اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چہرہ بدلنے کا نتیجہ آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔||رؤف لُنڈ

اور کس کس گھر میں اب بھی جگر گوشے جان دینے کو ایڑیاں رگڑ رھے ہیں؟ آج کسی کو یاد نہیں رہا کہ کس کے دوست، بزرگ، باپ، والدہ، بھائی اور بہن نے کچھ دن پہلے کسی بنیادی ضرورت کے پورا نہ ہونے پر زہر پھانک لیا ھے۔ کون کون آٹے کی تھیلی لینے کیلئے پیسے مٹھی میں لے کے گیا مگر تھیلی اٹھائے بغیر پیٹھ میں پولیس کے چابک کھا کے لوٹا۔ اور پھر کس کس گھر کی عزت روٹی کے ایک لقمے کے بدلے نیلام ہوئی ھے۔

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راجن پور/این اے 193 چہرہ بدلنے کا نتیجہ آ گیا، حالات کا ماتم پھر سے شروع ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ذلتوں سے نجات کا یقین قائم ھے اور قائم رھے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرمایہ دارانہ طبقاتی سماج میں ہونے والے انتخابات سے عوام کے مقدر نہیں بدلتے بلکہ محض چہرے بدلتے ہیں کیونکہ ایسے انتخابات میں بالادست طبقے کے امیدواروں کے ملکیتی رشتوں کو چیلنج نہیں کیا جاتا۔ اس طرح جیتنے یا ہارنے والوں کی نہ تو جائیداد اور وسائل کی تقسیم ہوتی ھے اور نہ ان کی لوٹ مار کے ذرائع ختم ہوتے ہیں۔۔۔
سو ایک کھیل تماشا ہوتا ھے۔ اور کھیل تماشا جتنا بھی گندا ہو تماشہ بین اکٹھے کر لینا اس کا ہنر اور خاصہ ہوتا ھے۔ اس لئے چونکہ ھم لوگ بھی جو اس حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں کئی دن تماشا بنے رھے۔۔۔
تماشا دکھانے والی وھی تین بڑی جماعتیں میدان میں تھیں جو پہلے سے ھی سامراجی آقاؤں کے مفادات کی مداری بن کر لوگوں سے تماشا کر رھی ہیں یعنی پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن ۔۔۔۔ یہ سیٹ تحریک انصاف کے جعفر لغاری کی موت کے بعد خالی ہوئی ۔ اس حلقے میں اصل مقابلہ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا تھا۔ جو ایک ھی خاندان سے تھے اور دونوں ھی فاروق لغاری کی سیاست ( علاقہ کو پسماندہ رکھنے ) کی میراث کے وارث تھے۔
یہاں تحریک انصاف اپنی ھی نشست جیتنے کا دفاعی میچ کھیل رھی تھی جبکہ مسلم لیگ ن، حملہ آور کے طور پر۔ تحریک انصاف کے امیدوار محسن لغاری (بطور صوبائی وزیر) سابقہ ناقص بلکہ قابلِ نفرت کارکردگی کے ساتھ میدان میں تھے۔ اور مسلم لیگ ن کے لوگوں کو یہی خوش فہمی تھی کہ شاید ھم جیت جائیں ۔ مگر وہ بھول گئے کہ ان کے اپنے امیدوار عمار لغاری ایک تو اس بر سرِ اقتدار جماعت کے امیدوار ہیں جو لوگوں کی شدید غربت اور بھوک میں بھی پٹرول، بجلی اور روز مرہ کی بنیادی ضروریات کی مہنگائی کے بم گرا رھی ھے۔ اور دوسرا عمار لغاری کے چہرے سے اس کے باپ اویس لغاری اور دادا فاروق لغاری سے نفرت کے داغ ابھی دھلے نہیں تھے۔ اور نہ شاید کبھی دھل سکیں گے۔۔۔۔۔
مسلم لیگ ن کے عمار لغاری کسی حد تک پانسہ پلٹ سکتے تھے کہ اگر وہ اپنے دادا فاروق لغاری کے لگے پودوں سے (جو اب درخت بن چکے تھے) کچھ چھاؤں طلب کرتے۔ مگر اس کے اور اس کے والد کے دماغ میں بسی رعونت کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کی منتیں سماجتیں کرتے۔ الٹا اویس لغاری نے اپنے باپ کے قدموں میں اور جعفر لغاری کے کندھے کیساتھ زندگی گزارنے والوں کو پولیس ، مقدمات، دھونس دھمکیاں دینا شروع کردیں ۔ مگر اب وہ وقت نہیں رہا تھا۔ ایک تو یہ سب اویس اور عمار کو کل کے بچے سمجھتے تھے دوسری اھم بات کہ ان سب کو اب دریشک سرداروں کی چھتر چھایا حاصل ہو چکی تھی۔ نتیجۃً فاروق لغاری کے بیٹے اور پوتے کا ہر حربہ نا کام ٹھہرا۔ جعفر لغاری کے ساتھی، دریشکوں کے دوست اور عمران خان کے نوجوان جم کے کھڑے رھے۔ اس طرح تحریکِ انصاف اپنی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک آدھ بات پیپلز پارٹی کی شان میں۔ وہ یہ کہ جس طرح کسی شخص پر رنگ پھینک دینے سے اس کی زندگی رنگین نہیں ہو جاتی اسی طرح سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور اسٹیبلشمنٹ جیسی عوام دشمن قوتوں کے مفادات کا محافظ بن کر ، ان کی گماشتہ جماعتوں کے شریکِ اقتدار ہو کر اور پارٹی تنظیموں پر مردم بیزار لوگوں کو مسلط کر کے سب کچھ حاصل ہو سکتا ھے مگر عوام کا پیار کھو جاتا ھے۔ سو عوام کے پیار کے بغیر اکا دکا کارکن جتنا ٹیں ٹیں کر سکتے تھے کرتے رھے مگر دھن دولت کے نقارخانے میں طوطی(کارکنوں) کی آواز کی حیثیت ھی کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آخری بات ہر جماعت کے ہر غریب اور محروم سے کہ بہت تماشہ ہو چکا۔ دولت کے یہ پجاری اس طرح کے تماشوں سے ہمیں تماشہ بنا کر، ھم محروموں اور مظلوموں کی توہین اور ھماری زندگیوں سے کھلواڑ کرتے رہینگے ۔ ضرورت ھے کہ کھیل بدلا جائے۔ تماشے کے کردار بدلے جائیں۔ عوام سے نفرت کرنے والوں کو عوامی نفرت، غیض و غضب اور انتقام کا نشانہ بنایا جائے کہ اسی میں ھم سب کی بقا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ

 کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ

زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ

رؤف لُنڈ کی مزید تحریریں

%d bloggers like this: