اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں جب سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے "ہم” ٹی وی میں عادل شاہزیب کے سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان کو مکمل اور تمام معاملات میں صادق و امین قرار نہیں دیا تھا۔ اور جب یہ کلمات کہے کہ میں اب کسی کو انٹریو نہیں دوں گا، میرے مرنے کے بعد ایک کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے،1997سے لے کر چیف جسٹس کے عہدے تک کی ساری کہانی لکھوں گا۔ تو مجھے نا جانے کیوں اولیور کرامویل یاد آ گیا۔
پاکستانی سیاست کے خارزار سے پاوں مزید زخمی کرنے کی بجائے آئیے آپ کو برطانوی تاریخ سے کرامویل کے بارے میں بتائیں۔
17ویں صدی میں برطانیہ بادشاہت سے جمہوریت کے ارتقائی سفر کی طرف گامزن تھا۔ شاہ چارلس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا، جس پر جمہوری جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ پارلیمنٹ نے ان احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ پارلیمنٹ نے شاہی دستوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج تشکیل دی، جس کی قیادت اولیور کرام ویل نے سنبھالی۔ لیفٹیننٹ جنرل اولیور کرام ویل کی قیادت میں جمہوریت پسندوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور 30جنوری 1649کو شاہ چارلس کا سر قلم کر دیا گیا۔
توقع تو یہ تھی کہ اس فقید المثال کامیابی کے بعد جمہوریت کی صبح خوش جمال کا سورج طلوع ہو گا لیکن ایک بار پھر آمریت کا گرہن لگ گیا۔ جنرل اولیور کرام ویل نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا مذاق اڑایا۔ 3ستمبر 1658کو کرام ویل ملیریا کے باعث مر گیا تو اس کے بیٹے رچرڈ نے اقتدار سنبھالا۔
عوامی بغاوت کے نتیجے میں رچرڈ کو معزول ہونا پڑا تو جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے شاہ چارلس دوم کو بلا کرعنانِ اقتدار اُس کے حوالے کر دی گئی۔ پارلیمنٹ میں مطالبہ ہوا کہ اولیور کا ٹرائل کیا جائے ۔ یہ سوال کھڑا ہوا کہ مرُدے سے سوال جواب کیسے کئے جا سکتے ہیں؟ قانونی ماہرین نے رائے دی کہ کرام ویل کی ہڈیاں نکال کر ان سے سوالات کئے جائیں اور جب کوئی جواب نہ آئے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اولیور کرام ویل نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔ اس کے بعد عدالت فیصلہ سنادے۔ چنانچہ اولیور کرام ویل کی قبر کھود کر اس کے ڈھانچے کو زنجیروں میں جکڑ کو کٹہرے میں لایا گیا۔ اسے فردم جرم پڑھ کر سنائی گئی۔ ٹرائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی تو علامتی طور پر اس کا سر قلم کر کے باقیات پھینک دی گئیں جبکہ کھوپڑی نشان عبرت کے طور پر پارلیمنٹ کے باہر ایک کھمبے سے لٹکا دی گئی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر