نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیشہ ورانہ تقاضوں کی وجہ سے سیاستدانوں کے طرز عمل پر گہری نگاہ رکھنا میری جبلت کا حصہ بن چکا ہے۔ اپنے دل کی بات وہ قریب ترین رشتہ داروں کو بھی نہیں بتاتے۔ ہم صحافی ان کی کہی باتوں سے ”اندر کی بات“ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے ”تجزیہ کار“ بن جاتے ہیں۔ پیر کی صبح اٹھ کر لیکن ہاتھ میں قلم لئے بیٹھا رہا۔ فیصلہ نہیں کرسکا کہ عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے راستے ایک دوسرے سے کاملاََ جدا ہوچکے ہیں یا نہیں۔پہلی نظر میں آپ کو میرا کنفیوژن احمقانہ محسوس ہوگا۔
اتوار کی دوپہر سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے ”جواب آں غزل“ مارکہ کلمات ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔ جنرل باجوہ کے دفاع میں انہوں نے سینہ پھلا کر عمران خان صاحب کا نام لئے بغیر سخت کلمات ادا کئے۔حال ہی میں ریٹائر ہوئے آرمی چیف کو انہوں نے تحریک انصاف اور اپنی جماعت کا ”محسن“ قرار دیا۔ ان کے خلاف ہوئی تنقید کو احسان فراموش ٹھہرایا۔ کئی واقعات گنوائے جن کی بدولت عمران حکومت ”سیم پیچ پر“ تین برسوں تک متحد ہوئی نظر آتی رہی۔جوش جذبات میں یہ انکشاف بھی کردیا کہ عمران خان صاحب انہیں اور مونس الٰہی کو گرفتار کروانے کو بے چین تھے۔اپنے تحفظ کے لئے چودھری صاحب کو بالآخر جنرل باجوہ سے رجوع کرنا پڑا۔
چودھری صاحب کو ان کے فرزند سمیت گرفتار کروانے کے لئے مبینہ طور پر بے چین عمران خان بھی بالآخر اپنے ”وسیم اکرم پلس“ کو قربان کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ تعینات کروانے کو مجبور ہوئے۔ اب ان سے توقع باندھے ہوئے ہیں کہ وہ 23 دسمبر کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر پنجاب کو بھجوا دیں گے۔
چودھری صاحب کے دئے انٹرویو کو غور سے سنیں تو فوری تاثر یہ ابھرتا ہے کہ وہ عمران خان صاحب کے جارحانہ انداز سے اکتا چکے ہیں۔ ”اوتاروں“ کو ”اپنی اوقات“ میں رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اتوار کی شام ہی مگر ان کے فرزند مونس الٰہی زمان پارک تشریف لے گئے۔ عمران خان صاحب کے ساتھ ان کی اکیلے میں طویل ملاقات ہوئی۔ مذکورہ ملاقات کے اختتام پر انہوں نے ایک ٹویٹ لکھا جو سابق وزیر اعظم سے وفادار رہنے کا دعوے دار سنائی دیا۔ساتھ ہی نون لیگ پر چودھری مونس الٰہی نے ”ماتم“ جاری رکھنے والی پھپتی بھی کس دی۔ اس ٹویٹ کے بعد میں کس منہ سے اپنے ”تجزیہ کار“ ہونے کا بھرم رکھ سکتا ہوں۔غالب کی طرح حیران ہوکر فقط رونے یا گریبان چاک کرنے کا انتخاب ہی کرسکتا ہوں۔
چودھری پرویز الٰہی اور ان کے فرزند کے رویے سے کہیں زیادہ حیرت مجھے عمران خان صاحب کی بابت بھی ہو رہی ہے۔ عاشقان عمران خان اپنے ہیرو کو اصولوں پر ڈٹ کے کھڑا کپتان تصور کرتے ہیں۔ وہ مگر چودھری پرویز الٰہی کے ادا کردہ کلمات سوشل میڈیا پر وائرل ہو جانے کے باوجود مونس الٰہی سے ملاقات کو رضا مند ہو گئے۔ جنرل باجوہ کے دفاع میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے جو انکشافات کئے اس کی بابت عمران خان صاحب کیا محسوس کر رہے تھے، ہمارے علم میں یہ کالم لکھنے تک نہیں آ پایا ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے 23 دسمبر کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے تحریک انصاف کے قائد نے زمان پارک سے جو خطاب کیا اس کے دوران پرویز الٰہی صاحب ان کے دائیں ہاتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ جنرل باجوہ کے خلاف عمران خان صاحب کے ادا کردہ کلمات کا آغاز ہوتے ہی ان کے چہرے پر کامل بے بسی نمایاں ہونا شروع ہو گئی۔ ”اندیشہ ہائے دور دراز“ کے انبار سے وہ انتہائی پریشان دکھائی دئے۔ پیغام یہ دیا کہ عمران خان صاحب کو رام رکھنا اب ان کے بس میں نہیں رہا۔پنجاب اسمبلی بھی ان کی خواہش کے مطابق انہیں توڑنا ہی پڑے گی۔
سوال اٹھتا ہے کہ زمان پارک سے گھر لوٹنے کے بعد چودھری پرویز الٰہی صاحب نے کب اور کیوں یہ فیصلہ کیا کہ پانی سر کے قریب آنے کو ہے۔ عمران خان صاحب کے برپا کئے تلاطم سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے انہیں جنرل باجوہ کے دفاع میں کھڑا ہونا پڑے گا۔بطور صحافی میرے لئے حیران کن یہ امر بھی تھا کہ ”جواب آں غزل“ سنانے کے لئے چودھری صاحب نے ایک ایسے ٹی وی چینل اور اینکروں کا انتخاب کیا جو محبان عمران خان صاحب میں بہت مقبول ہیں۔چودھری صاحب کو مذکورہ پلیٹ فارم استعمال کرنے کوکس ”ماہر ابلاغ“ نے مائل کیا“ اس کی خبر متحرک ترین شمار ہوتے صحافیوںکے علم میں بھی نہیں تھی۔چودھری صاحب کا دیا انٹرویواگرچہ میڈیا مینجمنٹ کا ہنر جاننے کے لئے ایک نصابی مثال شمار ہوسکتا ہے۔اس انٹرویو کے باوجود پنجاب کے وزیر اعلیٰ اب بھی مصر ہیں کہ وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے لئے ایڈوائس پر دستخط کرکے اسے عمران خان صاحب کے حوالے کر چکے ہیں۔ وہ درست کہہ رہے ہوں گے۔
ان کی نیت پر شبہ کئے بغیر البتہ سیاسی عمل کو آئینی اور قانونی شکل دینے سے متعلق قواعد و ضوابط کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری ہونا لازمی ہے۔وزیر اعلیٰ کو اس کے متن پر دستخط کرنے کے بعد اسے سرکاری خط کی شکل دینے کے لئے اس کی تاریخ اور وقت بھی لکھنا ہو گا۔ اس کے بعد ہی ”سرکاری چٹھی“ اگر گورنر پنجاب کے دفتر میں ”باقاعدہ“ وصول ہو جائے تو 48 گھنٹوں کے بعد صوبائی اسمبلی کا تحلیل ہوجانا لازمی قرار پائے گا۔
زمان پارک میں عمران خان صاحب کے گھر سے ایسی چٹھی بھجوانے کی دفتری قواعد و ضوابط گنجائش ہی فراہم نہیں کرتے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے 23 دسمبر کی صبح اپنے دفتر سے صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے والی سمری نہ بھجوائی تو تحریک انصاف کے صوبائی حکومت میں شامل وزراء کو دباﺅ بڑھانے کے لئے فی الوقت کم از کم صوبائی کابینہ سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے کوٹے سے صوبائی وزیر بنے افراد میں سے کتنے لوگ اس امر کو تیار ہوں گے۔وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے بنائے قوانین اس امر کی بابت خاموش ہیں کہ ”پارٹی قیادت“ کے حکم پر اگر کوئی دفاقی یا صوبائی وزیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کو راضی نہ ہو تو ”لوٹا“ شمار ہو گا یا نہیں۔ یہ فیصلہ بھی بالآخر عدالتوں ہی میں ہوگا۔تماشہ یوں مزید کچھ روز تک جاری رہ سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر