اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سفرِحیات کی کچھ اور یادیں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھند بڑھ رہی ہے مسافروں کو چاہیے کہ محکمہ موسمیات اور مواصلات والوں کی ہدایت پر عمل کیا کریں۔ جان ہے تو جہان ہے۔ سفر یقیناً زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں مگر سفر کے لئے زندگی بھی ضروری ہے۔
کچھ دیر قبل 21ویں گریڈ کے کامریڈ استاد مفتی قاری منیر حسین الحسینی نقشبندی نے جاڑے سے بے حال چائے پیتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر لگائی۔ ڈیڑھ کلو چائے کا کپ ہاتھ میں تھا اونٹ کی کھال سے بنی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔
استاد کہہ رہے تھے "سردی نے مت ماردی ہے” ۔ فقیر راحموں نے سردی سے بچائو کا نسخہ کیمیا انہیں عطا کیا (نسخہ ان سطور میں لکھنے سے معذرت) استاد بولے آزمودہ نسخہ ہے۔
فقیر نے کہا کہ رندوں نے بتایا تھا۔ فقیر چونکہ نسخے نہیں آزماتا لیکن رندوں کو جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے اس لئے نسخہ آگے بڑھادیا۔
ویسے رندوں کے بتائے نسخوں کے علاوہ مارکیٹ تھڑوں اور سوشل میڈیا پر دوڑتے نسخے اگر آپ آزمانے کا شوق رکھتے ہوں تو اپنے رسک پر آزمائیں۔ گردے سٹیل کے نہیں ہوتے بس یہی ذہن میں رکھ لیجئے۔
اچھا ویسے ہم (یعنی ہم سبھی) نسخے اور دعائیں بتانے اور مشورے دینے میں بہت باکمال لوگ ہیں۔ مجھ جیسا شخص اگر سوشل میڈیا کے اکائونٹ پر بیماری بتاکر مشورہ چاہے تو درجن دو درجن دیسی ٹوٹکے لکھ دیئے جائیں گے لیکن کوئی "نازنین” صرف سردرد کا کہہ دے تو یار لوگ نہ صرف شہر کے مشہور معالجین کے فون نمبر چیک اپ کے اوقات بھی بتاتے ہیں۔ چند ایک تو یہ بھی کہتے ہیں مسئلہ ہو تو بتائیں میں لے جائوں گا۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک لطیفہ نما حقیقی واقعہ سن لیجئے۔
ستمبر 1985ء کی ایک شب دفتر سے گھر جاتے ہوئے پیش آنے والے حادثے میں بائیں ٹانگ ٹوٹ گئی راہ گیروں نے سروس ہسپتال پہنچادیا۔ اتفاق کہہ لیجئے کہ ایمرجنسی میں خانپور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر طارق ڈیوٹی پر تھے ان کی توجہ سے کچھ ہی دیر بعد وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔ آپریشن والے دن ڈاکٹروں نے کہا دو بوتل خون کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
ایک بوتل ہمارے محسن اور مربی دوست صفدر بلوچ نے دی ایک کا انتظام دوستوں نے کرلیا۔ اتفاق سے دوران آپریشن یا بعد میں خون لگانے کی ضرورت نہ پڑی۔ سامنے والے بیڈ پر ایک نوجوان شدید زخمی حالت میں دراز تھا اس کے ورثاء خون کا فوری انتظام نہ کرپائے تو ڈاکٹرز نے مجھ سے کہا۔ ہم آپ کے لئے موجود خون اسے لگادیں بلڈ گروپ ایک ہی ہے۔
میں نے اجازت دے دی۔ بعد کے برسوں میں صفدر بلوچ سے کبھی نوک جھونک ہوتی تو شور مچادیتا اور کہتا ’’شاہ توں میڈی خون دی بوتل واپس کر‘‘۔
ادبی ماہنامہ ’’ماہ نو‘‘ میں طویل ادارت کے بعد صفدر آجکل خانسر بھکر میں مقیم ہے۔ خانسر اس کا آبائی علاقہ ہے۔ لاہور آمد کے چند گھنٹے بعد مجھے ایک ہفت روزہ میں بطور ایڈیٹر نوکری اس کی وجہ سے ملی تھی تب اس کا کہنا تھا کہ وہ چند دن قبل مستعفی ہوچکا تھا لیکن مالکان کا اصرار تھا پہلے متبادل کا بندوبست کرو۔ ’’شاہ چنگا تھئے توں لاہور آگئیں بس اے چنگی نوکری اے کرے گھن‘‘ یوں ملازمت مل گئی۔
رہنے کا انتظام بھی صفدر نے ہی لالہ ولی محمد انجم کے کمرے میں کردیا۔ اس کمرے میں صفدر، ارشاد امیین، لالہ ولی محمد انجم کے علاوہ اب چوتھا رہائشی میں تھا۔ لاء کالج کے اس ہاسٹل میں وقت خوب گزرا۔ پھر ایک دن ہم ماڈل ٹائون کے این بلاک والے فلیٹس میں اٹھ آئے
یہ جگہ دفتر سے خاصا دور تھی لیکن چار سو روپے ماہانہ پر پورا فلیٹ کرائے پر یہیں مل سکتا تھا۔ بعدازاں صفدرا ور ارشاد امین بھی انہی فلیٹوں میں آن بسے پھر کچھ عرصہ بعد صفدر وحدت روڈ کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوا تو ارشاد امین میری خواہش پر میرے فلیٹ میں اٹھ آئے یوں کرایہ نصف نصف ہوگیا۔
بہت برسوں بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ جو صفدر بلوچ نے کہا تھا کہ میں ملازمت چھوڑ چکا ہوں بس متبادل کا بندوبست کرکے دینے کا وعدہ تھا لو اب تم ایڈیٹر کی کرسی سنبھالو ہم چلے۔
یہ فریب تھا اس کی پرانی عادت تھی وسیب سے جو دوست نوکری اور خصوصاً صحافت میں روزگار کے لئے لاہور آتا صفدر اسے اپنی کرسی پر بیٹھاکر نکل جاتا۔ دوست کے لئے نوکری کی قربانی کے بعد وہ ترجمے کرتا اور کتابوں کی ایڈیٹنگ۔ کیسے شاندار ماہ و سال تھے۔ اور دوست بھی شاندار۔
صد شکر کہ دوست اب بھی شاندار ہیں۔ لالہ ولی محمد انجم کے کمرے سے ماڈل ٹائون این بلاک کے فلیٹس المعروف کوٹہ پنڈ فلیٹ پر منتقل ہوا تو ایک دن اپنے ماموں پیر سید محمد شاہ بخاریؒ کے گھر عبدالحکیم سے اپنی کتابیں اور باقی سامان لے آیا۔ ماموں پیر محمد شاہ بخاریؒ کیا شاندار انسان تھے۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ ماموں ہیں یا بے تکلف دوست۔
نماز پنجگانہ باقاعدگی سے پڑھتے اور موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں صبح سویرے ریڈیو سیلون سے آپ کی فرمائش ایک پروگرام آیا کرتا تھا۔ ماموں جان ریڈیو جائے نماز کے سامنے رکھ کر نماز پڑھتے۔ کہتے تھے میں نماز پڑھ کر رب کو راضی کرتا ہوں ریڈیو سے سنائی دینے والی آواز اور موسیقی میرا دل راضی کرتی ہے۔
ہم لاہور کی باتیں کررہے تھے، آبائی قصبے عبدالحکیم اور مرحوم ماموںؒ کا ذکر آگیا۔
اب پتہ نہیں کیا صورتحال ہے عبدالحکیم کے میلے کی ۔ ہمارے بچپن میں غالباً 20یا 21 جون سے 30جون تک میلہ لگتا تھا ان دنوں تو عبدالحکیم کے ہر گھر میں مہمان ہی مہمان ہوتے تھے بعض خوشحال خاندان ایک ماہ کے کرائے پر بیٹھکیں اور مکان بھی حاصل کرلیتے تھے اپنے مہمانوں کے لئے۔
جوبلی و لکی ایرانی سرکس، تھیٹرز، سر انسان کا دھڑ جانور کا اور دوسرے کھیل تماشے رونق ہوتے تھے اس دس روزہ میلے کی۔ سب سے زیادہ لکی ایرانی سرکس دیکھی جاتی اور سب سے زیادہ جلیبیاں فروخت ہوتی تھیں۔
بچے ہر گھر میں اودھم مچاتے وہ دس دن عید کا سماں ہوتا تھا عبدالحکیم میں۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ آخری بار عبدالحکیم کا میلہ کب دیکھا تھا۔
دھندلی دھندلی یاد ایک دوست مہر سرفراز کی دستک دے رہی ہے مہر سرفراز اصل میں ہمارے ماموں زاد سید بلال شاہ کا کلاس فیلو تھا۔ بلال کی وجہ سے ہی دوستی ہوئی۔ ہماری نسل کے بچے کھچے لوگ ہی جانتے ہیں کہ ان دنوں دوستوں کو باقاعدگی سے خط لکھنے کا رواج عام تھا۔ 1980ء تک مہر سرفراز سے رابطہ رہا چند برس قبل میں اپنے ماموں پیر سید محمد شاہؒ کے سانحہ ارتحال پر جنازے میں شرکت کے لئے عبدالحکیم جاتے ہوئے راستے میں سوچتا رہا بلال سے مہر سرفراز بارے پوچھوں گا لیکن پوچھ نہ پایا۔
اب کبھی کبھی آبائی قصبے کی یادیں دستک دیتی ہیں تو عزیزواقارب کے ساتھ مہر سرفراز کے علاوہ ایک شفیق و مہربان بزرگ ملک عاشق حسین بہت یاد آتے ہیں۔
ملک عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم ہمارے دوست معروف صحافی ملک اعجاز حسین کے ماموں ہیں۔ عبدالحکیم دربار کے سٹاپ پر دربار کیطرف جانے والے راستے سے پہلے مین سڑک پر ان کی دکان تھی۔ شہر کی معروف شخصیت تھے۔
ان کا ایک احسان ہمیشہ یاد رہنے والا ہے۔ میں اس دن سامان لینے لاہور سے عبدالحکیم گیا تھا باگڑ پل سے بس تبدیلی کی جیسے ہی دربار عبدالحکیم والے سٹاپ پر اترا (محلہ عیدگاہ یہاں سے قریب پڑتا ہے) دیکھا تو دکانوں کے شٹر گرائے جارہے ہیں دکاندار اور دیہاتوں سے آئے خریدار سبھی پریشان ہیں۔
اچانک ملک عاشق حسین اپنی دکان کے تھڑے سے تیزی سے اترے اور گھبرائے ہوئے بولے شاہ جی آپ یہاں سے چلے جائیں، کیوں؟ میں نے سوال کیا۔ بولے فلاں جماعت (اب کالعدم مذہبی تنظیم) کا جلوس آرہا ہے۔
میں نے بریف کیس ان کے شاگرد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ خیر ہے یہ مجھے کھا نہیں جائیں گے۔ انہوں نے سمجھایا اور ادھر جوانی کے خون نے جوش مارا۔
ملک صاحب نے اپنے عزیزوں سے کہا آپ لوگ شاہ جی کے گرد حصار بن کر کھڑے رہو جلوس والے ان تک نہ پہنچ پائیں۔ جھاگ اڑاتے زہریلے نعرے مارتا جلوس بالآخر ہم تک آن ہی پہنچا۔ جلوس کی قیادت میرے ہی دو قریبی عزیز کررہے تھے انہوں نے مجھے حیرانی سے دیکھا ہم خاندانی روایت کے مطابق ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر ملے بھی۔
اس میل ملاقات کے دوران بھی ایک عزیز اپنی جماعت کے زہر بھرے نعرے لگواتا اور مجھے کہتا رہا ’’یار توں تے اپنی ماسی دا پتر ہیں توں گھر ونج‘‘ (یار تم تو ہمارے خالہ زادہ بھائی ہو تم گھر چلے جائو) تقریروں وغیرہ کے بعد جلوس ختم ہوا تو سب نے شکر کیا کہ کوئی جھگڑا نہیں ہوا ورنہ کل سے شہر میں افواہیں زوروں پر تھیں کہ جلوس کی وجہ سے جھگڑا ہوگا۔
ملک عاشق حسین کہنے لگے پیروں نے اپنے خالہ زاد کو دیکھ کر ہنگامے سے گریز کیا۔ خوف و ہراس سے بھرے اس دن ملک عاشق حسین نے اپنی برادری کے نوجوانوں کو جس طرح ایک حصار کی صورت میں میرے اردگرد کھڑا کرتے ہوئے ہدایت کی جو مرضی ہو شاہ جی کو نقصان نہ پہنچے۔
یہ ان کی اعلیٰ ظرفی خاندانی وصف اور علاقائی روایات پر یقین کامل کا عملی مظاہرہ تھا۔
کیا دن تھے کیسے ماہ و سال اور لوگ۔ اب تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔ چند ماہ قبل کرائے کے اس نئے گھر منتقل ہوا ہوں اس سے پہلے ساڑھے چار برس تک جوہر ٹائون کے ہی ایک دوسرے بلاک میں رہا مجھے بھی نہیں معلوم کہ پڑوس میں بسنے والے کون تھے کیا کرتے تھے بس نچلے پورشن والے شاہ جی سے تعارف تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: