اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مشفق خواجہ کا ذاتی کتب خانہ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشفق خواجہ کا ذاتی کتب خانہ بہت بڑا تھا جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں موجود تھیں۔ ہندوستان پاکستان میں شائع ہونے والی کتابیں، ادبی جریدے بلکہ اخبارات کے ادبی صفحے بھی وہ حاصل کرتے تھے۔ بنیادی طور پر محقق تھے۔ جائزہ مخطوطات اردو، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، کلیات یگانہ، غالب اور صفیر بلگرامی، احمد دین کی کتاب اقبال، یہ سب کتابیں انھوں نے مرتب کیں۔ وہ شاعر بھی تھے اور ان کا مجموعہ کلام ابیات کے نام سے چھپا تھا۔ مترجم بھی تھے اور تین جلدوں میں ضخیم تاریخ فرشتہ ترجمہ کی۔
انٹرنیٹ اور ای میل کا دور آجانے کے بعد مشفق خواجہ شاید آخری ادیب ہیں جن کے خطوط چھپ رہے ہیں۔ یہ خط و کتابت ادبی اعتبار سے بھی اہم ہے، دلچسپ بھی ہے اور ان سے بہت سی کتابوں کا تعارف بھی ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل کا نقاد خطوط لکھنے والوں کی فہرست مرتب کرنے بیٹھے تو اپنے مقالے کا عنوان غالب سے مشفق خواجہ تک رکھے۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود بہت سے لوگ مشفق خواجہ کے پرستار اس لیے ہیں وہ ادبی کالم لکھتے تھے۔ وہ کالم ممتاز صحافی صلاح الدین کے سیاسی ہفت روزے تکبیر میں شائع ہوتے تھے۔ تکبیر کو پسند نہ کرنے والے لوگ بھی اس کالم کی وجہ سے رسالہ خرید لیتے تھے۔ اس میں کالم نگار کا نام خامہ بگوش چھپتا تھا۔ عام لوگوں کے لیے بہت عرصے تک یہ راز رہا کہ وہ طنزیہ کالم کون لکھتا ہے۔ جب ان کالموں کے مجموعے شائع ہوئے تو ان پر بھی نام مشفق خواجہ نہیں، خامہ بگوش ہی تھا۔
پہلا مجموعہ خامہ بگوش کے قلم سے شائع ہوکر مقبول ہوا۔ جو لوگ تکبیر نہیں پڑھتے تھے یا کراچی میں نہیں رہتے تھے، انھوں نے پہلی بار ادبی تنقید کا نیا روپ دیکھا۔ اچھی تنقید وہ ہوتی ہے جو قاری کو کتاب پڑھنے پر مجبور کردے۔ میں نے خامہ بگوش کے کالم پڑھ کر بہت سی کتابیں ڈھونڈیں اور پڑھیں۔
تحریر کی خوبی اس کی روانی میں ہوتی ہے۔ جو تحریر بار بار رکنے پر مجبور کرے، اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود کے ساتھ خامہ بگوش کا بھی یہ کمال ہے کہ ان کی تحریر کو ٹھہر کے، سنبھل کے پڑھنا پڑتا ہے تاکہ پورا لطف لیا جاسکے۔ یہ تینوں ادیب جملہ لکھنے پر محنت کرتے تھے۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں خامہ بگوش کے کالموں کے ساتوں مجموعوں سمیت مشفق خواجہ کی انیس کتابیں جمع کرکے لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔
یہاں ملاحظہ کیجیے خامہ بگوش کی تحریر کے چند نمونے:
* بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کتاب کا نام دامن یوسف کے بجائے دامن تار تار ہونا چاہیے کیونکہ اس کے ہر صفحے پر دست زلیخا کی کارفرمائیاں نظر آتی ہیں۔
* قدرت اللہ شہاب میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ خامیاں صرف تین تھیں: ابن انشا، اشفاق احمد اور ممتاز مفتی۔
* ہم نے آج تک کسی محقق کے چہرے پر مسکراہٹ اور ہاتھوں میں کوئی معقول کتاب نہیں دیکھی۔
* آپ بیتی اس لیے نہیں لکھی جاتی کہ لکھنے والے کو کچھ کہنا ہوتا ہے بلکہ اس لیے لکھی جاتی ہے کہ لکھنے والا بہت کچھ چھپانا چاہتا ہے۔
* جن کتابوں پر جرمانہ ہونا چاہیے، انھیں اب انعامات ملتے ہیں۔
* وہ دن گئے جب اخبارات کی کوئی پالیسی ہوتی تھی۔ اب صرف نیوز پرنٹ کا کوٹا ہوتا ہے۔
* ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔
* مولانا صاحب [کوثر نیازی] کی تصویر کتاب کے عقبی سرورق پر جلوہ گر ہے۔ اس تصویر میں مولانا صاحب اپنے کلام کے برعکس خاصے سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔
* ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنی شادی کے سلسلے میں جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ دلچسپی اور عبرت سے خالی نہیں۔
* افتخار عارف کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جن کے مجموعہ کلام کی غائبانہ تقریب رونمائی ہوچکی ہے۔
* گزشتہ تین چار برسوں سے ناہید اختر [گلوکارہ] کا شوق شاعری زور پکڑ گیا ہے۔ شاید اسی زور آزمائی کا نتیجہ ہے کہ ان کے شعر عروض کی پٹری سے اتر گئے۔
* ساقی کو جانوروں سے خاصی دلچسپی ہے۔ مجموعہ کلام کیا ہے، اچھا خاصا چڑیاگھر ہے۔
* بہ حیثیت مجموعی نظیر صدیقی کی کتاب خاصی فکر انگیز ہے۔ اور جب اس کی قیمت پر نظر ڈالی جائے تو یہ تشویش انگیز بھی نظر آتی ہے۔
* اوپندر ناتھ اشک گھنٹوں بے تکان تقریر کرتے ہیں۔ سننے والے ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہیں اور خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔
* نقاد کی حیثیت سے انیس ناگی اپنی آرا کے اظہار میں نہایت بے باک ہیں۔ وہ بڑی سے بڑی ادبی شخصیت سے، یہاں تک کہ خود اپنے آپ سے بھی مرعوب نہیں ہوتے۔
* قمر جمیل کی نظموں میں گھوڑے کا ذکر اس کثرت سے آیا ہے کہ پڑھنے والوں کو ہر طرف ہنہنانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
* منیر نیازی کی شاعری پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے چاروں طرف قوس قزح کے رنگ برس رہے ہوں اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جیسے خود برس رہے ہوں۔
* سالگرہ منانے کے کئی فائدے ہیں۔ ایک تو یہی کہ متعلقہ شخص کے پیدا ہونے میں اگر کوئی شبہ ہو تو رفع ہوجاتا ہے۔
* یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں کتابت کی اتنی زیادہ غلطیاں ہیں کہ اتنی تو اردو کی کتابوں میں معنوی اغلاط بھی نہیں ہوتیں۔
* صفحوں کے صفحے سیاہ کیے گئے ہیں لیکن ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ اس سیاہی یا سیاہ کاری سے اپنے کالم یعنی نامہ اعمال کو مزید سیاہ کریں۔
* اگر کوئی شخص ہر وقت یہی کہتا رہے کہ میں عاقل و بالغ ہوں تو اس کا عاقل و بالغ ہونا مشکوک ہوجائے گا۔ یہی حال پاکستان کے ترقی پسندوں کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: