مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی کے علاقے گلبرگ میں انجمن سادات امروہا کا مرکز ہے۔ یہ آرٹس کونسل جیسی جگہ ہے جہاں علمی اور ادبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ماضی میں بڑے بڑے مشاعرے یہاں ہوئے ہیں جن میں پاکستان ہندوستان کے نامور شعرا شریک ہوئے۔ لیکن ایک مشاعرہ مجھے یاد ہے جو مختصر پیمانے پر ہوا۔ مرکزی مقام، جہاں اب شاہ ولایت اسکول قائم ہے، کے بجائے وہ مشاعرہ ہال کی چھت ہوا تھا جہاں چند سو افراد ہی شریک ہوسکتے تھے۔ نوے کی دہائی کے شروع کے کسی سال کا وہ مشاعرہ مجھے اس لیے یاد ہے کہ پہلی بار منیر نیازی کو سامنے بیٹھ کر سنا تھا۔ ان کی باری تین بجے آئی تو چھت سخن فہم لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے بعد صدر مشاعرہ تابش دہلوی نے کلام سنایا تو مجھ سمیت پندرہ بیس افراد ہی وہاں موجود تھے۔ باقی سب جاچکے تھے۔
منیر نیازی کو بہت سے لوگ منفرد کہتے ہیں لیکن عام طور پر ایسا ایک دوسرے کو سن کر کہہ دیا جاتا ہے۔ بیشتر نے ان کے صرف مشہور شعر سنے ہوئے ہیں،
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہوگیا لیکن کبھی رویا نہیں
یا ان کی نظم ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں مقبول ہے۔ میں نے کسی لٹریچر فیسٹول یا ادبی کانفرنس یا تنقیدی مضمون میں اس منیر نیازی کو نہیں پایا، جو سچ مچ انوکھا ہے اور کسی کا مقلد نہیں۔
دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں
اتنا خیال اس کا ہمیں اس برس نہیں
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جاکر مگر رہا نہ کرو
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو
حسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہوگیا
شرماتے ہوئے بند قبا کھولے ہیں اس نے
یہ شب کے اندھیروں کے مہکنے کی گھڑی ہے
منیر نیازی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری ساری عمر اپنی کم علمی اور نادانی کو چھپانے میں گزر جاتی ہے۔ چونکہ میں اپنی کم عملی کو نہیں چھپاتا اور ادیب یا نقاد بھی نہیں ہوں اس لیے بے باکی سے اپنی رائے کا اظہار کردیتا ہوں۔ اور میرے خیال میں پاکستان کے سب سے زیادہ اوریجنل دو شاعر جون ایلیا اور منیر نیازی ہیں۔ یہ دونوں باقی سب شعرا سے مختلف ہیں۔ ان کا لہجہ اور انداز پچھلوں سے الگ تھا۔ جون کو البتہ بہت سے مقلد مل گئے اور منیر نیازی یہاں بھی یکتا ہیں کہ نہ انھوں نے کسی کی تقلید کی اور نہ کوئی ان کی تقلید کرسکا۔
میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آکے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کرلیا میں نے بھی وعدہ کرلیا
جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آجاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آجاتے ہیں
شعر میں کہانی تو ہر اچھا شاعر سناتا ہے لیکن منیر کی فن کاری یہ ہے کہ وہ شعر میں منظر دکھاتے ہیں۔ ایسی جزئیات بعض اوقات افسانہ نگار نہیں پیش کرپاتے،
اک تیر تیز تھا جو لگا اور نکل گیا
ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
گھٹا دیکھ کے خوش ہوئی لڑکیاں
چھتوں پہ کھلے پھول برسات کے
میں جو منیر اک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا
اس کی چق کی تیلیوں سے ریشم کے شگوفے پھوٹے
نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیر
میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
اور یہ شعر اس قدر کمال کا ہے کہ کوئی شیعہ شاعر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ صرف منیر نیازی کہہ سکتے تھے،
چمک رہے ہیں تعزیے بلا کی تیز دھوپ میں
مہک ہے آب مرگ کی فشار عرق پاش میں
منیر نے ایک جگہ دلچسپ جملہ لکھا ہے کہ ہم شک کے موسموں میں پیدا ہوئے۔ اس جملے کو ذہن میں رکھ کر ان کے یہ شعر دیکھیں،
یقین کس لیے اس پر سے اٹھ گیا ہے منیر
تمھارے سر پہ یہ شک کا عذاب کیوں آیا
جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
اسیر خواہش قید مقام تو ہے کہ میں
نظام شمس و قمر کا غلام تو ہے کہ میں
ہے کون دونوں میں ظاہر، ہے کون پردے میں
چھپا ہوا ہے جو نظروں سے دام، تو ہے کہ میں
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ جون ایلیا کی طرح منیر نیازی دہریے تھے۔ ہرگز نہیں۔ انھوں نے حمدیں، نعتیں بلکہ امام حسین کے لیے سلام بھی کہے ہیں،
وہ جو منکشف ہے جگہ جگہ
وہ جو سب سے آخری راز ہے
میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمد شاد رکھتا ہے مجھے
خواب جمال عشق کی تعبیر ہے حسین
شام ملال عشق کی تصویر ہے حسین
ان کا ایک مجموعہ کلام خدا کے نام ہے، ایک رسول کے نام، ایک امام حسین کے نام۔ ایک قدرت اللہ شہاب کے نام بھی ہے۔ اس کا سبب دوستی یا نیازمندی ہوگی لیکن میں نے اس نام میں قدرت کا لفظ پایا۔
منیر نیازی کے باقی مجموعہ کلام والد، والدہ اور دو بیویوں کے نام ہیں۔ ایک پاکستان کے نام بھی ہے۔ لیکن یہ معنی خیز اشعار بھی پڑھنے لائق ہیں،
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
آخری مصرع میں اس کا اشارہ فوج کی طرف ہے تو معنویت واضح ہوجاتی ہے۔
مجھے طویل تحریروں اور نظموں کے بجائے مختصر کلام زیادہ پسند آتا ہے۔ منیر نیازی نے بہت سی مختصر نظمیں کہی ہیں،
نظم: ایک دفعہ
اک دفعہ
وہ مجھ سے لپٹ کر
کسی دوسرے شخص کے غم میں
پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی
نظم: بچوں جیسی باتیں
آج کا کام نہ کل پر ٹالو
جو کچھ لکھنا ہے لکھ ڈالو
جانے پھر کب موت آجائے
دل کی دل ہی میں رہ جائے
نظم: میں اور میرا سایہ
اک دفعہ میں آگے بھاگا
اور وہ میرے پیچھے
اک دفعہ وہ آگے آگے
اور میں اس کے پیچھے
منیر کی ایک مشہور نظم تو ایسی ہے کہ اس کا عنوان بڑا ہے اور نظم چھوٹی ہے،
نظم: وقت سے آگے گزرنے کی سزا
آدمی تنہا رہ جاتا ہے
منیر نیازی کی نظموں کے عنوان ایسے مختلف ہیں کہ ان پر مقالہ لکھا جاسکتا ہے،
مذہبی کہانیوں کا درخت
خدا کو اپنے ہم زاد کا انتظار
ایک امت کے گزرنے کے بعد کا وقت
ایک دعا جو میں بھول گیا تھا
خزانے کا سانپ
بھوتوں کی بستی
دشمنوں کے درمیان شام
ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
دوست ستارے کو چمکتے رہنے کا اشارہ
ان لوگوں سے خوابوں میں ملنا ہی اچھا رہتا ہے
پہلی بات ہی آخری تھی
منیر نیازی مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم کے بعد انھیں آبائی شہر چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی شاعری میں ہجرت کا دکھ نظر آتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہ دکھ ہندوستان سے آنے والے کا نہیں، پاکستان چھوڑنے والے کا معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد زندگی کا بیشتر وقت لاہور میں گزارا لیکن ان کی نظموں اور غزلوں میں بار بار وطن سے دوری اور تنہائی کا احساس ہے۔ امریکا آنے کے بعد مجھے ان کی شاعری کے اس پہلو کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔ کچھ میں حالات کی سختی کا بھی شکار ہوں، جس میں یہ شعر حوصلہ دیتے ہیں،
ہم ہیں مثال ابر مگر اس ہوا سے ہم
ڈر کر سمٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
ہیں سختی سفر سے بہت تنگ پر منیر
گھر کو پلٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
میں نے منیر نیازی کی کلیات کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردی ہے۔ ان کی شاعری وہ آپ کو محبت کے نئے رنگوں سے آشنا کرے گی، ہجر کے لمحات میں وصال کی آرزو زندہ رکھے گی، مایوسی کے لمحات میں حوصلہ دے گی اور جب آپ غور و فکر پر آمادہ ہوں گے تو سوچ کے نئے زاویے دکھائے گی۔
All reactions:

450

9 comments
22 shares
Like

Share
یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: