نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے اندازِ سیاست کی بابت سینکڑوں تحفظات کے باوجود میں اس جماعت کی ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کی جرأت رندانہ سے مرعوب ہوا ہوں۔ہفتے کے دن سوشل میڈیا پر ایک آڈیو وائرل ہوئی۔ مبینہ طورپر وہ ڈاکٹر صاحبہ اور پولیس کے ایک دبنگ شمار ہوتے افسر کے مابین ہوئی گفتگو پر مشتمل تھی۔ جس افسر سے گفتگو ہوئی وہ چودھری پرویز الٰہی کے چہیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی حکومت تحلیل ہوئی تو موصوف اپنے منصب سے ہٹادئے گئے۔انہیں بحال کروانے کے لئے فریاد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت تک پہنچائی گئی۔حتمی فیصلہ آنے سے قبل مگر ایک آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اس کی بدولت تاثر یہ پھیلا کہ موصوف کو ان کے سابقہ منصب پر واپس لانے کے لئے نظام انصاف کو ’’مینج‘‘کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ تاثر غلط ہے یا درست ؟یہ طے کرنا میرے بس کی بات نہیں۔بحالی البتہ ہوگئی۔
بحالی کی خبر ملنے کے بعد وائرل ہوئی آڈیو میں ڈاکٹر صاحبہ مذکورہ پولیس افسر سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کرتے ہوئے یہ جاننے کو بے چین سنائی دیں کہ انہوں نے اپنے منصب کا چارج سنبھال لیا ہے یا نہیں۔ چارج سنبھالنے کا اہل بنانے والے احکامات مذکورہ افسر کو مگر اس وقت تک باقاعدہ انداز میں موصول نہیں ہوئے تھے۔ دفتری امور سے متعلق دستاویزات کی سست روی کے عمل سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے اگرچہ پرامید تھے کہ بالآخر چارج سنبھال لیں گے۔
ڈوگر صاحب یعنی مذکورہ افسر لاہور پولیس کے سربراہ رہے ہیں۔وفاقی یاصوبائی یا دونوں حکومتوں نے باہم مل کر عمران خان صاحب کو گرفتا ر کرنے کا فیصلہ کرلیا تو اس ضمن میں ’’آپریشن‘‘ کی کمانڈ موصوف کے ہاتھوں میں ہوگی۔ عمران خان صاحب کی دیرینہ اور دبنگ وفادار ہوتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ اسی باعث بے قراری سے یہ معلوم کرنا چاہ رہی تھیں کہ مذکورہ افسر اپنے منصب پر بحال ہوگئے ہیں یا نہیں۔اس تناظر میں ’’آج کی رات‘‘ خیریت سے گزرجانے کا تذکرہ بھی ہوا۔
کسی سیاستدان کو شرمندہ کرنے کی خاطر ’’نامعلوم‘‘ ذرائع سے سوشل میڈیا پر آڈیولیکس ہوں تو وہ عموماََ مضحکہ خیز عذر تراشتے ہوئے برسرعام لائی گفتگو کی تردید نہ کرے تب بھی مصر رہتا ہے کہ اس کی جانب سے ہوئی گفتگو کے ’’ٹوٹے‘‘ جوڑ کر اسے بدنام کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ جمعرات کے دن چودھری پرویز الٰہی نے اپنی ذات سے منسوب لیکس کے بارے میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحبہ نے لیکن معذرت خواہانہ رویہ ہرگز اختیار نہیں کیا۔ کیمروں کے روبرو آکر اگرچہ مگرچہ میں وقت ضائع کئے بغیر بنیادی سوال یہ اٹھایا کہ ہمارے شہریوں کے مابین ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو ریکارڈ کرنے کا نظام ’’کون‘‘ چلارہا ہے۔یہ معلوم کرنے کے لئے انہوں نے مبینہ طورپر ’’آئین کے تحت‘‘ چلائی ریاست کی شہری ہوتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کا عہد بھی باندھا۔
مجھے امید ہے کہ جس روز یہ کالم چھپے گا تگڑے اور نامور وکلاء کی مدد سے ڈاکٹر صاحبہ ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کو ریکارڈ کرنے والے بندوبست کا سراغ لگانے کیلئے عدالت سے رجوع کرچکی ہوں گی۔ان کی پیش قدمی ہمارے دلوں میں کئی مہینوں سے جمع ہوتے سوالات کے عدالتی تحرک کی بدولت اطمینان بخش جوابات ڈھونڈنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔اپنے ہدف کے حصول کے لئے وہ ڈٹی رہیں تو ’’تاریخ‘‘ بنادیں گی۔
وطن عزیز میں ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو ریکارڈ کرنے کے لئے ریاست کے چند دائمی مگر ’’خفیہ‘‘کہلاتے اداروں کی جانب سے بچھائے ’’دام شنیدن‘‘کی داستان بہت پرانی ہے۔ایسی ریکارڈنگ مگر برسرعام نہیں لائی جاتی تھیں۔ کم لوگوں کو یاد رہا ہوگا کہ ’’ریکارڈ‘‘کی خاطر جمع ہوئے ذخیرے میں سے اپنے سیاسی مخالفین وناقدین کو شرمندہ کرنے کے لئے آڈیو لیکس کا سلسلہ عمران حکومت کے دوران ہی شروع ہوا تھا۔ جو لیکس اس حکومت کے دوران ہوئیں ان کا حتمی ہدف تاہم محترمہ مریم نواز رہیں۔ ان کے والد جب وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے تو انہوں نے غیر رسمی انداز میں ان کی حکومت کے دفاع کے لئے ’’میڈیا سیل‘‘ تشکیل دیا تھا۔ اس سیل کے لئے مختص کمرے میں بیٹھ کر جو گفتگو وہ ٹیلی فون پر کرتی رہیں وہاں موجود چند ’’بااعتماد‘‘ کارندے ریکارڈ کرتے رہے۔ حکومت بدلی تو یہ کارندے نئے ’’مہربان‘‘ تلاش کرناشروع ہوگئے۔ان تک ریکارڈ شدہ ’’سودا‘‘ پہنچادیا گیا۔ کسی ریاستی ادارے کا اس عمل میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ صاحب اختیار لوگوں کی سرپرستی کے متلاشی افراد کی ’’ذاتی‘‘ کارروائی تھی۔ عمران حکومت نے اسے اپنے ناقدین اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کیا۔ میں بھی ایک ’’ٹوکری‘‘ کی وجہ سے اس کی زد میں آیا۔
گزشتہ چند مہینوں سے مگر آڈیو لیکس محض ’’ذاتی‘‘ ایڈونچر نظر نہیں آرہیں۔جو لیکس ہوتی ہیں وہ ٹھوس سیاسی ہدف کے حصول کے لئے سوچ سمجھ کر اپنائی ’’کمیونی کیشن سٹرٹیجی‘‘ کا واضح اظہار ہیں۔ عمران خان صاحب کی تحریک عدم اعتماد کے دوران اپنائی حکمت عملی کو مختلف لیکس سے عیاں کرنے کے بعد ’’تحفے تحائف‘‘ کی بابت چلی اور بعدازاں سابق وزیر اعظم کی ذاتی زندگی سے جڑے چند سکینڈل بنانے کی کوشش بھی ہوئی۔ جو اہداف ان لیکس کے ذریعے حاصل کرنا مقصود تھے وہ مگر میسر نہ ہوئے۔ عاشقان عمران اپنے قائد کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔
تازہ ترین لیکس کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کا نشانہ مگر عمران خان یادیگر سیاستدانوں کی ذات نہیں ہے۔ہدف اب ایک ’’ادارہ‘‘ ہے ۔ اس کا اعتبار جاتا رہا تو وطن عزیز میں ’’انصاف‘‘ سے ہم کامل محروم ہوا محسوس کریں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کے بجائے جو ادارہ تازہ ترین لیکس کی زد میں آیا ہے ازخود اس کارخانے اور بندوبست کا سراغ لگانے کی پیش قدمی لیتا جو نجانے کتنے پاکستانیوں کو نشان زد کرنے کے بعد ان کی ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو مسلسل ریکارڈ کررہا ہے۔
بے شمار ’’دام شنیدن‘‘ پر مبنی جو بندوبست ہے خطیر ریاستی سرمایہ کاری،جدید ترین ڈیجیٹل آلات اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہنر مندوں کی بھاری بھر کم تعداد کو معقول تنخواہوں پر ملازم رکھے بغیر استوار کرنا ممکن ہی نہیں۔سمجھ یہ بھی نہیں ا ٓرہا کہ ’’دیوالیہ‘‘ ہوئی ریاست متاثرکن حد تک مربوط نظام کیسے چلارہی ہے۔سوال یہ بھی اٹھانا ہوگا کہ مذکورہ بندوبست کے ہوتے ہوئے بھی چند دہشت گرد جمعہ کے روزکراچی پولیس کے ایک اہم ترین دفتر میں کیسے داخل ہوگئے اور پانچ گھنٹوں تک ہمار ے دل ودماغ کو احساس تحفظ سے محروم کئے رکھا۔ اپنے عہد پر ڈٹے رہتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ یقینا مذکورہ تناظر میں قوم کی ’’مادرِ مہربان‘‘ ثابت ہوسکتی ہیں۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر