مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لال بیگ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جریدے نقاط کے تازہ شمارے میں میری ترجمہ کی ہوئی کہانی۔
۔
ویٹر نے ادب سے پوچھا، "کوئی مسئلہ ہے جناب؟”
"مسئلہ، نہیں۔ لال بیگ، ہاں۔”
"جی کیا فرمایا؟”
"خود دیکھ لو۔”
ویٹر نے جھک کر دیکھا جہاں سلاد کی پلیٹ میں ایک لال بیگ موجود تھا۔
"جی ہاں۔”
"ہاں؟ یہ کہا ہے تم نے؟ میں کہوں گا، نہیں۔ میں نے سلاد کا آرڈر دیا تھا، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے، سلاد کے ساتھ لال بیگ نہیں آتا۔”
"غصہ نہ کیجیے صاحب۔”
"میں غصہ نہیں کررہا۔”
"میں آپ کو سلاد کی ایک اور پلیٹ لا دیتا ہوں۔”
"مجھے ایک اور سلاد نہیں چاہیے۔ مجھے وضاحت چاہیے۔”
"ایسا حادثاتی طور پر ہوا ہے۔”
"حادثاتی طور پر؟ مجھے اس کا یقین نہیں ہے۔ ایک لال بیگ اپنی آبادی سے نکلا، آوارہ گردی کرتے ہوئے تمھارے باورچی خانے میں آن گھسا اور سلاد میں قیام کیا۔ اور یہ سب کچھ حادثی طور پر ہوا؟ نہیں، ایسا نہیں ہوا ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ لال بیگ مرا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمھارا سلاد قاتل ہے۔ لیکن مجھے شک ہے کہ یہی اس قتل کا سبب ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ لال بیگ سلاد میں گرنے سے پہلے ہلاک ہوچکا تھا۔ اس کے جسم پر مزاحمت کا کوئی نشان نہیں۔ اس کی وجہ سے میرا خیال ہے کہ یہ کیڑے مار دوا کا نشانہ بنا ہے جو تمھارے باورچی خانے میں لال بیگوں کی فوج اور دوسرے حشرات کے قتل عام کے لیے بے دریغ استعمال کی گئی ہوگی۔ ٹھیک ٹھیک یہ کہنا ناممکن ہے کہ ایسا کب ہوا ہوگا۔ پوسٹ مارٹم ہی سے پتا چل سکے گا کہ لال بیگ کی موت کا سبب کیا تھا۔ ممکن ہے کہ کیڑے مار دوا اب بھی تمھارے باورچی خانے میں کھانوں پر اثرانداز ہورہی ہو۔ جو صرف مرے ہوئے کیڑے نہیں فراہم کررہی بلکہ کھانوں میں نظر نہ آنے والا زہر شامل کررہی ہوگی۔ اگر یہ سچ ہے تو مجھے اس کی وضاحت چاہیے۔ میں ایک شہری ہوں۔ مجھے اپنے حقوق کا علم ہے۔ یہ ایک جمہوری ریاست ہے۔ کوئی مذاق نہیں ہے۔”
"مجھے اجازت دیجیے کہ اپنے منیجر کو بلا لاؤں۔”
ویٹر کی درخواست پر منیجر آیا۔ اس نے تصدیق کی کہ باورچی خانے میں کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ کیا گیا تھا لیکن ایسا ایک ماہ پہلے ہوا تھا۔ اس دوران میں ریستوران بند رہا تھا۔ اس بات کا کوئی خطرہ نہیں تھا کہ خوراک متاثر ہوتی اور اس کے بھی شواہد نہیں کہ لال بیگ اسی کیڑے مار دوا کے چھڑکاؤ کی زد میں آیا تھا۔
"لہذا، امکان ہے کہ لال بیگ کو لقمہ اجل بننے میں کچھ وقت لگا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ماہ تک باورچی خانے میں سسک سسک کر اپنے وجود کو گھسیٹتا رہا، یہاں تک کہ اسے میرے سلاد کے ایک پتے کو اپنا کفن بنانا پڑا۔ یقین کرو، میں یہ بات سب کو بتاؤں گا۔ یہ کس قسم کا کاروبار کررہے ہو تم؟”
منیجر نے ریستوران مالک کو قضیے سے مطلع کیا جو جلد دروازے پر نمودار ہوا۔ کیڑے مار دوا کے چھڑکاؤ کی اجازت وزارت صحت نے دی تھی۔ اس کی تصدیق کرنے کے لیے ریستوران مالک اپنے ساتھ وزارت صحت کے سیکریٹری کو لے آیا تھا۔ سیکریٹری نے بتایا کہ انھوں نے وزارت کے اصولوں پر عمل کیا تھا۔ اس پر وزیر کو ریستوران بلایا گیا۔ اس نے آتے ہی تمام معاملے کی مکمل ذمے داری قبول کرلی، سوائے لال بیگ کے۔ سلاد میں لال بیگ کیڑے مار دوا کے چھڑکاؤ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا تھا، سوائے اس کے کہ باورچی خانے میں کوئی شخص اسے سنبھالتا، برف میں محفوظ رکھتا اور اسے پیش کرنے کے لیے مناسب وقت کا منتظر رہتا۔
اپنے حقوق جاننے والے شہری نے وزیر موصوف کی بات درمیان میں کاٹ دی، میز پر زور سے مکا مارا اور چلا کر کہا کہ میں ایک شہری ہوں۔ مجھے اپنے حقوق کا علم ہے۔ یہ ایک جمہوری ریاست ہے، کوئی مذاق نہیں ہے۔ میں تمھارے سوپروائزر سے بات کرنا چاہتا ہوں۔
وزیر نے گہرا سانس لیا اور اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر صدر جمہوریہ کو فون کیا۔
صدارتی محل میں تقریب جاری تھی۔ صدر کو اسے چھوڑ کر آنا پڑا۔
ریستوران پہنچ کر انھوں نے دریافت کیا، "کیا ہوا؟”
"دیکھیے۔”
صدر نے جھک کر دیکھا جہاں ایک لال بیگ بے حس و حرکت پڑا تھا۔
"پھر؟”
"یہ آپ کی ذمے داری ہے۔”
صدر نے سر ہلا کے تسلیم کیا اور دریافت کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟
"اس کی وضاحت۔”
صدر نے معافی طلب کی لیکن آزاد ریاست کے آزاد شہری نے اسے قبول نہیں کیا۔ صدر نے ہرجانے کی پیشکش کی لیکن آئین اور قانون سے واقف شہری نے اسے بھی مسترد کردیا۔ اس کے بعد آرمی چیف کو طلب کیا گیا۔
جنرل آیا اور اس نے ویٹر کی طرح ادب سے پوچھا،
"کوئی مسئلہ ہے جناب؟”
جمہوری ریاست کے شہری نے سلاد کی طرف اشارہ کیا۔
جنرل نے دیکھا اور خوشی کا اظہار کیا، "ارے، زیتون!” یہ کہہ کر اس نے لال بیگ اٹھایا اور جلدی سے نگل لیا۔
اس کے بعد اپنے حقوق سے واقف شہری کو گرفتار کرکے ریستوران پر جھوٹا الزام لگانے کا مقدمہ قائم کیا گیا۔
کیونکہ یہ ایک جمہوری ریاست ہے، کوئی مذاق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: