نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب سلطان سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔چند صحافی دوست جن کی پیشہ وارانہ رائے کو میں سنجیدگی سے لیتا ہوں مسلسل ان کی تعریف کرتے ہیں۔دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششوں کے بارے میں تحقیقی مضامین لکھنے والے بھی ان کے معترف ہیں۔ان میں سے چند ٹھوس معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھاتے ہیں کہ وطن عزیز میں دہشت گرد تنظیموں کا سراغ لگاکر انہیں مفلوج بنانے میں انٹیلی جنس بیورو نے آفتاب سلطان کی قیادت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان کا دعویٰ میری اس سوچ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ دہشت گردی جیسے پیچیدہ مسائل پر قابو پانے کے لئے انٹیلی جنس بیورو جیسے ’’سول‘‘ اداروں کو توانا بنانا لازمی ہے۔اس ادارے کے کلیدی افسر پولیس سروس کی نمائندگی کرتے ہیں۔مختلف اضلاع میں پوسٹنگ کی بدولت حقیقی زندگی میں موجود ان رحجانات کو بخوبی سمجھتے ہیں جو مایوس وناراض ہوئے افراد کو بالآخر مذہبی انتہا پسندی کے جنونی کارندے بنادیتے ہیں۔
دہشت گردی کے موضوع پر پیشہ وارانہ نگاہ رکھنے والے صحافیوں اور محققین کے علاوہ ان ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والا ایک اورگروہ بھی ہے۔ وطن عزیز میں وہ منتخب حکومت کو ریاست کے دائمی اداروں کے مقابلے میں بالادست دیکھنا چاہتا ہے۔یہ گروہ اصرار کرتا ہے کہ عمران خان صاحب کی قیادت میں نواز حکومت کے خلاف اسلام آباد میں 2014کے دوران 126دنوں تک جاری رہا دھرنا درحقیقت منتخب حکومت کے خلاف ایک ’’سازش‘‘ تھی۔ اس کا اصل مقصد نواز حکومت کو اہم ریاستی امور سے متعلق ’’خودمختار‘‘ پالیسیاں تیار کرنے کی سکت سے محروم رکھنا تھا۔ آفتاب سلطان کے پرستار دعویٰ کرتے ہیں کہ انٹیلی جنس بیورو کو میسر جاسوسی کے جدید ترین آلات کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے مبینہ ’’سازش‘‘ ناکام بنادی گئی۔اس ضمن میں چند ’’ٹیپس‘‘ کا ذکر بھی ہوتا ہے جو دھرنے کے مبینہ پشت پناہوں کو سنوائی گئیں تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔
میرے جھکی ذہن نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ نواز حکومت کے خلاف مبینہ طورپر رچائی ’’سازش‘‘ ناکام ہوگئی تھی۔وہ ناکام ہوگئی ہوتی تو نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل نہ ہوتے۔ ان کی فراغت کے بعد شاہد خا قان عباسی کی حکومت کے دوران بھی ایک اور تنظیم نے مذہبی جذبات بھڑکاتے ہوئے اسلام آباد کو کئی دنوں تک ’’حصار‘‘ کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔ انٹیلی جنس بیورو کی ’’مہارت‘‘ ان دنوںکہیں نظر نہیں آئی۔ بالآخر امن وامان کی بحالی کے لئے عباسی حکومت کو ان ہی قوتوں سے رجوع کرنا پڑا جن کی ’’بالادستی‘‘ مجھ جیسے ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کو بہت کھلتی ہے۔ کالم کا اصل موضوع مگر آفتاب سلطان ہیں۔انٹیلی جنس بیورو کی کارکردگی فی الوقت زیر بحث نہیں۔
میرے عزیز دوستوں کے پسندیدہ آفتاب سلطان نے منگل کی صبح نیب بیورو کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ان کا دیا استعفیٰ اگرچہ حیران کن ’’خبر‘‘ نہیں تھی۔ چند روز قبل ہمارے ایک متحرک ساتھی منصور علی خان نے اپنے وی لاگ میں اشاروں کنایوں میں اس کا ذکر شروع کردیا تھا۔ اسلام آباد سے ایک’’بڑا استعفیٰ‘‘ آنے کا منصور نے جب ذکر کیا تو صحافیوں اور کالم نگاروں کی اکثریت نے اپنے تئیں یہ فرض کرلیا کہ آئی ایم ایف کے روبرو ڈھیر ہوجانے کے بعد اسحاق ڈارصاحب وزارت خزانہ سے مستعفی ہونا چاہ رہے ہیں۔چند باخبر دوستوں سے ٹیلی فون پر رابطے کے بعد البتہ مجھے یہ خبر ملی کہ ڈار صاحب نہیں بلکہ نیب چیئرمین مستعفی ہونا چاہ رہے ہیں۔ جس روز مجھے یہ خبر ملی اس دن منصور علی خان نے بھی وضاحت سے اپنے ایک اور وی لاگ میں اس کی تصدیق فراہم کردی۔
بات کھل گئی تو رپورٹروں کی ذمہ داری تھی کہ ان وجوہات کا سراغ لگاتے جو آفتاب سلطان جیسے ’’دبنگ اور بااصول‘‘ افسر کومستعفی ہونے کو مجبور کررہی تھیں۔اس جانب مگر بروقت توجہ نہیں دی گئی۔ بالآخر منگل کی صبح آفتاب سلطان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی اور ان کا استعفیٰ منظور ہونے کی خبر سرکاری ذرائع سے فراہم کردی گئی۔ استعفیٰ کی وجہ سرکاری پریس ریلیز میں ’’ذاتی‘‘ بتائی گئی ہے۔
جو وجہ بیان ہوئی وہ احمقانہ تھی کیونکہ منگل ہی کے دن ’’ذرائع‘‘ کی بدولت ٹی وی سکرینوں پر چند ٹکر بھی چل رہے تھے۔ ان پر اعتبار کریں تو خبر یہ ملتی ہے کہ استعفیٰ منظور ہوجانے کے بعد آفتاب سلطان نے نیب ہیڈکوارٹر میں اس ادارے کے سینئر افسران سے الوداعی خطاب کیا۔ اس کے دوران مبینہ طورپر انکشاف کیا کہ ان پر چند افراد کے خلاف نیب کے متحرک ہونے کے لئے دبائو بڑھایا جارہا تھا۔اس کے علاوہ چند چہیتوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کا تقاضہ بھی ہوا۔
عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے باوجود مجھے ٹی وی سکرینوں پر چلائے ٹکرز سے ’’اندر کی بات‘‘ ڈھونڈنے کی علت آج بھی لاحق ہے۔ ٹکروں کی بدولت ملے پیغام کی کلید ڈھونڈ رہا تھا تو خبر آئی کہ نیب بیورو نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو غیر ممالک سے ملے چند تحائف کو ذاتی استعمال کے لئے خریدنے کی بابت اٹھے سوالات کا جواب دینے کیلئے طلب کرلیا ہے۔میڈیا کے ذریعے اجاگر کئے پیغام کا جائزہ لینے کی عادت مجھے اصرار کرنے کو اُکسارہی ہے کہ حقیقت جو بھی رہی ہو خلق خدا کی اکثریت اب دو جمع دو کی منطق استعمال کرتے ہوئے یہ سوچے گی کہ آفتاب سلطان پر عمران خان کے خلاف ’’کچھ کرنے‘‘کو دبائو ڈالا جارہا تھا۔اس ضمن میں ان کی جانب سے برتی مزاحمت موصوف کے استعفیٰ کا حقیقی سبب ہوئی۔
آفتاب سلطان کا استعفیٰ منظور ہوجانے کے بعد نیب کی جانب سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کی طلبی اب ان کے حامیوں کو ’’انتقامی کارروائی‘‘ ہی محسوس ہوگی۔ لوگوں کی اکثریت یہ بات بھول جائے گی کہ اپنے الوداعی خطاب کے دوران مستعفی ہوئے چیئرمین نیب نے چند افراد کے ساتھ ’’نرمی برتنے‘‘کے دبائو کابھی ذکر کیا تھا۔انتہائی معذرت کے ساتھ لہٰذا لکھنے کو مجبور ہوں کہ آفتاب سلطان اگر اپنی شہرت کے عین مطابق واقعتا ’’دبنگ اور بااصول‘‘ افسر ہوتے تو ’’ذاتی‘‘ کے استعمال سے جند چھڑانے کی کوشش نہ کرتے۔اپنے دئے استعفیٰ میں تفصیل سے بیان کردیتے کہ وہ کون لوگ تھے جو انہیں فلاں فلاں شخص (جن میں عمران خان بھی شامل تھے) کے خلاف نیب کو حرکت میں لانے کے لئے دبائو ڈال رہے تھے۔اس کے علاوہ ان ’’قوتوں‘‘ کا ذکر بھی لازمی تھا جو چند افراد کو نیب کے شکنجے سے آزاد کروانا چاہ رہے تھے۔ تفصیلی وجوہات سے کنی کتراتے ہوئے آفتاب سلطان صاحب سعادت حسن منٹو کی بتائی’’باجو کی گلی‘‘ سے امان کی تلاش میں ایک مشکل مقام سے نیویں نیویں ہوکر کھسکتے ہی محسوس ہوئے ہیں۔ اپنے استعفیٰ کے حوالے سے ’’ذاتی‘‘ کے استعمال سے انہوں نے جو ابہام پھیلایاہے وہ سیاسی اعتبار سے فقط عمران خان اور ان کی جماعت کے کام آئے گا۔نیب اگر اب ٹھوس بنیادوں پر بھی سابق وزیر اعظم کو چند سوالات کے جواب فراہم کرنے کو طلب کرے گا تو موجودہ حکومت کا فرماں بردار ’’کارندہ‘‘ ہی نظر آئے گا۔عمران حکومت کے دوران جاوید اقبال کی سربراہی میں ان دنوں کی اپوزیشن کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں ہورہی تھیں اب کی بار دوسرے کرداروں کے خلاف بروئے کار نظر آئیں گی۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر