مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کڑوا سچ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برطانوی جریدے ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کے مطابق پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ڈالر نہ ہونے سے واجب الادا فنڈز روکنے والے بھی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان کے لئے ہر دن اہم ہے۔ ایک یا دو ارب ڈالر کا رول اوور صرف عارضی مدد کرسکتا ہے‘‘۔
مجھ سمیت وہ تمام لوگ جو پچھلے برس فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کو لے کر عمران خان کے لتے لے رہے تھے اب کیا کہیں گے؟ جریدہ وہی ہے اور رپورٹ پاکستان بارے ہے۔
گزشتہ روز ڈالر کی قدر میں ایک ہی دن میں 24روپے 54پیسے کا اضافہ ہوا اور ڈالر 255 روپے کا ہوگیا اسی شام اطلاع ملی کہ ’’آئی ایم ایف کا وفد 9ویں جائزے کے لئے 31سے 9فروری تک پاکستان کا دورہ کرے گا‘‘ 9ویں جائزہ کے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو ایک ارب ڈالر کا قرضہ مل جائے گا۔
کیا یہ عارضی بندوبست ہماری معیشت کو سنبھال پائے گا۔ ہمیں اس سوال کے تلخ اور بھیانک جواب سے آنکھیں نہیں چرانا چاہئیں کیونکہ فروری میں ہمیں 3ارب ڈالر سے زائد ادائیگیاں کرنا ہیں جبکہ ہمارے پاس مجموعی طور پر 3.62ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ یہ تین ہفتوں کی برآمدات کے لئے تو کافی ہیں تین ہفتوں بعد کیا ہوگا۔ یہ بذات خود سوال ہے۔
ڈالر کی اونچی چھلانگ کے باعث ایک ہی دن میں قرضوں کے حجم میں 28 سو ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ بالفرض اگر 9ویں جائزہ کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو کیا ہوگا۔ معیشت ملکی تاریخ کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔
(ن) لیگ کے ’’معاشی جادوگر‘‘ کی جادوگری نہیں چل سکی۔ سچ یہ ہے کہ اسحق ڈار کا بت بنایا گیا تھا لیکن بے جان بت کچھ نہیں کرتے۔ (ن) لیگ کیسے بھول گئی کہ اسی اسحق ڈار کے جعلی اعدادوشمار کی وجہ سے اس کے پچھلے دور میں پاکستان کو جرمانہ ہوا تھا۔
اس سے پیچھے چلیں تو یہی اسحق ڈار 2008ء میں یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ حلف اٹھانے کےبعد پریس کانفرنس میں بولے پاکستان دیوالیہ ہوا چاہتا ہے۔ آگے چل کر مخلوط حکومت ٹوٹ گئی مگر ڈار جو بداعتمادی پیدا کرگئے اس سے مسائل نے جنم لیا۔ پیپلزپارٹی کسی حد تک معاملات کو سنبھال گئی۔
ایکسپورٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ امریکی امداد تھی، کیری لوگر بل اور دوسرے معاملات اسی دور میں پیپلزپارٹی کے سابق اور نئے اتحادیوں کے وزراء مختلف کیس لے کر سپریم کورٹ گئے جہاں افتخار چودھری بیٹھے تھے۔
چلیں ماضی اور خصوصاً پیپلزپارٹی کے اس دور کو یاد کرکے کیا کرنا ہے۔ 2013ء میں (ن) نون لیگ اقتدار میں آئی اسحق ڈار اس کے وزیر خزانہ تھے۔ ہچکولے کھاتی معیشت امریکی امداد پر سانس لیتی رہیں ۔ کچھ ڈار صاحب کے دعوے تھے کیکن ان کے مالیاتی اعدادوشمار نے دنیا بھر میں پاکستان کا اعتبار مجروح کیا۔
2018ء میں خان صاحب (عمران خان) لائے گئے۔ لانے والوں نے جاگتی آنکھوں کے جو خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر کیا ملنا تھی عقل بھی ٹھکانے آگئی۔ خود خان صاحب کے فیثا غورث (اسد عمر) وزیر خزانہ کے طور پر ناکام رہے حالانکہ عمران خان ہمیں 2011ء سے بتارہے تھے کہ اسد عمر ماہر معاشیات ہیں ان جیسا قابل بچہ کوئی اور نہیں۔ تین سو ماہرین کی ٹیم نے 90 دنوں میں ملک کی حالت بدل دینی تھی۔
ان کی حکومت کو بالآخر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، کیوں؟ اس لئے کہ ان کے دونوں دعوے غلط ثابت ہوئے۔ اسد عمر کی مالیاتی جادوگری اور ایک اپیل پر سو دو سو ارب ڈالرز بیرون ملک پاکستانی بھجوادیں گے، سرمایہ کاری کا سیلاب آجائے گا۔ دوسری ماہرین کی ٹیم اور بیرون ملک پڑی 2سو ارب ڈالر کی لوٹی رقم واپس لانا۔
اسد عمر بولے دو سو ارب ڈالر کی لوٹی رقم والی بات تو محض سیاسی بیان تھا۔ اچھا جس بات کو ہمارے پالیسی سازوں نے یکسر نظرانداز کیا وہ یہ ہے کہ امریکی کیمپ کا پرجوش رکن ہونے کے باوجود ہم امریکی اعتماد سے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ محروم ہوتے چلے گئے۔
اس بداعتمادی کی وجہ ہماری افغان پالیسی بنی۔ اونٹ پہاڑ کے نیچے دوبار آیا اولاً افغان طالبان کے ایک امیر کی کوئٹہ میں وفات اور دوسرے امیر کی پاکستانی حدود میں اس وقت ہلاکت جب وہ ایران سے واپس آرہا تھا۔ کوئٹہ شوریٰ پر ہمارا موقف ہمیشہ بچگانہ رہا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر جھوٹ بولا جاتا رہا کہ دنیا بہت ترقی کرچکی ہے اور اس ترقی کا باواآدم امریکہ ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کے تجربوں کا ’’شونق‘‘ کبھی بھی ماند نہیں پڑا۔ کیسے کیسے تجربے ہوئے۔ اب گنوانے یا یاد کرانے کی ضرورت کیا ہے۔ ویسے ہمیں پٹی پڑھائی گئی کہ معیشت پر بوجھ سیاستدانوں کی کرپشن ہے ۔ ہم جیسے چند پاگل کہتے رہے کرپشن صرف سیاستدانوں نے نہیں کی اس کے اور بھی کردار ہیں۔ ان کرداروں کا نام لینے پر ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کھانے کو پڑتے تھے۔
آج کل یہ مجاہدینِ ففتھ جنریشن وار خود اپنے خالقوں مالکوں کے گلے پڑے ہوئے ہیں، کیوں؟ اس سوال کا جواب مجاہدین کے نئے موقف میں موجود ہے لیکن یہ ہمارا موضوع ہرگز نہیں۔ معیشت کا اصل بوجھ سبھی نے نظرانداز کیا۔
نظرانداز کرنے کی اہم بلکہ تلخ وجہ یہ ہے کہ یہ سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت کے پیچھے چھپی سکیورٹی اسٹیٹ جس کے بھاری بھرکم اخراجات کا بار ملکی وسائل سے اٹھانا ممکن ہی نہیں یہ صرف آج کی بات اور حقیقت نہیں بلکہ روز اول سے یہی حقیقت ہے۔ اس پر سوال کرنا ہمیشہ جرم ٹھہرا۔ سوال اٹھانے والے یہودوہنود کے ایجنٹ۔ ملک دشمن اور نجانے کیا کیا ٹھہرائے گئے۔
ایک بار ان سطور میں غداروں، ملک دشمنوں، غیر ملکی ایجنٹوں اور تکفیر شدہ گروہوں کی آبادی کا حساب کرکے عرض کیا تھا کہ حب الوطنی کے معیار پر مشکل سے ایک کروڑ لوگ پورا اترتے ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ لیجئے کہ 23کروڑ میں سے 22 کروڑ غیرمحب وطن، ناشکرے، کافر، غدار وغیرہ وغیرہ ہیں۔
معاف کیجئے گا بات پھر دور نکل گئی۔ ہم معیشت پر بات کررہے تھے۔ فنانشل ٹائمز کی حالیہ رپوٹ کا ابتدائی سطور میں ذکر کیا۔ (ن)لیگ اپنے معاشی جادوگر کو لندن سے وزیراعظم کے طیارے میں لے کر آئی (ویسے وہ گئے بھی اس وقت کے وزیراعظم کے طیارے میں ہی تھے) بتایا گیا کہ ڈار معیشت کو ’’جما‘‘ دیں گے۔ لیجئے جم گئی معیشت بس کچھ زیادہ ہی ’’جم‘‘ گئی کیا مارچ کے وسط کے بعد سے جب موسم بدلنا شروع ہوگا تو بدلتے موسم کی گرمائی سے یہ بہتر ہوگی؟
ہمارے پنجابی اور خصوصاً لائلپوری پنجابی دوست کہا کرتے ہیں
’’ لگدا تے نئیں پر خورے‘‘۔
یہ درست ہے کہ معاشی ابتری کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام ہے لیکن یہ حتمی وجہ ہرگز نہیں۔ یہاں سیاسی استحکام کب ہوا، جیسی لولی لنگڑی جمہوریت رہی ویسا ہی لولا لنگڑا سیاسی استحکام۔ اصل بات پھر وہی ہے سکیورٹی سٹیٹ کے بھاری بھرکم اخراجات کے لئے خالص وسائل تھے نہ ہیں۔
’’قرض کی مے پی سب نے اور سمجھا یہی رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‘‘
قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاست کی معیشت اڑان کیسے بھرتی؟ ہم میں سے کسی نے کبھی اس سنجیدہ سوال پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔
آج بھی سیاسی میدان کے سارے کھلاڑی ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھ کھیل رہے ہیں۔ زمینی حقائق کوئی بھی پیش نظر رکھنے پر آمادہ نہیں۔ موجودہ حالات میں پی ڈی ایم اور اتحادی اگر یہ کہیں کہ صورتحال کی ذمہ داری ان پر نہیں تو یہ صریحاً غلط ہوگا۔ سبھی کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
خود عمران خان کو بھی کیونکہ ان کے دور کی پالیسیاں اس ملک کو جس سفارتی تنہائی میں لے گئیں اس کے بھی معیشت پر اثرات پڑے۔ انہوں نے مقامی سیاست کے گندے کپڑے لندن، نیویارک، انقرہ، ریاض وغیرہ وغیرہ کے چوکوں میں دھوئے۔ اس عمل سے بین الاقوامی بداعتمادی کا دور دورہ ہوا۔ اولاً تو گندے کپڑے اپنے ہی ملک کے چوکوں میں دھولینے چاہئیے تھے ثانیاً یہ کہ ذرا اپنے دامن داغ داغ پر بھی نگاہ ڈال لیتے لیکن ان کی نرگسیت نے انہیں سوچنے سمجھنے ہی نہیں دیا۔
اب 23کروڑ کی آبادی والے ملک کو ہولناک صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال راتوں رات پیدا نہیں ہوئی نہ ہی تنہا پی ڈی ایم اور اتحادی اس کے ذمہ دار ہیں۔ بہت پیچھے نہ بھی جائیں تو بھی اس صورتحال کے تمام لوگ ذمہ دار ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ہماری اسٹیبلشمنٹ جو مینجمنٹ اور تجربوں کے شوق پورا کرتی رہی۔ بہرحال ایک بات طے ہے وہ یہ کہ اصلاح احوال کی کوئی صورت بنتی دیکھائی نہیں دے رہی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: