اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مذہب کا تعلق فرد سے ہے۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر مذہب اور نظریے کی طرح اسلام نے بھی ابتدا میں لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا۔ لیکن جیسا دوسرے مذاہب اور نظریات کے ساتھ ہوا، رفتہ رفتہ اس کا اثر گھٹتا چلا گیا۔ رسول کے قریب ترین صحابہ ان کے پردہ کرجانے کے بعد چند عشروں میں پیغام بھلا بیٹھے اور آپس کی جنگوں میں مصروف ہوگئے، جن میں ایک ام المومنین بھی شریک ہوئیں۔ آج اسلام کے فرقے اور تشریحات بہت ہیں لیکن فرد کی زندگی پر اس کا اثر برائے نام رہ گیا ہے۔ نماز کے نام پر ٹکریں مارنا اور عید محرم جیسے تہوار منالینا کوئی خاص بات نہیں۔ ان سے فرد کے اخلاق پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرد کا اخلاق اعلی درجے کا ہو تو سماج اور معیشت خود بخود بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اشتراکیت کے نظریے اور فلسفے کا بھی یہ حال ہوا۔ کمیونزم اور سوشلزم کی نوع بہ نوع تشریحات کارل مارکس کی زندگی میں شروع ہوگئی تھیں۔ لینن اور ماو نے ان میں نئے راستے نکالے۔ روس میں انقلاب کے بعد کمیونسٹوں میں مزید نظریاتی اختلاف پیدا ہوئے۔ مثلا ٹرانسکی کا نظریہ حیات لینن سے مختلف تھا۔
جو کام مسلمانوں نے کیا، وہی اشتراکیوں سے ہوا، یعنی نظریات میں شدت آتی گئی اور ابتدا میں ایک قابل عمل فلسفہ ناقابل عمل ہوتا چلا گیا۔ کوئی سماج کرپشن سے نہیں بچ سکتا۔ اسے ایک حد میں رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن جب نظریات میں شدت آتی ہے تو کرپشن کا پیمانہ بھی بلند ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودی کو یہ لکھنے پر بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ ایک خلیفہ راشد حکمران نے اقربا پروری کی۔ برا لگنے کی بات تو ہے لیکن تاریخ میں ایسے ہی لکھا ہے۔ سوویت یونین میں بھی کرپشن در آئی اور حکمرانوں کی سطح پر ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داروں نے شہزادوں جیسی زندگی گزاری اور عوام بھوکے ہی رہے۔ آخر ستر سال میں یہ طلسم ٹوٹ گیا۔
میں ان لوگوں سے متفق ہوں جو کہتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف فرد سے ہے، اسے پورے سماج اور پوری ریاست پر نافذ نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ نام نہاد اسلامی نظام کوئی چیز نہیں۔ اگر ہے تو اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں بھی یہ نظام نافذ کیا گیا، وہاں عوام جبر کا شکار رہے اور اب بھی ہیں۔ افغانستان اور ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سعودی عرب میں تبدیلی کی ہوا نے گھٹن کچھ کم کی ہے۔
کمیونزم بھی عوام کے لیے جبر تھا۔ سوویت ریاستیں آہنی پردے میں چھپی رہیں۔ یہ پردہ چاک ہوا تو عوام روٹی کی قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔
لبرل جمہوریت آئیڈیل نہیں۔ یہاں بھی کرپشن ہے۔ یہاں بھی عوام غریب ہیں۔ امریکا جیسے امیر ترین ملک میں لوگ بے گھر ہیں۔ لیکن فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فرد کی امارات اور غربت کا تعلق اس کی ذات سے ہے۔ ریاست کا تعلق نظام سے ہے۔ نظام بہتر ہوتا چلا جائے گا تو فرد کی زندگی بھی سنورتی جائے گی۔ جو لوگ زیادہ محنت کریں گے، وہ ترقی کرکے بہتر طبقے میں چلے جائیں گے۔ لیکن جو محنت نہیں کرے گا، اسے اسپون فیڈنگ نہیں کی جائے گی۔ نہیں کی جانی چاہیے۔
مذہب اور کمیونزم، نظام کے نام پر ریاست یعنی اشرافیہ کو مطلق العنان بنانے کی بات کرتے ہیں جس میں عوام کبھی خوشحال نہیں ہوسکتے۔ اس میں کلاس بدلنے کا واحد طریقہ مذہب یا کمیونزم کا لبادہ اوڑھنا اور ڈھکوسلا کرنا ہے۔ جو جتنا بڑا اداکار، اتنا کامیاب۔ اس میں لیاقت، ذہانت اور محنت کا کوئی دخل نہیں۔
میری یہ ناقص رائے مذہبی اور اشتراکی اشرافیہ سے متعلق ہے، ان معصوم دوستوں کے بارے میں نہیں جو ایمانداری سے ان نظریات پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ مجھے ان سے بس اتنا کہنا ہے کہ انقلاب کا مطلب خون بہانا ہوتا ہے اور میں اس کا حامی نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں خون بہائے بغیر سو فیصد تبدیلی ممکن ہے۔ اور اکثر یہ عمل کامیاب ہوجاتا ہے۔
فیس بک پر آج کل ایک لبرلزم سوشلزم مناظرے کا چرچا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ سوویت یونین دور کے ادارے دارالاشاعت ماسکو کی اردو کتابیں شئیر کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ان میں ظ انصاری کی دو تین کتابیں میں پہلے پیش کرچکا ہوں۔ ان سمیت چوبیس کتابیں گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں جمع کرکے لنک کتب خانے والے گروپ میں فراہم کردیا ہے۔ سوشلسٹ مزاج دوست ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ جنھیں کمیونزم اور سوشلزم سے دلچسپی نہیں، وہ سوویت ادب سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ان کتابوں کو سنبھال لیں کیونکہ اب نہ وہ ملک ہے، نہ ادارہ اور نہ وہ چھاپہ خانہ۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: