مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کارل مارکس کی قبر ، فریڈرک اینگلز کی تقریر اور لِزی سِڈل کا بے مثال حسن||نذیر لغاری

ہم ہائی گیٹ قبرستان (Highgate Cemetery) جانے کیلیے جب اُس سڑک پر پہنچے تو ہم پاگل خانے پہنچ گئے۔ برطانیہ میں بطور نظام جنم لینے والی سرمایہ داری نے یہاں بھی اُستادی سے کام لیا کہ اگر مارکس کی قبر، ہائی گیٹ قبرستان جا رہے ہو تو پہلے پاگل خانے سے گزر کر جاؤ۔
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تیسری بار ہائی گیٹ کے علاقے کی طرف جا رہا ہوں۔ پہلے جولائی 1999ء میں، پھر دسمبر2016ء میں اور اِس بار ستمبر 2022ء میں جارہا ہوں۔ ہر بار میرے کانوں میں فریڈرک اینگلز (Frederick Engels) کی تقریر گونجنے لگتی ہے۔

"14 مارچ 1883ء کو سہ پہر تین بجے ہمارے عہد کے سوچنے والے سب سے بڑے دماغ نے سوچنا بند کردیا ہے۔ ہم نے بمشکل دو منٹ کیلیے اُسے اکیلا چھوڑا اور جب ہم واپس آئے توہم نے اُسے کرسی پر پُرسکون انداز میں سوتا ہوا پایا۔ وہ ہمیشہ کیلیے سو چکا تھا۔ اس شخص کی موت سے یورپ اور امریکا کی (نظریاتی طور پر مسلّح) محنت کش طبقے (Proletariat) اور تاریخی سائنس دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس عظیم جذبے کے جانے سے جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اُسے بہت جلد محسوس کیا جائے گا”۔
میں آگے بڑھ رہا ہوں۔ اینگلز کے الفاظ ایک بڑی حقیقت کے طور پر میری سماعت پر اپنے اثرات مرتّب کر رہے ہیں۔ وہ کارل مارکس (Karl Marx) کی تدفین کے موقع پر سوگواروں سے خطاب کر رہا ہے۔ اینگلز کئی عشروں سے اُس کا فکری اور عملی رفیقِ کار ہے۔ دونوں نے ساتھ مل کر دنیا میں رائج بے رحمانہ اور ظالمانہ نظام اور اس کے جبر کو بے نقاب کیا۔ فریڈرک اینگلز اپنی تقریر میں کہہ رہا ہے۔
"جس طرح ڈاروِن نے نامیاتی فطرت کی نشوونما کا قانون دریافت کیا، اِسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ کی ترقّی کا قانون دریافت کیا۔ ایک سادہ سی حقیقت ہے جو اب تک ایک نظریے کی افزائش سے پوشیدہ ہے کہ بنی نوعِ انسان کو سب سے پہلے کھانا، پینا، رہائش اور لباس حاصل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سیاست، سائنس، آرٹ اور مذہب وغیرہ کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس لیے فوری طور پر مادی ذریعۂ معاش کے حصول اور اس کے نتیجے میں مخصوص لوگوں یا کسی مخصوص دورمیں معاشی ترقّی کی وہ بنیاد بنتی ہے جس پر ریاستی اداروں، قانونی تصوّرات، آرٹ اور یہاں تک کہ عقائد سے متعلّق نظریات کی روشنی میں اِن کی وضاحت کی جانی چاہیے، اور یہ اِس کے بالکل برعکس ہے جیسا کہ اب تک ہوتا رہا ہے۔
مارکس نے زندگی بھر سب سے زیادہ سرمائے پر کام کیا۔ اُس نے وہ قوانین دریافت کیے جو پیداوار کو سرمائے کی ماتحتی میں دے دیتے ہیں۔ گویا یوں اُس کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ پیداوار کی فاضل قدر یا قدرِ زائد دریافت کی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار مارکس نے اپنی والدہ سے اپنی ضرورتوں اور تنگدستی کا ذکر کرکے اُن سے مدد مانگنی چاہی تو ماں نے مارکس کو بہت بُرا بھلا کہہ کر یہ جواب دیا کہ جتنا تم نے سرمائے کے خلاف لکھا ہے، اگر اتنا سرمایہ کمانے کیلیے لکھا ہوتا تو تمہیں مجھ سے مدد طلب کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اینگلز نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا؛
"مارکس نے محض اِتنا ہی کام نہیں کیا بلکہ اُس نے موجودہ دور کے طرزِ پیداوار اور اِس سرمایہ دارانہ معاشرے کو قابو میں رکھنے والے مُحرّک کا خصوصی قانون بھی دریافت کیا، جس نے پیداوار کے اس انداز کی تشکیل کی ہے۔ قدرِ زائد کی اس دریافت نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی جسے حل کرنے کیلیے سرمایہ دارانہ ماہرینِ معاشیات اور سوشلسٹ ناقدین دونوں کی تمام تحقیقات اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اِس طرح کی دو دریافتیں کسی کی زندگی بھر کیلیے کافی ہوں گی۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے ایسی ایک بھی دریافت کرنے کا موقع ملا مگر مارکس نے محض ایک شعبے کی نہیں بلکہ بہت سے شعبوں میں اِس طرح کی چھان بین کی ہے۔ اُس کی کوئی بھی چھان بین سطحی طور پر نہیں ہوئی بلکہ اُس نے ریاضی سمیت ہر شعبے میں آزادانہ دریافتیں کیں”۔
مارکس کی سماجی سائنس، عملی سائنس کے اُصولوں پر استوار کی گئی ہے۔ اُس نے جدلیاتی مادیّت (Dialectical Materialism) کے ساتھ تاریخی مادیّت کے اصول بھی دریافت کیے۔ اُس نے سماج میں موجود وہ جوہر دریافت کیا جو تصادم اور ارتقاء پر استوار ہوتا ہے اور اِسی کا نام جدلیاتی مادیّت رکھا گیا۔
ہم ہائی گیٹ قبرستان (Highgate Cemetery) جانے کیلیے جب اُس سڑک پر پہنچے تو ہم پاگل خانے پہنچ گئے۔ برطانیہ میں بطور نظام جنم لینے والی سرمایہ داری نے یہاں بھی اُستادی سے کام لیا کہ اگر مارکس کی قبر، ہائی گیٹ قبرستان جا رہے ہو تو پہلے پاگل خانے سے گزر کر جاؤ۔ ہم نے پاگل خانے جانے والا راستہ چھوڑ کر مُتبادل راستہ اختیار کیا اور ایک اسکول اور بڑے پارک سے گزر کر ہائی گیٹ قبرستان کے دروازے تک جا پہنچے۔ میری معلومات کے مطابق یہ واحد قبرستان ہے جہاں داخلے کیلیے فیس مقرر ہے۔ گویا سرمائے کے خلاف لڑنے کے اُصول وضع کرنے والے کی قبر پر جانا ہو تو چھ ڈالر سرمایہ دے کر جاؤ۔ جب ہم پہلے یہاں آئے تھے تو داخلے پر بائیں جانب کو استقبالیہ اور کچھ مارکسی کتابچوں کے علاوہ بعض دیگر اشیاء کا اسٹال ہوتا تھا۔ اب وہ اسٹال دائیں جانب کر دیا گیا ہے۔ گویا اب بائیں بازو کے اسٹال کو بند کر کے دائیں بازو پر اسٹال کھولا گیا ہے اور قبرستان میں کچھ مذہبی مُورتیوں اور دیگر علامات کی بہتات بھی کر دی گئی ہے۔ ہمارے دوسرے دورے کے بعد کچھ مارکس دشمن افراد نے اُس کی قبر پر حملہ کر کے اِس پر کندہ ایک قول کو مِٹانے کی کوشش کی تھی مگر حملہ آوروں کی یہ کوشش رائیگاں گئی کیونکہ ہم جب وہاں پہنچے تو وہ قول بھی اپنی جگہ پر بحال کیا جا چکا تھا جسے سُنہری الفاظ میں لکھا گیا تھا۔ یہاں بھی سرمایہ داری نے اُستادی کی، قبر پر درج الفاظ کا سُنہری رنگ سونے اور سرمائے کی اہمیت کو اُجاگر کر رہا ہے۔ ویسے آپ وہ قول بھی پڑھ لیں جسے مِٹانا ضروری سمجھا گیا تھا۔
"فلسفیوں نے محض دنیا کی (تفہیم کیلیے) تعبیر و تشریح کی تاہم اصل نکتہ یہ ہے کہ اسے تبدیل کیسے کیا جائے”، اِس قبر میں مارکس کے علاوہ اُس کی اہلیہ جینی وان ویسٹ فالن (Jenny von Westphalen)، ان کی ایک بیٹی، دو نواسے اور ایک ملازمہ دفن ہیں۔ کارل مارکس کو اِسی قبرستان میں پہلے ایک مقام پر دفن کیا گیا تھا مگر قبر پر ہجوم لگنے کے بعد اُسے موجودہ مقام پر دفن کیا گیا۔
اِس قبرستان میں مارکس کے علاوہ ڈاک کے جدید نظام کے بانی راؤلینڈ ہل (Rowland Hill)، نامور ناول نگار جارج ایلیئٹ (George Eliot)، عکسبندی کے بانی ولیم فرائز گرین (William Friese-Greene) کے علاوہ مارکس کی موت سے 21 سال قبل 11 فروری 1862ء کو انتقال کر جانے والی ایک محنت کش خوبصورت خاتون کی قبر بھی موجود ہے جس کے حُسن نے ایک ثقافتی تحریک کو جنم دیا۔ اِس تحریک نے اس خاتون لِزی سِڈل (Lizzie Siddal) کی زندگی میں ہی کئی شعری اور آرٹ کی تخلیقات کو جنم دیا۔
اِس خاتون کے حُسن سے متاثر ہو کر شروع ہونے والی تحریک کو رافیلائٹزم (Raphaelitism) کا نام دیا گیا۔ اِس تحریک نے اُس کے چہرے کو دنیا کا حسین ترین چہرہ بنا دیا۔ دنیا کے نامور مصوّر اور اِس تحریک کے بانی ڈانٹے گیبریئل روزیٹی (Dante Gabriel Rossetti) نے اس حسین چہرے کی ایک ہزار انداز سے تصاویر بنائیں۔ اِس ظالم مصوّر نے بڑے جنون اور والہانہ پن سے اُس کی تصویریں بنائیں۔ پھر اُس نے لِزی سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد عاشق شوہر بن گیا اور شوہر بے وفا ہو گیا۔ اُس نے اِس حسین چہرے اور جسم پر تشدّد کرنا شروع کر دیا۔ ازدواجی زندگی کی مختصر گھڑیاں ادب اور آرٹ کیلیے کئی اچھُوتے موضوعات دے گئیں۔ لِزی نے سکون کی تلاش میں بے حس کر دینے والی دواؤں کا استعمال شروع کر دیا۔ ایک روز اُس نے دوا کی زیادہ مقدار لی اور خودکشی سے پہلے اپنی موت کے اسباب پر ایک تحریر چھوڑ دی۔
میں کارل مارکس کی قبر سے لِزی سِڈل کی قبر کی جانب چلا گیا جس نے زندگی کی جدوجہد کرنے والے بھوک، افلاس، ناداری، بیماری اور آزاری کے شکار افراد کیلیے اپنی اَن گنت تحریروں کے ساتھ ایک تاریخی اور یادگار جملہ چھوڑا ہے۔
"تمہارے پاس کھونے کیلیے زنجیریں ہیں اور پانے کیلیے ایک عالم پڑا ہے” اور یہی جملہ انقلاب کا پیغام ہے۔

اے وی پڑھو:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: