نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیف سٹی اسلام آباد کے ناکارہ سی سی ٹی وی کیمرے ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قابل ا عتماد ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف صاحب ”نوائے وقت“ کے دیرینہ اور باقاعدہ قاری ہیں۔اگر یہ دعویٰ درست ہے تو امید باندھنے میں کوئی حرج نہیں کہ آج کے لکھے میرے کالم پر بھی ان کی نگاہ پڑ جائے گی۔ اس کے ذریعے کسی ذاتی مسئلہ پر ا ن کی توجہ دلانا مقصود نہیں۔ منگل کی رات ایک واقعہ ہوا۔اتفاقاًاس کا عینی شاہد بن گیا۔جو حقائق میرے مشاہدے میں آئے 1990ء کی دہائی تک پورے ملک کے لئے ”مثالی“ تصور ہوتے اسلام آباد میں ان دنوں انتظامی بندوبست کے مکمل فقدان کی نشاندہی کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے اس شہر کا رہائشی ہونے سے گھبرا گیا ہوں۔

منگل کی شام ایک مہربان دوست نے پائے کھلانے اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد مختلف طبی وجوہات کی بنا پر میں گاڑی چلانے کے قابل نہیں رہا۔ مشترکہ دوست کھانے کی دعوت کریں میری شرکت یقینی بنانے کے لئے چنددوست محبت میں میرے ”ڈرائیور“ بن جاتے ہیں۔ بہرحال منگل کی رات بارہ بجے کے بعد اسلام آباد کی معروف شاہراہ مارگلہ روڈ سے ایف 8 کی جانب رواں تھے تو فیصل مسجد کے قریب دو گاڑیاں سڑک کے عین درمیان کھڑی نظر آئیں۔محسوس ہوا کوئی حادثہ ہوگیا ہے۔میرے جو دوست گاڑی چلارہے تھے شیشہ اتار کر دس کے قریب جمع ہوئے افراد سے معلوم کرنے کو مجبور ہوئے کہ معاملہ کیا ہے۔خبر ملی کہ موٹر سائیکل پر سوار ایک نوجوان کو کسی تیز رفتار کارنے ٹکر مار کر اچھال دیا ہے۔ وہ سڑک کو تقسیم کرنے والے حصے میں زخموں سے چور کراہ رہا تھا۔

اس کی خاطر رکنے والے لوگوں کا اصرار تھا کہ وہ گزشتہ کئی منٹوں سے پولیس اور ایمبولینس سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی داد فریاد کی مگر شنوائی نہیں ہورہی۔ زخمی نوجوان کی ٹانگ سے خون مسلسل بہہ رہا تھا۔ میر ے دوست نے فیصلہ کیا کہ ایمبولینس کا مزید انتظار کرنے  کے بجائے اسے اپنی جیپ کی پچھلی سیٹ پر لاد کر فوری طبی امداد کے لئے اسلام آباد کے مرکزی ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچادیا جائے۔ وہاں موجود ایک نیک دل شخص نے اس ضمن میں معاونت فراہم کی۔ زخمی نوجوان اگرچہ اس کے لئے اجنبی تھا۔ زخموں سے کراہتے نوجوان کو بالآخر ہم پمز ہسپتال کی ایمرجنسی تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس وارڈ کے مرکزی دروازے کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کے بعد سٹریچر کے لئے پکارتے رہے۔بالآخر صندوق نما بند ڈبہ دکھتا ایک ”سٹریچر“نمودار ہوا۔اس پر چڑھایا ”گدا“ مختلف جگہوں سے پھٹ چکا تھا۔ اس میں موجود روئی گدے پر بکھری ہوئی تھی۔ ایمرجنسی وارڈ میں بھی صرف ایک ڈاکٹر موجود تھا۔ جو ”وارڈ بوائے“ کو مدد کے لئے ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا۔ بالآخر ہمیں اطمینان ہوا کہ زخمی نوجوان کو ”محفوظ ہاتھوں“ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

گھر لوٹنے کے بعد لیکن میں پوری رات سو نہیں سکا۔ سنا تھا کہ اسلام آباد بھاری بھر کم سرمایے سے لگائے cctv کیمروں کی بدولت آج سے دس سال قبل ”سیف سٹی“ بن گیا ہے۔اس کی شاہراہوں پر رواں ٹریفک پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔رات کے اندھیرے میں بھی کسی گاڑی کے ڈرائیور اور دیگر سواریوں کی صورتیں ریکارڈ ہو جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ گاڑی کا نمبر بھی رجسٹر ہو جاتا ہے۔

مارگلہ روڈ اسلام آباد کی مصروف ترین اور مرکزی شاہراہ ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر واقعتا اس کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے مسلسل مانیٹرنگ ہورہی ہے تو منگل کی رات ہوا حادثہ بھی ”کنٹرول روم“کی نظر میں آگیا ہوگا۔اس کے بعد اسی کنٹرول روم سے پولیس اور ایمبولینس کو جائے حادثہ کی طرف منٹوں میں بھیجا جاسکتا تھا۔ زخمی نوجوان کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رضا کارانہ مدد کو آمادہ دس کے قریب لوگ مگر موبائل فونوں کے مسلسل استعمال کے باوجود مذکورہ سہولتوں کے حصول میں ناکام رہے۔

تقریباََ چار ماہ قبل مارگلہ روڈ ہی پر میرا ایک دوست فضائیہ یونیورسٹی کے سامنے لگے سگنل پر کھڑا تھا تو پیچھے سے آئی ایک کار اس کے پچھلے حصے سے ٹکراگئی۔چند نوجوان صحافیوں کی پرخلوص تڑپ کے باوجود پولیس کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں 20 سے زیادہ منٹ لگے۔

ہمیں مسلسل بتایا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھنے کے لئے سی سی ٹی وی کے علاوہ پولیس بھی مرکزی شاہراہوں پر گاڑیوں میں مسلسل پٹرولنگ یقینی بنارہی ہے۔دو واقعات کے ذاتی مشاہدے کے بعد مگر ایسا بندوبست مجھے ہرگز نظر نہیں آیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی اور پولیس پٹرولنگ کے باوجود حادثوں کا نشانہ بنے شہریوں کو ریاست کی جانب سے کوئی والی وارث میسر ہی نہ ہو تو مذکورہ بندوبست محض خطیر سرمایہ کاری کے زیاں سے تیار ہوا فروعی تام جھام ہی محسوس ہو گا۔ چند شہریوں کی نیک دلی اور رضاکارانہ امداد ہی ”ہنگامی“ صورتحال سے بے سروسامانی کے عالم میں نبردآزما ہونے کی راہ تلاش کرتی رہے گی۔

شہباز شریف 2008ء سے 2018ء تک اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے سلطانی اختیارات والے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ان دنوں ان کا اقتدار ”27 کلومیٹر“ تک محدود ہوا نظر آ رہا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں وہ میڈیا میں ہمہ وقت شہریوں کی خدمت کو بے چین دکھائے جاتے تھے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ”27 کلومیٹر“ پر حکمرانی کے دوران انتظامی معاملات کے حوالے سے ان کی ”خادم اعلیٰ“ والی شہرت بالآخر محض اشتہاری کمپنیوں کی بنائی داستان ہی ثابت ہونا شروع ہو جائے گی۔ ”سیف سٹی“ کا کنٹرول روم اگر حادثوں کا شکار ہوئے بدنصیبوں کے لئے ہنگامی مدد فراہم نہیں کر پا رہا تو اس کا واحد مقصد شہریوں کا تحفظ نہیں بلکہ ان کی نقل و حرکت پر ”جاسوسوں والی“ نگاہ رکھنا ہی محسوس ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم اس پہلو کی جانب توجہ دینے کو آمادہ ہوں گے یا نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author