مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دشت برچی کابل میں رہنے والے کامریڈ سے بات چیت||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری دشت برچی کابل میں رہنے والے ایک کامریڈ شیر اکبر(نام بدل دیا ہے) سے کل ٹیلی گرام میسنجر پر بات ہوئی – کہنے لگا،
‘ایک تو شیعہ ہزارہ خودکُش بمبار کی جیکٹ میں بھرے بارود، بال بیرنگ، کیلوں سے مرجاتے ہیں- جبکہ بہت سارے وقت پر ہسپتال نہ پہنچائے جانے، ہسپتال میں ادویات، سرجیکل آلات، آپریشن تھیڑز کی بری حالت وغیرہ سے مرتے ہیں یا ساری عمر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں – طالبان جب سے آئے کابل میں ہیلتھ سسٹم سارے کا سارا بربادی اور تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے – ایک طرف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی شدید کمی ہے کیونکہ ہزاروں لوگ طالبان کے خوف سے بھاگ گئے ہیں اور خاص طور پر عورتیں – آج جب صبح 8 بجے کے قریب ایک خودکش بمبار نے یہاں کاج ایجوکیشنل سنٹر پر ہائر ایجوکیشن کے لیے داخلوں کے خواہش مند لڑکے اور لڑکیوں کے انٹرنس ایگزام سنٹر پر خود کو اڑایا تو موقعہ پر ہی درجنوں لڑکے لڑکیاں جن کی عمریں 16 سے 17 سال کے درمیان تھیں یا تو ماری گئیں یا شدید زخمی ہوئیں – زخمیوں کو لیجانے کے لیے ایمبولینس، پیرامیڈیکل اسٹاف کی شدید کمی تھی، ہسپتال کی حالت بہت خراب ہے اور فوری طبی امداد نہ ملنے سے بھی کئی اموات ہوئیں – کم از کم محتاط اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 44 ہوگئی ہے -"
کامریڈ شیر اکبر جس کا گھرانا نسلی طور پر ہزارہ، مذھبی طور پر شیعہ اور سیاسی اعتبار سے افغانستان ڈیموکریٹک پارٹی کے خلق دھڑے سے جڑا تھا اور اُس کے دادا، نانا، والد، چچا، تایا، ماموں اور یہاں تک کہ دادی، نانی، والدہ، خالائیں، پھوپھیاں، چچی بھی خلقی تھیں – کابل یونیورسٹی اور کابل انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم یافتہ گھرانہ، کنبہ تھا جن کے اکثر مرد پہلے افغان مجاہدین خاص طور پر حکمت یار کے گروپ کے ہاتھوں مارے گئے اور پھر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کا نشانہ بنے – اُن کی کمیونسٹ اور شیعہ، ہزارہ شناختیں اُن کے قتل اور اُن کی تعذیب کا جواز ٹھہر گئیں – سرد جنگ کے زمانے میں مغرب افغان مجاہدین کے جرائم پر پردہ ڈالتا رہا اور بعد ازاں طالبان و حقانی نیٹ ورک کے جرائم پر ایران، پاکستان، مڈل ایسٹ کی وہابی بادشاہتیں پردہ ڈالتی رہیں – وہ مجھ سے سوال کرتا کرتا گیا
پاکستان، ایران، روس، قطر، ترکی، چین جنھوں نے طالبان کے کابل پر کنٹرول کو خوش آمدید کہا اور یہ بیانیہ دیا کہ طالبان افغانستان میں امن قائم کریں گے تو انھوں نے امریکہ و یورپ کی امداد کے بند ہونے، امریکہ و یورپ کی طرف سے سابق افغان رجیم کے بنک اثاثوں کے منجمد ہونے کے بعد افغانستان کی غذائی اور صحت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اب تک تسلی بخش اقدامات کیوں نہیں کیے؟ یہ سب ممالک دعوے کررہے تھے کہ افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول سے عورتیں، اقلیتیں خاص طور پر ہزارہ شیعہ مسلمان برادری کی تعذیب اور نسل کُشی بند ہوجائے گی – لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا – کیا ہم ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی طرح ان ممالک نے بھی ہمیں تعذیب و نسل کُشی کا نشانہ بننے کے لیے بھیڑ بکریوں کی طرح جہادیوں کے آگے ڈال دیا ہے؟
ایران، پاکستان، ترکی، مشرق وسطیٰ کی مسلمان ریاستوں نے پہلے سرد جنگ میں امریکی سرمایہ داری بلاک کے ساتھ مل کر ہمارے خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت نام نہاد افغان مجاہدین کو دی، پھر طالبان کو دی – ہم جیوسٹریجک اور عالمی پراکسیوں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں اور کیا اس کی زمہ داری سے یہ ممالک اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟
وہ مجھ سے یہ سوال بھی کررہا تھا کہ پاکستان کی عوام جنھوں نے اپنی اسٹبلشمنٹ کے بنائے جہادیوں اور فرقہ پرست دہشت گردوں کے ہاتھوں صرف نائن الیون کے بعد ایک لاکھ سے زائد لوگ مروائے اور آج پھر ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گرد افغان طالبان کے مہمان بنے ہوئے ہیں اور پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع افغان صوبوں میں افغان طالبان کی میزبانی سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں تو اُن کی اکثریت اپنی نمائندہ سیاسی جماعتوں کی قیادت سے یہ کیوں سوال نہیں کرتے کہ وہ امن کہاں ہے جو بقول ان کے حامی پاکستانی فوجی و سویلین قیادت کے نہ صرف افغانستان میں امن لانے والے تھے بلکہ پاکستان کو بھی دہشت گردی سے نجات دلانے میں ممد ومعاون ثابت ہونے والے تھے؟
اُس نے مجھے کہا کہ پاکستان کا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جو خود کو سوشل ڈیموکریٹ، سنٹر لیفٹ کہتے ہیں وہ کیسے افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی میزبانی کرنے کو ہضم کیے بیٹھے ہیں اور امریکہ سے افغان طالبان کے حوالے اربوں ڈالر کے بینک کھاتے کرنے کی اپیل کرتے ہیں؟ (یہ سوال کرتے ہوئے اُس نے پیپلزپارٹی اور بھٹوز سے میرے عشق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پیشگی معذرت بھی کی) –
وہ کہتا ہے کہ پاکستان کی تعلیم یافتہ اربن مڈل کلاس کی ایک بھاری تعداد جو عمران خان کی حامی ہے یہ سوال کیوں نہیں کرتی کہ وہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے باہمی تعاون اور افغان طالبان رجیم کی طرف سے ٹی ٹی پی کی سرپرستی جبکہ اُس کے مربی جرنیلوں جیسے فیض حمید ہے کی طرف سے ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور انھیں سابق فاٹا و سوات میں دوبارہ منظم ہونے دینے جیسے اقدامات کے بعد افغانستان میں شیعہ ہزارہ کی حفاظت میں ناکامی پر سوال کھڑے کیوں نہیں کرتی؟ کیا انھیں ٹی ٹی پی سمیت دیگر جہادیوں کے ہاتھوں پاکستان میں شیعہ چاہے وہ نسلی اعتبار سے ہزارہ ہوں یا پشتون ہوں یا سرائیکی ہوں یا بلوچ ہوں یا پنجابی ہوں یا سندھی ہوں کی پرسیکوشن /تعذیب اور نسل کُشی نظر نہیں آتی؟
پاکستان کی مین سٹریم جمہوری بورژوازی سیاسی جماعتوں کی قیادت جو آج فوجی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت کررہی ہیں اُن کا افغانستان میں شیعہ ہزارہ کی جاری نسل کُشی اور اسٹبلشمنٹ کے طالبان رجیم نواز پالیسی معذرت خانہ /اپالوجیٹک موقف کیوں ہے؟ پاکستان کی پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کمیٹی میں موجود سویلین وزیراعظم، سویلین وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ نے کیسے فوجی اسٹبلشمنٹ کی افغان طالبان نواز پالیسی کو قبول کرلیا؟ اس معذرت خواہانہ پالیسی کے بعد اُن میں اور عمران خان میں فرق کیا رہ گیا ہے؟ کیا یہ سٹریٹیجک ڈیپتھ، ڈیپ سٹیٹ پالیسی کے آگے سرنڈر نہیں ہے؟
کامریڈ شیر اکبر نے میرے سامنے یہ سوال بھی رکھا کہ پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور مرکزی و صوبائی تنظیموں میں وہ لوگ جو خود کو سوشلسٹ/لیفٹسٹ /سوشل ڈیموکریٹ کہتے ہیں انھوں نے پیپلزپارٹی افغان طالبان رجیم بارے آفیشل پالیسی پر کسقدر مزاحمت اور سوال اٹھائے ہیں؟ کیا انھوں نے سوچا ہے کہ افغان طالبان نواز پالیسی کے آگے لیٹ جانے سے خود پاکستان میں مذھبی و نسلی اقلیتیں تحفظ کا احساس رکھیں گی؟
یہ سب سوالات بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں لیکن کیا میں اپنی پارٹی کہ قیادت سے ان سوالات کے جواب لے سکوں گا؟، کامریڈ شیر اکبر نے یہ آخری سوال میرے سامنے رکھ کر کال منقطع کردی

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: