اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افسانے ہر طرف بکھرے ہیں۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور میں کوئینز روڈ پر ایک امیریکن سنٹر تھا۔ پہلے اُس کی ممبرشپ مفت ملتی تھی۔ بعد میں ساٹھ روپے کر دی گئی تو بہت دھچکا سا لگا۔ میں بھی اکثر ٹرین پر جاتے محبوب سے پھول پکڑی ہوئی ہیٹ والی لڑکی اور بروک شیلڈز کے پوسٹرز دیکھتے دیکھتے بڑے شوق سے وہاں جایا کرتا تھا۔ اندر خاموشی ہوتی، کوئی اونچی آواز میں بات نہ کرتا۔ فلموں پر کتب دیکھنے کا کبھی اتفاق ہوتا تو ساری ’ہاٹ‘ اور بے باک تصاویر اپنی جگہ سے غائب ملتیں۔ امت کا کوئی فرد کاٹ کر اُنھیں ساتھ لے گیا ہوتا تاکہ خیالی جماع کے دوران آسانی ہو۔
ایک آڈیو لائبریری بھی تھی، اور فلمیں دیکھنے کا ہال بھی۔ پھر جمعیت اور جماعت نے امریکہ فتح کرنے کا تہیہ کر لیا۔ تقریباً ہر دوسرے روز کھولتے ہوئے اُمتی وہاں جمع ہوتے، ٹائر جلاتے، نعرے لگاتے، قریب ہی فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی لڑکیاں سہمی نظروں سے دیکھتیں۔
جلد ہی وہ لائبریری بند کر دی گئی۔ وہاں پی ٹی سی ایل کا آفس بن گیا، اور پھر فیڈایکس کا آفس جہاں اُمتی اپنے ویزوں کی درخواستیں جمع کروانے لمبی قطاروں میں لگے ہوتے ہیں۔
ایک صاحب کراچی میں رہتے تھے۔ اُنھیں اُن کی بیوی نے چھوڑ دیا، وہ لاہور آ گئے۔ پتا نہیں کیا کرتے تھے، کہاں رہتے تھے۔ اُن کی کمر پہ کُب تھا اور وہ سیدھا کھڑا بھی نہ ہو پاتا۔ پیٹ پر ایک پٹکا سا باندھا رکھتا۔ ایسے کرداروں کا مسکن انارکلی تھا۔ وہ صاحب نظریات پرستوں کے گرما گرم تبصروں کی آنچ سے کچھ بچ کر خاموش بیٹھا رہتا۔ شاید ہی کسی سے بات کرتا۔ چائے کا آرڈر دیتا، جب گرما گرم کپ آتا تو اُس میں تھوڑا پانی اور برف بھی ڈال لیتا۔
ایک دوست کے ہاتھ میں اقبال کی ’ری کنسٹرکشن آف اسلامی تھاٹ‘ کی چمڑے والی مجلد کتاب تھی۔ ایک بار اُس نے کہا، ذرا دکھانا! کتاب لے کر یونہی کسی جگہ سے کھولی، ایک لائن پر انگلی رکھ کر کہا، ’’یہ دیکھو اس نے کیا ماری ہے!‘‘ اُس نے کہا، ’’فلسفہ کتابوں سے نہیں آتا۔‘‘ اور منہ دوسری طرف کر لیا۔
اُس نے یہ بھی بتایا کہ پہلے وہ باقاعدگی سے امیریکن سنٹر جایا کرتا تھا، لیکن وہ بند ہو گیا تو داتا صاحب چلا جاتا ہے وقت گزارنے۔
میں افسانے نہیں لکھتا۔ لکھے ہی کیوں جائیں؟ افسانے ہر طرف بکھرے ہیں، قاری نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: