نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فواد چودھری مگر ایک ذہین شخص بھی ہیں۔ ہمارے نظام میں سیاست دانوں کی ’’محدودات‘‘ کا انہیں مجھ سے کہیں زیادہ علم ہونا چاہیے تھا۔انہیں یہ دریافت کرنے کو کسی ’’اتالیق‘‘ کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کہ چودھری پرویز الٰہی کے ہاتھوں پنجاب حکومت تحلیل کروالینے کے بعد عمران خان صاحب اور ان کے وفاداروں کے پاس ریاستی جبر سے محفوظ رہنے کی ’’پناہ گاہیں‘‘ بھی موجود نہیں رہیں۔ ’’جاٹ‘‘ کو اب بلاضرورت بڑھک بازی سے گریز کرنا ہوگا۔محسن نقوی کی الیکشن کمیشن کی معاونت سے بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب تعیناتی کے ایک دن بعد یہ کالم لکھتے ہوئے میں نے ’’احتجاجی اور انتخابی‘‘ سیاست کے مابین فرق اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی۔کسی بھی نوعیت کے ’’ذرائع‘‘ سے رجوع کئے بغیر ملکی سیاست کا محض دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ عرض بھی گزاری تھی کہ ’’سسٹم‘‘ اب ’’عمران دوست‘‘ نہیں رہا۔تحریک انصاف نے اگر ’’احتجاجی سیاست‘‘ بھڑکانے کی کوشش کی تو اس جماعت کے ’’انتخابی اثاثوں‘‘ کو جھوٹے سچے مقدمات میں الجھادیا جائے گا۔ فواد چودھری کی گرفتاری میری دانست میں اس جانب اٹھایا پہلام قدم ہے۔فواد چودھری وکالت کے شعبے میں متحرک رہے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی فیصل بھی ایک ذہین اور کامیاب وکیل ہیں۔خاندانی پس منظر اور فواد چودھری کی ذات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں بھرپور اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ ’’بغاوت‘‘ کا تاثر دیتی دفعات کے تحت گرفتاری سے وہ ہرگز نہیں گھبرائیں گے۔جو افتادان پر نازل ہوئی ہے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔’’سسٹم‘‘ کی مزاحمت کے دوران اگرچہ چند ہی دنوں میں وہ یہ بھی جان لیں گے کہ ان کے خلاف بنائے مقدمے نے حقیقی معنوں میں نام نہاد ’’لبرل اصول پرستوں‘‘ کے اسی گروہ کو پریشان کیا ہے جو عمران حکومت کے دوران بھی ایسی حرکات کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے فواد چودھری صاحب کے طنز بھرے جملوں کا نشانہ بنتا تھا۔سوشل میڈیا کی بدولت خود کو دورِ حاضر کے ’’چی گویرا‘‘ ثابت کرتے کئی ’’بے باک‘‘ افراد بتدریج انہیں ویسے ہی بھلادیں گے جیسے شہباز گل اور اعظم سواتی کو ان کی افتاد کے دنوں میں نظرانداز کردیا گیا تھا۔’’سسٹم‘‘ بہت مکار ہوتا ہے۔یہ اپنے ناپسندیدہ افراد کے خلاف بیک وقت غول کی صورت حملہ آور نہیں ہوتا۔ نہایت سفاکی سے اپنے ’’شکار‘‘ ڈھونڈ کر اپنی توجہ انہیں اذیت پہنچانے پر مرکوز رکھتا ہے۔چند نمایاں افراد کو وقفوں سے جبر کی لپیٹ میں لیتے ہوئے انہیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ایسے افراد کے ساتھ ہوا سلوک ان کے سیاسی ہمدردوں کے دلوں میں خوف جاگزیں کرتا ہے۔شہباز گل کے ساتھ ہوئے ’’سلوک‘‘ کا بنیادی مقصد یہ ہی تھا۔فواد چودھری کی گرفتاری کے ذریعے اب عمران خان کی حمایت میں صف اوّل میں کھڑے افراد کو وقفوں سے چن چن کر نشانہ بنایا جائے گا۔وطن عزیز میں سیاسی مخالفین کے ’’مکو ٹھپنے‘‘ کا یہ عمل 1950سے جاری ہے۔عمران حکومت نے بھی اس مکروہ روایت کو کمزور کرنے کے بجائے مزید سفاکانہ بنایا تھا۔ کاش وہ اسے بدلنے کو ڈٹ جاتی اور فواد چودھری سکرینوں پر رونق لگانے کو میسر رہتے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر