نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عہدے اور اقتدار۔۔۔|| اظہر عباس

مدینہ کی ریاست کو اپنا نصب العین بنانے والوں کیلئے پاکستان کی مختصر تاریخ جس کا سبق یہی ہے کہ کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا کا ایک ورق آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا بھر میں اہم حکومتی عہدوں پر تعیناتی عوامی سطح پر زیر بحث آتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ یہ ضرورت سے زیادہ زیر بحث آتی ہے۔ اس کی وجہ سیاست میں ہماری حد سےزیادہ بڑی ہوئی دلچسپی ہے۔ اِس دنیا میں عہدے کتنے  طاقتور کیوں نہ ہوں- قیامت کے دن یہ سب سے بڑی جواب دہی کا سبب بنیں گے۔

اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دس یا اس سے زیادہ لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ورنہ اس کے گناہ اسے ہلاک کر دیں گے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خاص طور بادشاہوں- جباروں اور متکبرین کا نام  لے کر ان کو عالم غضب میں مخاطب کریں گے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو ان عہدوں کی جواب دہی کا اندازہ ہوجائے تو ان کے دل سے ہر عہدے کی خواہش ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں خدا سامنے نہیں آتا- عہدہ سامنے ہوتا ہے۔ عہدے کی طاقت سامنے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ انسان خود کو جھوٹے بہانوں سے بھی بہلاتا ہے کہ میرے پیش نظر تو خدمت کرنا ہے۔ اگر کسی ظلم، زیادتی کا ارتکاب ہوا بھی تو سیاست میں تو یہ چلتا ہے۔ جھوٹ- سازش- دھوکہ دہی- وعدہ خلافی- حلف کی خلاف ورزی- کے بغیر سے سیاست ہو نہیں سکتی۔ ایسے شخص کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار نہیں ہلاکت کی کرسی پر بیٹھ رہا ہے۔

اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر نجات تو صرف وہی حکمران پائیں گے جنھوں نے حضرت یوسف- حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی طرح عدل اور خوف خدا کو اپنی زندگی بنائے رکھا یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ کر اور اپنے گھر والوں کو بھوکا رکھ کر غریب صحابہ کا پیٹ بھرا۔ یا پھر خلفائے راشدین کی طرح  عدل کے آخری معیار قائم کرکے بھی خدا کی جواب دہی کے خوف سے لرزتے رہے۔

مدینہ کی ریاست کو اپنا نصب العین بنانے والوں کیلئے پاکستان کی مختصر تاریخ جس کا سبق یہی ہے کہ کوئی اس طرف دھیان نہیں دیتا کا ایک ورق آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

جنرل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں ان کے دو بیٹے گوہر ایوب اور اختر ایوب جو یکے بعد دیگرے ان کے اے ڈی سی بھی رہے، انہوں نے فوج کی نوکری چھوڑ کر اپنے والد کی بہائی صنعتی انقلا ب کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے کا فیصلہ کیا اور خوب دولت سمیٹی ۔گوہر ایوب نے اپنے سسر جنرل (ر)حبیب اللہ خٹک سے مل کر امریکی فرم جنرل موٹرز خرید کر اس کا نام گندھارا موٹرز رکھا اور دیکھتے دیکھتے پاکستان کی بڑی کاروباری شخصیات میں شمار ہونے لگے۔یہ وہ غلطی تھی جو ایوب خان کے زوال کا سبب بنی اور اسی نسبت سے ان کے فرزند گوہر ایوب کوان کا گوہر زوال کہا گیا ۔ایوب خان کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب کی والدہ نے ان کا نام حبیب اللہ رکھا لیکن والدنے ان کا نام گوہر ایوب تجویز کیا۔ اسے حسنِ اتفاق کہئے یا کچھ اور کہ گوہر ایوب جن کا ابتدائی نام حبیب اللہ تھا، ان کے سسر کا نام بھی حبیب اللہ ہے۔ م۔ب۔ خالد اپنی کتاب ’ایوان صدر میں سولہ سال‘ کے صفحہ نمبر 139 پر ’پسرانِ ایوب‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان ایوانِ صدر میں منتقل ہوئے تو بَری فوج کی طرف سے اے ڈی سی ان کے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب تھے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کیپٹن گوہر ایوب نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ ان کی جگہ ایوب خان کے دوسرے صاحبزادے کیپٹن اختر ایوب خان، صدرِ پاکستان کے اے ڈی سی بن کر تشریف لے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد انہوں نے بھی پاک فوج سے ریلیز لے لی اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ ایوب خان کے یہی 2 لڑکے فوج میں تھے جنہوں نے یکے بعد دیگرے فوجی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔جس شخص کا پشتوں سے پیشہ آبا سپہ گری رہا ہو، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے پاکستانی سپہ سالار ہونے کا بلند ترین اعزاز حاصل کیا ہو، جس نے اپنے خون پسینے سے بَری فوج جیسے مقدس ادارے کی آبیاری کی ہو اور جو صرف اپنے فوجی عہدے کی بدولت صدرِ پاکستان کے بلند ترین مقام تک پہنچا ہو، وہ اپنے لڑکوں کو عین عالمِ شباب میں جب وہ تقریباً 25 یا 26 برس کے ہوں اور صرف 4، 5 سال کی سروس کی ہو فوج سے ریلیز کرکے نجی کاروبار میں لگادے، یہ ناقابل فہم ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پریزیڈنٹ ایوب خان نے عہدِ صدارت میں یا باقی ماندہ زندگی میں کبھی نہ دیا۔‘

ایوب خان کے زوال کے بیشمار اسباب تھے مگر معروف بیوروکریٹ روئیداد خان اپنی کتاب ’’Pakistan a dream gone sour‘‘کے صفحہ نمبر 44 پر لکھتے ہیں کہ گندھارا موٹرز سے بڑھ کر کسی چیز نے ایوب خان کی شہرت اور وقار کو داغدار نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں، اپوزیشن کے جلسوں میں، گلیوں اور چوراہوں میں ہونے والی سرگوشیوں میں ہر طرف ایوب خان کے گوہرسے متعلق گفتگو ہورہی تھی۔‘

ایوب راج کے دوران ان کے فرزند گوہر ایوب کی گندھارا موٹرز کو کس طرح سے سرکاری ٹھیکے دیکر نوازا جاتا رہا، اس بات کا اعتراف خود جنرل ایوب خان کرتے ہیں ۔ان کی کتاب ’’Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan, 1966-1972‘‘ کے صفحہ نمبر 121 پر لکھا گیا ہے کہ اندرون ملک گاڑیوں اور ٹریکٹروں کی مینوفیکچرنگ شروع کرنے کے لئے ہمیں کم از کم زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کے انجن تیار کرنے کا آغاز کردینا چاہئے، گندھارا موٹرز جہاں میرا بیٹا کام کرتا ہے، اسے نوازنے کے لئے یہ فیصلہ مجھ پر مسلط کیا گیا۔ درحقیقت یہ فیصلہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قائم کی گئی ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سفارش پر کیا گیا۔‘

اپنی حالیہ پراگندہ ریاست کی طرف دیکھیں تو ریاست مدینہ کے دعوے دار ابھی تک توشہ خانے کی کہانیوں کا جواب نہیں دے سکے اور بتدریج نااہلی و مقدمہ بازی کا شکار ہیں ان کیلئے اصلی ریاست مدینہ کی مثال مشعل راہ ہونی چاہئیے تھی کہ حضرت ابوبکر نے اپنے کاروبار اور ہر بنیادی ضرورت کو پس پشت ڈال کر رعایا کی خدمت کی۔ حضرت عمر مثالی عدل قائم کرکے بھی فرات کے کنارے ایک جانور کی موت پر خدا سے ڈرتے تھے۔ حضرت عثمان  نے ساری طاقت کے باجود جان دے دی- مگر آگے بڑھ کر کسی پر تلوار نہیں چلوائی۔ حضرت علی نے دولت مند ترین ریاست کا خلیفہ ہونے کے باجود فقر کو اختیار کیا اور حصول انصاف کے لیے عدالت کے سامنے عام لوگوں کی طرح پیش ہوئے۔

حکمرانوں کو بہرحال خدا کا سامنا کرنا ہوگا۔

وہ خدا جو ہر چیز کا مالک اور بادشاہ ہے۔ جس کے علم میں دلوں کے خیالات- تنہائی کے معاملات- اور ظلم و ناانصافی- سارے واقعات رہتے ہیں۔ اس روز کوئی حکمران خدا کے سامنے اپنے ظلم و زیادتی، جھوٹ و فریب، سازش و دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور حلف کی خلاف ورزی کا کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا۔ اس روز خدا ہر ظلم اور فریب کا حساب لے گا- اور جب وہ حساب لے گا تو حکمران خواہش کریں گے کہ کاش ان کی ماں  نے ان کو جنا ہی نہیں ہوتا۔ کاش اقتدار ملنے سے پہلے ہی انھیں موت آچکی ہوتی۔ کاش خدا کے حضور پیش ہونے کے بجائے ان کا خاتمہ مٹی کی شکل میں ہوجاتا ۔ یہ ہے وہ المناک  انجام جو آج کے ہر اقتدار کا مقدر ہے۔

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author