مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاول پور میں اجنبی۔۔||نصرت نسیم

مجھے تو یہ کتاب اس لئے بھی بہت پسند آئی کہ بہاولپور میں دو دفعہ جاچکی ہوں۔جہاں ہمارے بھائی کرنل نعیم اللہ والے چوک کے خوبصورت بنگلے میں رہتے تھے۔فرید گیٹ اور بہاولپور کا مسقف بازار بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔

نصرت نسیم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہاولپور میں اجنبی

مصنف : مظہر اقبال مظہر
پریس فار پیس فاونڈیشن (یُوکے )نے اپنے شاندار طباعتی سفر کا آغاز ایک
سفرنامے سے کیا ۔ زندگی خود ایک سفر ہے۔اور اس سفر میں کئی سفر درپیش رہتے
ہیں۔برصغیر میں سفر نامے اٹھارویں صدی سے لکھے جارہے ہیں۔ جب دنیا گلوبل
ویلیج نہیں بنی تھی تو سفرنامے لکھنا آسان تھاکہ مبالغے اور رنگین داستانوں
کی تصدیق یاتردید عام قاری نہیں کر سکتا تھا۔سو ایسے بھی سفرنامے تھےکہ جو
گھر بیٹھے تخیل کے گھوڑے پر سوار ہو کر لکھے گئے۔
بیگم اختر ریاض الدین اپنے سفرنامے میں میگا مال کی تشریح کرتے ہوئے لکھتی
ہیں کہ اس میں ساری انارکلی اور شاہ عالمی کی دکانیں سما جائیں۔”جمیل الدین
عالی اٹلی کے سفرنامے میں بہت تفصیل کے ساتھ اسپیاگیٹی کی تعریف اور کھانے
کا طریقہ بیان کرتے ہیں۔کہ کس طرح اٹلی کے لوگ تیلیوں کی مدد سے مہارت سے
کھاتے ہیں۔اب جب کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی۔گوگل کی ایک کلک پر تمام
معلومات بچوں بڑوں کی دسترس میں ہیں۔تو سفرنامہ نگاروں کو بھی اپنی پرانی
روش سے ہٹ کر سفرنامے لکھنے ہونگے۔ مقامات کے بارے میں معلومات کی بجاے
انہیں اپنے احساسات وتجربات کو ایسے عمدہ اسلوب میں بیان کرنا ہوگا۔کہ
تحریر تصویر بن کر دل میں گھر کرجاے۔
زیر تبصرہ کتاب "بہاولپور میں اجنبی ” مظہر اقبال مظہر کی پہلی تصنیف ہے۔جو
کرونا کے بے کیف دنوں میں لکھی گئی۔قرنطینہ کی اداس، مایوس اور لمحہ بہ
لمحہ بگڑتی صورت حال میں مصنف نے اپنی پرانی ڈائری نکالی۔اور دل مندر میں
رکھی خوب صورت یادوں اور شہر من پسند کو برسوں بعد کچھ ڈائری کچھ اپنے
حافظے کی مدد سے الفاظ کی مالا میں پرو کر اسے کتابی شکل میں لے آئے۔
"بہاولپور میں اجنبی "کا سرورق شوخ اور دیدہ زیب رنگوں سے مزین، جو دیکھتے
ہی نگاہوں کو بھلا لگتا ہے۔کتاب کی ڈیزائنگ بہت عمدگی سے کی گئی ہے۔انتساب
والدہ اور مادر علمی کے نام بہت دلنشیں پیراے میں لکھا گیا ہے۔
انتساب میں ہی تحریر کی پختگی حیران کرتی ہے۔کہ مصنف کی یہ پہلی تصنیف
ہے۔مگر قلم پر گرفت اور لفظوں کے برتنے کے سلیقے سے تو وہ کہنہ مشق لکھاری
دکھائی دیتے ہیں۔کسر نفسی کایہ عالم کہ اپنا مکمل تعارف تک نہیں دیا۔پیش
لفظ بھی جاوید خان معلم مصنف نے لکھا ہے۔۔اپنا بندہ میں بہت دل کش پیراے
میں صرف جاے پیدائش پونچھ کے بعد تعلیمی سفر کو ایک سطر میں کچھ یوں بیان
کر تےہیں۔”میرا تعلیمی سفر راولا کوٹ، لاہور بہاولپور سے ہوتا ہوا برطانیہ
تک پھیلا ہے”۔119 صفحات کی اس کتاب میں 84 صفحات پر بہاولپور کا سفر نامہ
ہے۔اور دو افسانےشامل ہیں
مظہر اقبال مظہر کی یاداشتوں کو خوبصورت کتاب کی شکل دینے میں ان کے بھائی
ظفر اقبال صاحب( جو پریس فار فاونڈیشن یوکے کے ڈائریکٹر ہیں )کی کاوش ہے۔جو
یوکے کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔صحافت اور ادب کے ساتھ پرانی وابستگی
ہے۔پریس فار پیس فاونڈیشن فلاحی ورفاعی کاموں کے علاوہ نادار بچوں کے لئے
وظائف، خواتین کے لئے صنعتی سکولوں کا قیام اور فری میڈیکل کیمپ لگانے کا
اہتمام کرتی رہتی ہے۔
تمام منصوبوں میں ظفر اقبال صاحب کا ذہن رسا کام کرتا ہے۔اور وہ نت نئی
ادبی وثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔دوسروں کو آگے لانے والے
ظفر اقبال صاحب بھی اپنی ذاتی تشہیر سے دور بھاگتے ہیں۔مظہر اقبال مظہر کی
منکسرالمزاجی کا بھی یہی حال ہے۔سو ہم نے بہ اصرار ظفر اقبال صاحب سے مظہر
اقبال مظہر کا مکمل تعارف حاصل کیاکہ کتاب پر تبصرہ لکھنے کے لیے مصنف کا
مکمل تعارف بھی ازبس ضروری ہے۔دوسرا یہ کہ یہ کتاب کسی نوآموز لکھاری کی
ہرگز نہیں ہوسکتی۔
مظہر اقبال مظہر محقق، مصنف اور کالم نگار ہیں۔اردو، پنجابی، انگریزی
اور مادری زبان پہاڑی میں مضامین اورکالم لکھتے ہیں۔تبصرے بھی خوب لکھتے
ہیں اور آڈیو کالم بھی بہترین ہوتے ہیں۔پاکستان میں صحافتی خدمات بھی انجام
دیتے رہے۔آجکل لندن میں مقیم ہیں۔انہوں نے پاکستان سے انگریزی ادبیات میں
ایم اے کیا۔جبکہ برطانیہ سے اکاؤنٹنگ اور بزنس سٹڈی میں اعلی تعلیم حاصل
کی۔آج کل لندن کی یونیورسٹی میں بزنس سٹڈی پڑھاتے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی،
اور سماجی علوم ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔انہوں نے انگریزی میں دو
کتابیں لکھ رکھی ہیں۔
اردو ادب میں چند نمایاں نام ایسے ہیں کہ جنہوں نے انگریزی ادب پڑھا
اورپڑھایا مگر لکھا اردو زبان میں۔پطرس بخاری، فیض احمد فیض اور محسن احسان
،پروین شاکر کے علاوہ موجودہ دور میں شجاعت علی راہی صاحب اور سلمان باسط
نے بھی انگریزی پڑھی اور پڑھا ئی۔پر خود اردو زبان میں لکھ کراسے مالا مال
کیا۔اردو زبان نے جہاں فارسی اور عربی ادب سے استفادہ کیا وہاں انگریزی ادب
سے بھی خوشہ چینی کی۔مظہر اقبال مظہر نے بھی انگریزی ادب سے استفادہ
کیا۔اور ان کی تحریر کے بین السطور حس مزاح اور طنز لطیف دکھائی دیتا
ہے۔تحریر میں آمد کی کیفیت اور ایسی بےساختگی ہےکہ قاری ان کے ساتھ ساتھ
بہاولپور کی سیر کرتا ہے۔
مجھے تو یہ کتاب اس لئے بھی بہت پسند آئی کہ بہاولپور میں دو دفعہ جاچکی
ہوں۔جہاں ہمارے بھائی کرنل نعیم اللہ والے چوک کے خوبصورت بنگلے میں رہتے
تھے۔فرید گیٹ اور بہاولپور کا مسقف بازار بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔جہاں
ہم نے عائشہ اوراسد کی شادی کے لیے مکیش، چنری کے خوبصورت ملبوسات اور کندن
اورچاندی کے منفرد زیورات خریدے۔اور جب ہم رات گئے خریداری سے واپس آتے تو
نور محل کے پاس سے گزرتے ہوئے نعیم بھائی تاسف سے کہتے۔آج بھی اتنی دیر
کردی۔کہ وقت ختم ہوگیا۔سو مصنف کے ساتھ ساتھ بہاولپور کی سیر کرتی اور
یادیں تازہ کرتی رہی۔
مظہر اقبال مظہر نے جس طرح ہر زاویے سے شہر کو دیکھا، پرکھا، مشاہدہ کیا۔وہ
قابل تحسین اورقابل رشک ہے۔مختصر ابواب میں ایک جہان معنی ہے۔تاریخ، ثقافت،
لوگوں کی نفسیات، لسانیات، سرائیکی کی مٹھاس، لہجے، روایات رسم ورواج سب
پہلووں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیاہے۔ایک خاص اوراہم بات یہ کہ سرائیکی
وسیب کی محرومی کاذکر اور کشمیری لوگوں کی محرومی کا تقابل اورموازنہ قدم
قدم پر کیا گیا ہے۔
سیاست، مفاد پرستی، فرقہ بندی اور معاشرتی تضادات کو بہت دھیمے اور شائستہ
اندازمیں بہ احسن وخوبی بیان کیا گیا ہے۔
سرائیکی زبان کی مٹھاس کا ذکر ہو اور شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا ذکر نہ
آے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
اسی قیدی تخت لہور دے
اس ایک مصرعے میں سرائیکی وسیب کی محرومی سما گئی ہے۔الفاظ کی دروبست
جملوں کی نشست وبرخاست، تحریر کی روانی سلاست اور اختصار وجامعیت ایسی
خوبیاں ہیں۔جو مصنف کے وسیع المطالعہ ہونے کی دلیل ہیں۔
یوں تو ساری تحریر میں شگفتگی کی ایک زیریں لہر ساتھ ساتھ چلتی ہے۔مگر بعض
ابواب کچھ زیادہ شگفتہ وبرجستہ ہیں۔اپنا بندہ، ایڈا نواب ، تانگہ لہور دا
ہووے کہ بھانوے جھنگ دا، اور کشمیری ناک خاص طور پر مزاح اور اعلی نثر
کانمونہ ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندکو وان بھی ناشپاتی کو ناکھ ہی بولتے
ہیں۔تانگے سے متعلق یہ گیت اپنے دور کامقبول گیت تھا۔
تانگہ لہور دا ہووے کہ بھانوے جھنگ دا
ٹانگے والا خیر منگدا
نوابین کاذکر اور تاریخی حقائق بھی خاصے کی چیز ہیں۔برمحل اشعار بھی خوب
ہیں۔اس سفر نامے کے بعد دوبہترین افسانے شامل ہیں۔
دل مندر میں تجسسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔واقعات کی بنت زبان وبیان ہر لحاظ
سے عمدہ افسانہ ہے۔دو بوند پانی میں تھر کے صحرا، گوٹھ ٹوبے اور مسائل کو
بہ احسن وخوبی بیان کیا گیا ہے۔معاشی ناہمواری، بے حسی کی عکاسی کی گی
ہے۔اس عمدگی کے ساتھ کہ دل بھر آتا ہے۔
بندے دیکھ کے رون زندگی کوں
میکوں زندگی دیکھ کے روپئ اے

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: