نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزرے برس کا آغاز ہوتے ہی اسلام آباد میں افواہیں گردش کرنے لگیں کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کی گیم لگائی جا رہی ہے۔ سرگوشیاں حد سے بڑھیں تو عملی اعتبار سے ریٹائر ہوا رپورٹر بیدار ہو گیا۔ گوشہ نشینی سے وقتی کنارہ کشی کا فیصلہ کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے چند سرکردہ رہ نماﺅں سے رابطہ کرنے کو مجبور ہو گیا۔ کئی ملاقاتوں کے بعد نتیجہ نکالا کہ ٹھوس یا کھوکھلی بنیادوں پر اپوزیشن جماعتوں کے دلوں میں خوف یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ عمران خان صاحب 28 نومبر2022ء سے چھ ماہ قبل فیض حمید کو آرمی کا سربراہ نامزد کرنے کا ”فیصلہ کر چکے ہیں“۔
آرمی چیف کی ایسی نامزدگی 1991ء میں بھی ہوئی تھی۔ جنرل اسلم بیگ نواز حکومت کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ انہیں اس برس کی 17 اگست کو ریٹائر ہونا تھا۔ غالباََ میعاد ملازمت میں توسیع کے خواہاں بھی ہوں گے۔ مرحوم آصف نواز جنجوعہ کو مگر 11 جون کے دن ان کا جانشین نامزد کر دیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اب کی بار یہ واقعہ چھ ماہ قبل ہو سکتا ہے۔
عمران خان صاحب واقعتا چھ ماہ قبل والی نامزدگی کرنا چاہ رہے تھے یا نہیں؟ میرے پاس اس شبے کی تائید یا تردید کے لئے ٹھوس شواہد موجود نہیں۔اپوزیشن جماعتوں نے مگر اس ”خبر“ کو نہایت سنجیدگی سے لیا۔اس خوف میں مبتلا ہوگئے کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے بعد عمران خان صاحب ان کے سرکردہ رہ نماﺅں کی زندگی مزید اجیرن بنا دیں گے۔احتساب بیورو کے علاوہ ایف آئی اے بھی انہیں بدعنوانی اور منی لانڈرنگ وغیرہ کے الزامات کے تحت طویل عرصے تک جیلوں میں ڈال دے گی۔ چوٹی کے چند رہ نماﺅں کو نواز شریف کی طرح انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دلوانے کی کوششیں بھی یقینی تصور ہونا شروع ہو گئیں۔
عمران خان کے ”دس برس تک پھیلے“ اقتدار کے امکان سے کہیں زیادہ اپنی جند بچانے کے لئے اپوزیشن جماعتیں باہمی تلخیاں بھلا کر یکجا ہونا شروع ہو گئیں۔ میرا دھیان مگر روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے امکانات پر مرکوز ہو گیا۔ جنگ بالآخر شروع ہوگئی تو عالمی امور کا طالب علم ہوتے ہوئے اس سوچ سے پریشان ہونا شروع ہو گیا کہ مذکورہ جنگ کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک کی معاشی مشکلات میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔ پیٹرول کی مہنگی قیمت کے علاوہ غذائی بحران کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ مذکورہ تناظر میں بہتر یہی محسوس ہوا کہ عمران حکومت ہٹانے میں عجلت سے کام نہ لیا جائے۔ تخت یا تختہ والی جنگ میں مصروف سیاستدانوں کی تاہم اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد نہ صرف پیش ہوئی بلکہ کامیاب بھی ہو گئی۔
عمران خان صاحب کی فراغت کے بعد فوری انتخاب لازمی تصور کئے۔ شہباز حکومت میں شامل اہم ترین وزراء مگر نجی ملاقاتوں میں تواتر سے اصرار کرنا شروع ہو گئے کہ پاکستان دیوالیہ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اب سیاست نہیں ریاست بچانا مقصود ہے۔ ریاست بچانے کے لئے مفتاح اسماعیل سے عوام کی کمر توڑنے والے فیصلے کروائے گئے۔ 2022ء اور 2023ء کا بجٹ بھی پیش کر دیا گیا۔ ریاست بچانے کی اگر واقعتا ٹھان لی گئی تھی تو مفتاح اسماعیل کو ذلت آمیز انداز میں وزارت خزانہ سے فارغ کرنے کا جواز موجود نہیں تھا۔ موصوف نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کی راہ ڈھونڈ نکالی تھی۔ انہیں کامل اختیار کے ساتھ اپنے تیارکردہ بجٹ کو کاملاً لاگو کرنے کا موقعہ فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ (نون) کو مگر اب ”سیاست“ بچانے کی فکر بھی لاحق ہو گئی۔ امید یہ دلائی گی کہ اسحاق ڈار اپنا تجربہ ڈالر اور مہنگائی کوقابو میں لانے کیلئے استعمال کریں گے۔ ”برادر ممالک“ سے ”دیرینہ مراسم“ کی بدولت چند سہارے بھی تلاش کر لیں گے۔
ڈار صاحب سے ”عوام دوست“ نسخوں کی امید باندھتے ہوئے یہ حقیقت بھلا دی گئی کہ ”برادر ممالک“ میں اب نئی نسل برسراقتدار آ چکی ہے۔ ان کی ترجیحات اپنے بزرگوں سے قطعاََ مختلف ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی شہباز شریف اور ان کے بااعتماد وزراء جن ”برادر ملکوں“ میں گئے ان کی قیادت نہایت خلوص سے یہ پیغام سفارتی زبان میں مسلسل دیتی رہی کہ پاکستان کے عوام کو ریاستی خزانے سے ادا کردہ ”امدادی رقوم“ کے ذریعے سستا تیل اور گیس فراہم کرنا ”غیر دانش مندانہ“ رویہ ہے۔ پاکستان اس کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ صاف لفظوںمیں دیا مذکورہ پیغام نجانے کیوں لندن میں مقیم نواز شریف اور اسحاق ڈار تک نہ پہنچا یا گیا۔ سارا دوش مفتاح کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا۔
ڈار صاحب موصوف کی جگہ تعینات ہوئے تو آئی ایم ایف کو اڑی دکھانا شروع ہو گئے۔ ان کے رویے نے ”ریاست“ کو ایک بار پھر خطرے میں ڈال دیا۔ وقت کا ایک بار پھر تقاضہ تھا کہ ریاست کو بچانے کے لئے مزید تلخ اقدامات لینے سے قبل عوام سے رجوع کیا جائے۔ انتخابی مہم کے دوران تمام سیاسی جماعتیں عوام کے روبرو وہ حکمت عملی رکھیں جو ان کی دانست میں ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے علاوہ متوسط طبقے کو سکڑنے سے بھی بچا سکتی ہے۔ واضح نظرآتی پیش قدمی سے مگر اجتناب برتا گیا۔ جنرل باجوہ بھی دریں اثناءاپنی میعاد ملازمت میں مزید توسیع کے حصول کے لئے ”وکٹ کے دونوں طرف“ کھیلنا شروع ہو گئے۔ شہباز حکومت ان کی بلف کال کرنے سے گھبراتی رہی۔ دل ہی دل میں البتہ ٹھان لی کہ 28 نومبر کا سرجھکائے انتظار کیا جائے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی شہباز صاحب کے ہاتھوں ہی ہو۔ ہاپنتے کانپتے یہ مقصد بھی بالآخر حاصل کر لیا گیا۔
اس کے حصول کے بعد ایک بار پھر ریاست بچانے کی فکر لاحق ہو گئی۔ ڈار صاحب کو آئی ایم ایف کے روبرو سر جھکانا پڑا۔ امید ہے کہ مہنگائی کا ایک اور طوفان بھڑکانے والے جو اقدامات لئے گئے ہیں وہ قومی اسمبلی سے منی بجٹ منظور ہو جانے کے بعد آئی ایم ایف کی دل میں تھوڑی نرمی لا پائیں گے۔ یہ توقع بھی باندھی جا رہی ہے کہ اگلے ماہ کے وسط تک پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی روکی رقم میسر ہو جائے گی۔ اس کے بعد دوست اور برادر ممالک بھی ہمیں سہارے دینے کو آمادہ ہو جائیں گے۔
آئی ایم ایف اگر رضا مند ہو گیا تو شہباز حکومت کو ایک بار پھر یہ موقع مل جائے گا کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی اور عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ہوئے معاہدے کی بحالی کے بعد نئے انتخاب کی تیاری کرے۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں کی پشت پناہی سے انتخابات کے انعقاد کے لئے تشکیل پائی ”نگراں حکومت“ آئی ایم ایف کی تسلی کے لئے طے ہوئے فیصلوں پر ”سیاسی نقصان“ کے خوف کے بغیر عمل درآمد یقینی بنا سکتی ہے۔ ریاست بچا لینے کے عوض شہباز حکومت کو اپنی ”میعاد ملازمت“ میں توسیع کا تقاضہ نہیں کرنا چاہیے۔ کسی بھی حقیقی سیاستدان کے لئے ایسا تقاضہ یہ تاثر پھیلاتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے انتخابات سے فرار کی راہ ڈھونڈ رہا ہے۔”سیاست“ بچانے کے لئے انتخابی میدان میں اترنے کو ہمہ وقت تیار نظر آنا لازمی ہے۔ علم سیاست کی اس بنیادی حقیقت کو مسلم لیگ (نون) میں شامل ”کائیاں اور تجربہ کار سیاستدانوں“ کا ہجوم نہ جانے کیوں سمجھ نہیں پا رہا ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر