اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علیؑ از ڈاکٹر طہ حسین||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فکشن ہاؤس لاہور سے شایع ہونے والی اس کتاب کو سرورق پر مصر کے انشا پرداز ڈاکٹر طہ حسین کی تصنیف اور ترجمہ علامہ عبدالحمید نعمانی (آل انڈیا مجلس مشاورت کے جنرل سیکرٹری) کا بتایا گیا ہے – طہ حسین کی اس کتاب کا عربی متن میرے پاس ہے ایک ترجمہ جو نفیس اکیڈیمی سے شایع ہوا بھی میرے پاس ہے – فکشن ہاؤس سے اس کتاب کا ترجمہ میں نے خرید کیا اور اسے پڑھنا شروع کیا تو پیش لفظ میں معاذ ہاشمی نے یہ بتایا کہ یہ ترجمہ نہیں استفادہ ہے (یہ نہیں بتایا کہ ترجمے سے استفادہ کیا یا اصل عربی متن سے) کتاب پڑھنا شروع کی تو کتاب سے طہ حسین لکھا مقدمہ کتاب غائب پایا، نعمانی صاحب کا لکھا پیش لفظ بھی غائب تھا – جیسے جیسے کتاب کی ورق گردانی کرتا گیا ویسے ویسے صاف پتا چلتا گیا کہ اس کتاب میں ڈاکٹر طہ حسین سے استفادے کی بات بھی بس یونہی لکھ دی گئی تھی – نعمانی صاحب کا نام بھی لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے لکھ دیا گیا ہے – نعمانی صاحب نے تو اپنی ترجمہ کتاب کے پیش لفظ میں دیانت داری سے یہ بھی لکھا تھا کہ ڈاکٹر طہ حسین کی یریذ اور اُس کی حکومت کے بارے میں رائے جمہور کے نکتہ نظر سے ہٹ کر ہے لیکن فکشن ہاؤس سے چھپنے والی کتاب میں یہ بات بھی سرے سے گول کردی گئی –
فکشن ہاؤس سے شایع ہونے والی اس کتاب میں مشاجرات کے باب میں خود امام علی علیہ السلام کی مشہور نزاعی معاملات میں رائے کو مسخ کردیا گیا اور اُن سے وہ کلمات بھی منسوب کردیے گئے جو انہوں نے نہیں کہے تھے –
اس کتاب کو معاذ ہاشمی اگر اپنی تدوین قرار دیتے تو انھیں ہم بددیانتی کا الزام نہ دیتے –
پہلی صدی ھجری کی تاریخ بارے قلم اٹھانے والے فرقہ پرست خاص طور پر ناصبی اور غالی شیعہ جن کو دوسری صدی ھجری میں سُنی اور شیعہ امامی کہلانے والے اعتدال پسندوں نے ‘رافضی’ لکھا اکثر اوقات کلامی مسائل میں جس حتمیت اور قطعیت کے ساتھ جن نظریات کا اظہار کرتے ہیں اور انھیں پہلی صدی ھجری میں بالکل طے شدہ /سیٹلڈ بیانیے بناکر پیش کرتے ہیں وہ پہلی اور دوسری صدی ھجری میں مدون اور مرتب ہونے والے حدیث، تفسیر، فقہ، لغت، ادب، تاریخ کے لٹریچر کی کتربیونت، تدلیس اور دانشورانہ بددیانتی کا نتیجہ ہوتے ہیں – یہ بیمار عادت ناصبیت اور رافضیت کا تو امتیازی نشان ہے ہی یہ آج کے شیعہ امامی اور سُنی فرقہ پرست مصنفین کی عادت ثانیہ بھی ہے- ان عناصر کا یہ طریقہ بھی ہے کہ اکثر کتب کے حوالے دیتے ہیں جن میں وہ عبارات موجود نہیں ہوتیں اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اُن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اُن کو پڑھنے والوں کی اکثریت کی رسائی بنیادی ماخذ تک ہو نہیں پائے گی تو انھیں ان کی طرف سے کی جانے والی بددیانتی کا پتا بھی نہیں چلے گا-
ناصبیت اور رافضیت دونوں اطراف کے متعصب اور تنگ نظر مصنفین تحقیق کے بھیس میں اکثر اپنے بیانیوں اور مقدمات کے ثبوت میں اہل سنت، شیعہ امامیہ کی بنیادی کتب سے حوالے پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہی ہوا کرتی ہے جیسے فکشن ہاؤس سے شایع ہونے والی اس کتاب کے اصل تالیف نگار معاذ ہاشمی کے لکھے بیانیوں کی ہے –
ناصبیت اور رافضیت دونوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلی صدی ھجری میں شہادت عثمان ابن عفان کے بعد مسلم سماج میں پیدا ہونے والی سیاسی تقسیم جس میں شیعان علی کی اصطلاح معروف ہوئی اسے زبردستی رافضیت بتلانے کی کوشش کرتے ہیں – یہاں تک کہ امام علی علیہ السلام کا ساتھ دینے والے جلیل القدر صحابہ کرام جن میں سلیمان بن صرد خزاعی، حجر بن عدی جیسے اور جلیل القدر تابعین جن میں محمد بن ابی بکر، مالک الاشتر، حمق وغیرہ شامل ہیں کو صف رافضیت اور ناصبی انھیں فرقہ سبائیہ میں کھڑے کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اور ناصبیت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اموی پرستی، ملوکیت پرستی اور جبر و ظلم کے علمبرداروں کی طرف داری کو چھپانے کے لیے خود کو اہل السنۃ و جماعۃ کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں –
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اگر وہ دوسری صدی ھجری میں اہل السنۃ و جماعۃ کے بنیادی نظریہ ساز محدثین، مفسرین، فقہا، ماہرین اسماء الرجال و ماہرین انساب سے الگ کرکے بذات خود پہلی اور دوسری صدی ھجری میں شیعان عثمان/معاویہ/یزید /مروان کے نظریات اور بیانیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور انھیں اہل السنۃ و جماعۃ کے نظریہ سازوں کے مقابلے میں برحق بتائیں گے تو کوئی اُن کی بات قبول نہیں کرے گا –
پہلی صدی ھجری اور دوسری صدی ھجری میں مسلم معاشروں کے اندر جو سیاسی نظریات کی بنیاد پر تقسیم ہے اُس کی سماجی-معاشی بنیادوں کو تو فرقوں کے معاصر نظریہ ساز بالاتفاق نسیا منسیا کرتے ہیں کیونکہ پہلی صدی ھجری میں ابھرنے والی سماجی – سیاسی تقسیم کی سماجی – معاشی بنیادیں اُن گروہوں کے سیاسی نظریات کے اُس زمانے کے حکمران طبقات اور محکوم طبقات کے مفادات کی طرف رویوں اور موقف کو بے نقاب کردیں گے اور یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ کون سا موقف ترقی پسند اور کون سا رجعت پرست تھا – کون جابر کے ساتھ تھا اور کون مجبوروں کے ساتھ

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: