں ‘سنسی’ دوڑا دیا کرتا تھا- یہ ایک خفیہ دنیا ہوا کرتی تھی جس کی ہوا بھی بڑوں کو تو کیا عام دوستوں کو لگنے نہیں دی جاتی تھی –
قریشی لائبریری کی کتابیں ہمیں ان جہانوں کی سیر کرایا کرتی تھیں جو درسی کتابوں میں تو ناپید ہی تھی، دادا، دادی، امی، خالاؤں کے سنائے قصے کہانیوں میں بھی دور دور تک نظر نہیں آتی تھی –
میٹرک کے پہلے سال نہم میں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں نے مجھے ایک نئے چسکے سے روشناس کرایا – نہم میں پہنچ جانے کے بعد ہی میں نے وی سی آر پر پہلی ہندوستانی فلم دیکھی اور وہ تھی ‘رام گڑھ کے شعلے’ – یہ موقعہ بھی مجھے میرے بڑے کزن نے دیا (وہ میرا فیس بُک دوست بھی ہے یہ نوٹ پڑھے گا تو اُسے بہت سی بھولی بسری یادیں اپنے حصار میں لے لیں گی – اُسے وہ لڑکی ‘ر’ بھی یاد آئے گی جسے اُس کی چھت پر رات کو لانے کے لیے میں اکثر اُس کے گھر جاکر پیغام دیتا تھا، میں چھوٹا بچہ جان کر آسانی سے پڑوس میں گھر چلا جاتا اور وہ اندھیرے سے ڈرنے کا بہانہ کرکے چھت پر سکھائے کبھی کپڑے لینے یا کسی اور شئے کی تلاش میں میرے ساتھ چلی آیا کرتی تھی اور یوں دو پریمی آپس میں ملاقات کرتے بعد ازاں معاملہ کھلنے پر بڑے ہنگامے کے بعد وہ میرے کزن کی زوجہ محترمہ بن گئی تھیں –
دونوں میں آج بھی ابتدائی دنوں کی طرح کا وہی رومانس برقرار ہے جو مجھے ہمارے عام طور پر ایسے کرداروں میں شادی کی سلور جوبلی ہوجانے کے بعد ڈھونڈے نہیں ملتا)
میٹرک کے دو سالوں میں مجھے ایک دوسرے کی ضد فکر رکھنے والے دو ایسے استاد کرداروں سے واسطہ پڑا جنھوں نے مجھے تاریخ، سماجیات، معاشیات، فلسفہ، سائنس، تھیالوجی کے ایسے اسباق سے روشناس کرایا جنھوں انتہائی سنجیدہ نوعیت کے موضوعات کے مطالعے اور میرے سیاسی سماجی شعور کو ارتقائی مراحل سے گزارنے میں اہم کردار ادا کیا – پہلا کردار مجھے اسکول میں کلاس انچارج اور انگریزی کے استاد سعید الرحمان کی شکل میں ملا جو جماعت اسلامی کے اہم ترین کارکن تھے – دوسرا کردار شام کو ٹیوشن میں میڈیم شائستہ کی صورت میں ملا جو پی پی پی سے وابستہ تھیں اور کٹر کمیونسٹ تھیں – استاد نے مجھے مولانا مودودی کی کتاب ‘سلامتی کا راستا’ (مولانا مودودی کا ہندؤ، سکھ اور مسلمانوں کے اجتماع میں توحید پر دیا جانے والا لیکچر تقسیم ہند سے پہلے، اُن کی پہلی تصنیف بھی کہا جاتا ہے) گفٹ کی اور میم شائستہ نے مجھے میکسم گورکی کے ناول کا اردو ترجمہ ‘ماں’ پڑھنے کو دیا – یوں پورے دو سال فکر و نظر کے دو مختلف دھاروں سے میری ملاقات رہی اور میری سوچ میں نظریات کے دو مختلف دھارے تلاطم بپا کیے رہے-دو سال دونوں اپنی اپنی بھرپور کوشش کرتے رہے – پہلے پہل سبط حسن کی ساری کتابیں، سجاد ظہیر کی روشنائی، فیض سمیت کئی معروف ترقی پسند شاعروں کا کلام، ترقی پسند ادیبوں میں سے معروف نام اور مارکسزم میں کمیونسٹ مینی فیسٹو سے لیکر منتخبات مارکس و اینگلز، منتخبات لینن (چھے جلدیں) ، اور بہت کچھ میم شائستہ کی طرف سے وقفے وقفے میں بطور گفٹ ہاتھ آئے (آج بھی قیمتی سرمایہ ہیں) میم شائستہ نے مجھے دستوفسکی کا ‘ایڈیٹ’ گفٹ کیا اور کہا کہ اسے پبلک میں نہ پڑھوں اس پر پابندی ہے توہین کا الزام ہے-پلیخانوف کی تاریخی مادیت کا اردو ترجمہ گفٹ کیا، سبقا سبقا پڑھانے اور سمجھانے کی کوشش بھی کی (یہ کوشش انھوں نے انٹرمیڈیٹ کے دوران کی تھی، مگر مجھے کچھ زیادہ سمجھ نہیں آیا لیکن سبط حسن کی کتاب ماضی کے مزار نے تاریخی مادیت کے ابتدائی اسباق اچھے سے سمجھائے اور موسیٰ سے مارکس تک نے تو گہرے اثرات چھوڑے)، سعید الرحمان صاحب نے مجھے اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی، اسلامی معشیت، خلافت و ملوکیت، الجہاد فی الاسلام، سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق کا اردو ترجمہ جو حامد علی نے کیا تھا ‘جادہ و منزل’ کے نام سے، روداد جماعت اسلامی، جماعت اسلامی ہند کے امیر کی مودودی صاحب سے خط و کتابت، حسن البنا کی اخوان المسلمون کے تعارف پر مبنی کتاب، مناظر احسن گیلانی، صدر الدین اصلاحی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، آمین احسن اصلاحی کی کتابیں اور پھر سب سے بڑھ کر تفہیم القرآن کی تمام جلدیں (میٹرک کا رزلٹ آنے پر اور پورے اسکول میں تیسری پوزیشن آنے پر) مجھے ھدیہ کیں –
اپنی طرف سے مجھ پر بہت محنت کی – مجھے اسلامی جمعیت طلباء کے دروس قرآن میں لیکر گئے –
میں نے اس دوران اُن سے یہ زیادتی کی کہ انھیں نہ تو کبھی میم شائستہ بارے بتایا اور نہ ہی ان کی طرف سے دیے جانے والے لٹریچر بارے بتایا – لیکن ناول ‘ماں’ نے مجھے ایسا اپنی گرفت میں لیا کہ میں نے میم شائستہ کو سعید الرحمان کے بارے میں سب کچھ بتایا – مجھے تھیاکریسی اور تاریخ کے غیرمادی نظریہ پر سبط حسن کی تنقید میں بڑی جان محسوس ہوتی تھی، معشیت بارے مارکسی تنقید کے مقابلے میں مودودی صاحب کے اسلامی معشیت بارے دلائل سرمایہ داری، جاگیر داری، قبیل داری، غلام داری اور طبقاتی تقسیم کو فطری قرار دینے والے دلائل لگتے تھے اور میرا دل اُسے ماننے پر راضی نہیں ہوتا تھا- وہ مجھے قائل نہیں کرپائے کہ اُن کی بیان کردہ اسلامی معشیت نام کی کوئی چیز سرمایہ داری سے ہٹ کر بھی کوئی شئے ہے اور اس سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہوسکتا ہے – یہ ابتدائی قسم کا فہم تھا جس میں بہت زیادہ گہرائی کہیں بہت بعد میں پیدا ہوئی جب میں نے جرمن آئیڈیالوجی، ڈاس کیپٹل وغیرہ کا باقاعدہ منظم مطالعہ کیا اور مجھے سرمایہ کے ایک سماجی قدر ہونے کی حقیقت سے آشنائی ہوئی – میم شائشتہ سعید الرحمان سے جیت گئیں اور یہ تکلیف دہ حقیقت میں بیس سال بعد اپنے استاد کے گھر ہونے والی ملاقات میں بیان کرنے سے گریز کرگیا جو دو گھنٹوں پر محیط تھی اور میرے استاد دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کو القاعدہ کے ابھار سے درپیش چیلنجز پر بلاتکان بولے جاتے تھے اور جب داعش کا ظہور ہوا تو میں سوچتا تھا کہ اب میرے استاد کا کیا خیال ہے؟ لیکن پھر اُن سے میری ملاقات ہی نہیں ہوئی –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: