اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قیامت ٹپک پڑی کیا کراچی میں ؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ میں بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلہ میں 16اضلاع میں رائے شماری ہوئی۔ دوسرے مرحلہ کے انتخابات سے قبل خاصے تماشے بھی لگے۔
سندھ میں ایک نہیں دو متوازی حکومتیں بھی سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ چلائی جارہی ہیں ایک تو وہی ’’رینجر شریف‘‘ ہے جو قانونی ضابطوں کے مطابق فرائض ادا کرنے کی بجائے خود ایک قبضہ گیر قسم کی سیاسی جماعت اور متوازی حکومت بن چکی۔
دوسری متوازی حکومت بارے میری طرح سبھی آگاہ ہیں۔ اس دو نمبر متوازی حکومت کا نام ضرور لکھتا مگر فقیر راحموں نے بتایا ہے کہ اس وقت کراچی میں اس کا کوئی ایسا دوست موجود نہیں جو توہین عدالت کا مقدمہ لڑسکے۔ ضامن ملنا بھی مشکل ہے اور پیلپزپارٹی سے الحمدللہ کبھی توقع نہیں رکھی ۔ مستقبل میں بھی ایسی کوئی خواہش نہیں۔
بہرحال دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اچھی بلکہ بہت اچھی پوزیشن حاصل کی جس پر صالحین (جماعت اسلامی) انصافین اور سوشل میڈیا مجاہدین کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کا انجمن سیاپا فروشانِ پرائم ٹائم ٹولے کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔
پیپلزپارٹی جیت گئی قیامت ہی آگئی آنی بھی چاہیے کیونکہ پیپلزپارٹی اور اس کے ووٹرز دونوں دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں۔ دھاندلی ہوئی، جی بالکل ہوئی اسی لئے تو کراچی سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ رکھنے والی جماعت اسلامی کے پاس لگ بھگ 86نشتیں ہیں۔
اس کی سڑک چھاپ سیاست کا تازہ چہرہ حافظ نعیم الرحمن ہیں۔ حافظ جی خود کو محمد بن قاسم اور بال ٹھاکرے سے کم مرتبہ کا شخص نہیں سمجھتے۔ کراچی سے پیپلزپارٹی کے پانچ ایم این اے ہیں ابھی پچھلے سال اس کے متوسط طبقے کے ایک سیاسی کارکن نے امید عالم اسلام عمران خان کو شکست دی خیر وہ شکست دھاندلی سے دی گئی البتہ جن 6نشستوں پر ضمنی انتخابات میں عمران خان جیتے وہ ’’خالص‘‘ عوامی مقبولیت تھی۔
حالانکہ جنرل باجوہ کے دونوں ماتحت ادارے ان 6حلقوں میں جو کررہے تھے وہ ’’جمہوریت‘‘ تھی۔ کراچی کے بلدیاتی نتائج، ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیوں کیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ ایم کیو ایم کے بانی سربراہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ کا اعلان تھوڑے سے وقفے سے ہوا؟
الطاف حسین نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو یہ ان کا حق تھا۔ ریاست نے ان کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا جو ریاست 80ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں سے بات کرتی ( مزاکرات ) رہی ۔ پچھلے برس اپریل تک جو حکومت تھی وہ ٹی ٹی پی کے 40ہزار لوگوں کی آبادکاری اور ان کی مالی و سیاسی سماجی رہنمائی کی خواہش مند تھی ان دونوں نے الطاف حسین سے بات کیوں ضروری نہ سمجھی؟
ایم کیو ایم کو بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسے بلدیاتی حلقہ بندیوں پر اعتراض تھا حلقہ بندیاں ہورہی تھیں تو کہاں تھی۔ کیا حلقہ بندیاں راتوں رات ہوگئیں؟
ایم کیو ایم نے پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی سے جو معاہدہ کیا اس میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا معاملہ کیوں نہیں رکھا گیا؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بائیکاٹ کیوں کیا، کیا اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ جمع رینجرز میں سے کسی نے کہا یا پھر الطاف حسین کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد ٹھاکروں کی چھتر چھایہ میں بنی ایم کیو ایم کو یہ احساس ہوگیا کہ ووٹرز چونکہ الطاف حسین کے ہیں انہوں نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے اب سیاسی عزت بچانے کے لئے بائیکاٹ کردو؟
مکرر عرض ہے الطاف حسین کے بائیکاٹ کے باوجود ایم کیو ایم کو میدان میں رہنا چاہیے تھا۔ کیا ایم کیو ایم کے دوست ماضی کے اپنے بائیکاٹوں سے سبق نہیں سیکھ پائے تھے۔
پیپلزپارٹی دوسرے سیارے کی پارٹی ہے نہ اس کے ووٹر افریقی ریاست سے ووٹ دینے آئے۔ اسی ملک کی سیاسی جماعت ہے کراچی سے قومی اسمبلی کے 5ارکان ہیں اس کے ، اتنا غصہ تو ایم کیو ایم نے 2018ء میں اس وقت نہیں دیکھایا جب یونین کونسلوں کا الیکشن ہارنے والوں کو باجوہ رجیم نے کراچی سے تحریک انصاف کا رکن قموی اسمبلی بنوادیا تھا ۔
اس وقت جب اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ چوری کررہی تھی بائیکاٹ کیوں نہ ہوا؟ نہیں کیا تو اچھا کیا الیکشن لڑنا چاہیے ہر حال میں۔
اور یہ عالمگیر انقلاب اسلامی والی جماعت اسلامی ذرا یہ تو بتائے کہ اس کے عبدالستار افغانی کراچی کے میئر کیسے بنے تھے اس وقت کی فوجی جنتا نے پیپلزپارٹی کی اکثریت کو کم کرکے افغانی کو میئر کیسے بنایا۔ آخر میں افغانی اور پیپلزپارٹی کے عبدالخالق اللہ والے کے پاس 80+80ووٹ تھے پھر تکنیکی بنیادوں پر عبدالخالق کے 3ووٹ مسترد کراکے افغانی کو میئر بنوایا گیا۔
عجیب بات ہے جماعت اسلامی، انصافی، انجمن سیاپا فروشان الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا مجاہدین سبھی کو پیپلزپارٹی کی جیت دھاندلی لگ رہی ہے۔
یہ جماعت اسلامی کی 86 نشستیں کیسے ہوگئیں پورے ملک سے اس کا ایک رکن قومی اسمبلی ہے وہ بھی چترال سے۔ سندھ اسمبلی میں بھی ایک رکن ہے۔
حافظ نعیم کی اپنی سیاسی حیثیت کیا ہے اور پس منظر؟ جماعت خود کراچی کی سیاست میں اتنی اہم تھی تو آخری بار قومی اسمبلی کی رکنیت کب ملی اس شہر سے؟ 2002ء میں اگر ملا ملٹری الائنس نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ 1970ء سے 2002ء تک کے انتخابی نتائج میں جماعت کی پارلیمانی حیثیت کیا بنی۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات اور پھر آئی جے آئی یا بعدازاں (ن) لیگ کے تعاون سے ملی نشستوں کا معاملہ الگ ہے۔
اتنی نفرت اچھی نہیں ہوتی کسی جماعت سے۔ سیاست اور انتخابات کے میدانوں میں کھیلیں اور دوسروں کو بھی کھیلنے دیجئے۔
اب آیئے اس طرف ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو کیا اس کا سارا فائدہ جماعت اسلامی کو ملنا تھا؟ جی نہیں دوسری جماعتیں بھی موجود تھیں اور ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی نے پچھلے بارہ چودہ برسوں اور بالخصوص 2018ء کے بعد سے اب تک کراچی کے لئے کچھ نہیں کیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایم کیو ایم سے بعض وجوہات پر ناراض ووٹروں نے اس کے پلڑے میں ووٹ ڈالے۔ 2018ء میں کراچی سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایم ایم این اے اور ایم پی اے بننے والوں میں سے کتنے پہلے ( پچھلے بلدیاتی انتخابات میں ) یونین کونسلوں کا الیکشن جیت سکے تھے؟
یہ خرم شیرزمان 2018ء میں رکن صوبائی اسمبلی بن گئے مگر اب یونین کونسل کی چیئرمینی کا الیکشن ہار گئے کیوں؟ دھاندلیوں کے ثبوت تو سبھی ایک دوسرے کے خلاف لئے پھرتے ہیں۔ یقیناً الیکشن کمیشن کو ان میں سے درست ثبوتوں پر کارروائی کرنی چاہیے۔
یہ رویہ درست نہیں کہ پیپلزپارٹی کی جیت تسلیم نہیں کرتے۔ حافظ نعیم الرحمن کو انداز تکلم بہتر بنانا چاہیے بال ٹھاکرے یا ملا فضل اللہ والا انداز اپنانے سے وہ کراچی میں ا نتشار تو پھیلاسکتے ہیں خدمت نہیں کرسکتے۔
معاف کیجئے گا کراچی میں اسٹیبلشمنٹ، رینجرز اور خفیہ ایجنسیوں نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں کس کی پشت پناہی کی سبھی جانتے ہیں۔ یہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے ہوتے تو جماعت اسلامی کے لئے تلاش گمشدہ کا اشتہار دینا پڑتا۔
ہاں ایم کیو ایم میدان میں رہتی تو یقیناً نتائج مختلف ہوتے۔ پیپلزپارٹی کی نشستیں ظاہر ہے کم ہوتیں لیکن جماعت اسلامی تو ڈھونڈنے سے ہی ملتیں نا اس لئے تھوڑا صبر کیجئے، تحمل اور جمہوری رویوں کا مظاہرہ کیجئے۔
جماعت اسلامی والے بھی بطور خاص سمجھیں کہ جماعت اسلامی البدر و الشمس، حزب المجاہدین، البدر مجاہدین یا ٹی ٹی پی ہرگز نہیں حافظ جی بھی الطاف حسین نہیں ہیں۔
جیت ہار کم یا زیادہ نمائندگی سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اچھا یہ بتائیں 1985ء اور پھر 1988ء یا 1990ء جیسی قومی اسمبلی میں نمائندگی دوبارہ کیوں نہیں ملی جماعت کو؟
کراچی سندھ کا دارالخلافہ ہے آبادی کے مختلف طبقات اس شہر میں بستے ہیں۔ جلسے تو مولانا فضل الرحمن کراچی میں جماعت اسلامی سے بھی بڑے بڑے کرتے رہے پھر کیا محض جلسے اور دھرنے نمائندگی کا فیصلہ کرتے ہیں؟ جی نہیں رائے دہندگان کے ووٹ فیصلہ کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس فیصلہ پر مخصوص مینجمنٹ سے اسٹیبلشمنٹ وغیرہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ اب بھی ہوئے نہ ہوتے تو جماعت کے پاس 86سیٹیں نہ ہوتیں۔ پیپلزپارٹی فرشتوں اور ولیوں کی جماعت نہیں سیاسی جماعت ہے غلطیاں اس سے بھی سرزد ہوتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ کراچی میں پیپلزپارٹی کا کچھ بھی نہیں یہ احمقانہ سوچ ہے۔
انتخابی نتائج میں خامیاں ہیں دھاندلی کے ثبوت ہیں تو قانونی راستہ اختیار کیجئے۔ میں نہ مانوں کی رٹ درست نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو تحمل اور تدبر کے ساتھ سیاست کرنیا چاہیے۔
قبضہ گیری کی سوچ اور بال ٹھاکرے کے انداز سے نہیں۔
باردیگر عرض ہے ایم کیو ایم کا بائیکاٹ غلط تھا سو فیصد غلط آج نہیں تو کل اس کو احساس ہوگا کہ انتخابی سیاست میں اپنے ہاتھ کاٹ کر دوسروں کو نہیں دیئے جاتے اسی طرح یہ بھی دیوار پہ لکھا ہوا سچ ہے کہ الطاف حسین کراچی کی زندہ حقیقت تھے اور ہیں۔
ان کے سیاسی نظریات اور طرزعمل سے لاکھ اختلاف کیجئے لیکن ایک اکثریت ان کی ہم آواز ہے۔ اس لئے ان پر بھی سیاسی عمل میں شرکت کی پابندی اور دوسری سختیاں درست تھیں نہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: