مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چھپ گئی سہیلیوں کی اوٹ میں
رکے گی شرم سے کہاں یہ خال و خد کی روشنی
چھپے گا آفتاب کیا ہتھیلیوں کی اوٹ سے
یہ کیسی انوکھی ردیف، جدا قافیہ، منفرد غزل ہے۔ میں نے یہ غزل کالج دور میں پڑھی تھی اور یہ جان کر بہت حیرت ہوئی تھی کہ محسن نقوی کی ہے۔ اس وقت تک میں انھیں صرف شاعر اہلبیت کے طور پر جانتا تھا۔ وہ مجلسیں پڑھتے تھے اور محرم میں کراچی بھی آتے تھے۔ وہ ان ذاکروں میں سے تھے جو مسلسل شاعری سے اہلبیت کی مدح اور مصائب بیان کرتے تھے۔ آج کے دور میں شوکت رضا شوکت ویسے ذاکر ہیں۔
محسن نقوی علامہ عرفان حیدر عابدی کے دوست تھے اور میں نے کئی بار ان دونوں کو ایک ساتھ سنا۔ علامہ کا شعری ذوق بھی بہت اچھا تھا۔ لیکن محسن نقوی کا درجہ کچھ اور تھا۔ عام طور پر مذہبی شاعری کرنے والے اسی کے ہوکر رہ جاتے ہیں یا غزل سے انصاف نہیں کرپاتے۔ لیکن محسن نقوی کہیں کمزور نہیں پڑے۔ اس لیگ میں وہ قمر جلالوی اور احمد نوید کے ساتھ شامل ہیں۔ بلکہ اب رحمان فارس اور علی اکبر ناطق کو بھی اس میں رکھنا چاہیے۔
محسن نقوی کا منتخب کلام شائع کرنے والے ایک صاحب نے کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے پبلشر خالد شریف کو کلام لکھ کر دیا کرتے تھے۔ خالد شریف کا ایک شعر بہت مشہور ہوا اور وہ غزل انھیں محسن نقوی نے لکھ کر دی تھی:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
محسن نقوی کے مجموعہ کلام برگ صحرا میں اس سے ملتا جلتا ایک شعر شامل ہے:
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
محسن نقوی کی غزلیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ مطلعوں پر خاص دھیان دیتے تھے۔ ان کی چند غزلوں کے مطلعے دیکھیں:
جتنے بھی سخن ور ہیں سبھی مہر بہ لب ہیں
اے دوست ترے شہر کے آداب عجب ہیں
ٹھہر جاو کہ حیرانی تو جائے
تمھاری شکل پہچانی تو جائے
میں کیوں نہ ترک تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا
وہ شخص شہر کے لوگوں میں ڈھلتا جاتا ہے
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے
محسن نقوی نے سیاسی شاعری بھی کی لیکن غزل میں بھی پاکستان کے جامد حالات حاضرہ پر تبصرے چھوڑے ہیں۔ ان کے بہت سے شعر سخن فہم لوگوں کے پسندیدہ ہیں:
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقہ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
پہلا سا کہاں اب مری رفتار کا عالم
اے گردش دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے
یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ
تمام شہر میں چرچا مرے بیان کا ہے
مرہم کی جگہ بانٹتے پھرتے ہیں نئے زخم
یہ رسم بھی نکلی ہے عجب چارہ گروں میں
اس گھر کے محافظ بھی خبردار ہیں کتنے
سوراخ تو چھت میں ہوئے تالے ہیں دروں میں
کسی پہ راز در میکدہ کھلا کہ نہیں
سناو اب کے رہیں فاقہ مستیاں کیسی
غموں نے لوٹ لیے ہیں عقیدتوں کے چمن
خدا بھی یاد نہیں بت پرستیاں کیسی
وہ جبر ہے کہ سوچ بھی لگتی ہے اجنبی
ایسے میں کس سے بات کریں کیا زباں کھلے
جتنا ہوا سے بند قبا کھل گیا ترا
ہم لوگ اس قدر بھی کسی سے کہاں کھلے
باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ مری اپنا انا کا تھا
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیے میں غرور انتہا کا تھا
میں نے کہیں خیال ظاہر کیا تھا کہ اردو غزل کا محبوب ہندو ہے اور محب یا شاعر شیعہ ہے۔ غزل کے مزاج میں کربلا بسی ہوئی ہے۔ محسن نقوی شیعہ ذاکر تھے اس لیے ان کی غزل میں یہ رنگ نمایاں ہے:
کچھ بتا اے ماتمی راتوں کی دھندلی چاندنی
بھولنے والوں کو آخر کس طرح یاد آوں میں
کتنی کم یاب ہے متاع خلوص
شب عاشور جیسے موج فرات
ہر اک قدم پہ یہ خدشہ مری نگاہ میں ہے
کہ دشت شام غریباں سحر کی راہ میں ہے
چہرے پہ سجا کے خون اپنا
قاتل کا نشان دے رہا ہوں
در قفس پہ قیامت کا حبس طاری ہے
کوئی غزل کوئی نوحہ کہ رات کٹ جائے
روایت ہے کہ کربلا میں امام حسین کو شہید کرنے کے بعد ان کا سر نیزے پر بلند کیا گیا تھا۔ محسن نقوی نے کئی اشعار میں وہ منظر باندھا ہے:
ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر، نوک سناں پر دیکھا
ہم وہ ہیں جن کو حفظ مراتب کا غم نہیں
نوک سناں بھی تخت سلیماں سے کم نہیں
وہ اپنا سر نہ تھا جسے آئی نہ سرکشی
جو سرنگوں ہوا وہ ہمارا علم نہیں
محسن نقوی پیپلزپارٹی کے رہنما تھے اور شاید انھیں ایک بار الیکشن کے لیے ٹکٹ بھی دیا گیا تھا۔ ان کی ایک نظم کا ٹکڑا نعرہ بن گیا تھا اور کروڑوں افراد نے سنا ہوگا:
اے عظیم کبریا
سن غریب کی دعا
سازشوں میں گھر گئی
بنت ارض ایشیا
لشکر یزید میں
اک کنیز کربلا
فیصلے کی منتظر
اک یتیم بے خطا
ٹال سب مصیبتیں
ہے دعا ترے حضور
واسطہ حسین کا
توڑ ظلم کا غرور
یا اللہ یا رسول
بے نظیر بے قصور
محسن نقوی کی ایک اور نظم بہت مشہور ہوئی اور وہ میں نے ایک مجلس میں انھیں سے سنی تھی۔ ان دنوں سپاہ صحابہ نئی نئی بنی تھی اور اس کا نفرت انگیز پروپیگنڈا عروج پر تھا۔ تب اس کا نام انجمن سپاہ صحابہ اور مخفف اے ایس ایس تھا۔ شیعوں نے خوب مذاق اڑایا کیونکہ یہ مخفف گالی بھی ہے اور انگریزی لفظ ایس کا ترجمہ گدھا بنتا ہے۔ اس کے بعد نام سے انجمن کا لفظ ہٹادیا گیا تھا۔ لیکن محسن نقوی نے نظم پہلے کہی تھی اور اس قافیے کو استعمال کیا تھا:
ﮐﻞ ﺷﺐ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﭘﺮ فتن
ﺩﯾﮑﮭﯽ ﯾﺰﯾﺪﯾﺖ ﮐﮯ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻟﮩﻦ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﺟﻞ ﮐﯽ ﮈﻭﺭﯾﺎﮞ
ﻣﺎﺗﮭﺎ ﻣﻨﺎﻓﻘﺖ ﮐﯽ ﺗﭙﺶ ﺳﮯ ﺷﮑﻦ ﺷﮑﻦ
ﮔﺮﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﻕ ﻟﻌﻨﺖ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺗﮭﺎ
ﺗﻦ ﭘﺮ ﺟﮩﺎن ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﺎ ﭘﯿﺮﮨﻦ
ﭼﺴﭙﺎﮞ ﺟﺒﯿﮟ ﭘﮧ ﺁﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﮐﯽ ﺩﺷﻤﻨﯽ
ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺧﺪ ﻭ ﺧﺎﻝ ﭘﮧ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮐﯽ ﭘﮭﺒﻦ
ﻧﺲ ﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﺣﻖ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﺑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ
ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺩ ﺭﺍﮦ ﺳﻘﯿﻔﮧ ﺳﮯ ﺗﮭﯽ ﮔﮭﭩﻦ
ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮐﻨﯿﺰ
ﺳﯿﻨﭽﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺷﻌلہ ﻧﻤﺮﻭﺩ ﺳﮯ ﺑﺪﻥ
ﺗﮩﻤﺖ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﺩﯾﮟ ﭘﮧ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺸﻐﻠﮧ
ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﻣذﺍﻕ ﺍﮌﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﺨﻦ
ﮔﺰﺭﯼ ﺟﻮ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ وہ ﺍﺑﻮﺟﮩﻞ ﮐﯽ ﺑﮩﻮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺑﺪﮐﺎﺭ ﻭ ﺑﺪﭼﻠﻦ
ﺁﺋﯽ صدا ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﮐﺮﻭ ﺟﮩﺎﺩ
ﺩﯾﮑﮭﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺳﭙﺎﮦ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﺍﻧﺠﻤﻦ
ﯾﮧ ﺩﺷﻤﻦ ﺣﺴﯿﻦ ﻭ ﻋﺪﻭئے ﺷﮩﯿﺪ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﺯﻕ ﯾﺰﯾﺪ ﮨﮯ
ﮔﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻓﻀﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻞ ﮔﺌﯽ
ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭﮞ، ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ
اس طرح کی شاعری کرنے والے کو کتنی مہلت دی جاسکتی تھی۔ 15 جنوری 1996 کو انھیں لاہور میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
رہرو فرات کا نہ مسافر ہوں نیل کا
میں پھول ہوں خود اپنی لہو رنگ جھیل کا
محسن بروز حشر نہیں خوف تشنگی
ساقی ہے بوتراب اگر سلسبیل کا
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں محسن نقوی کے دس مجموعہ ہائے کلام جمع کرکے لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: