اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ کی تاریخ کے حَسین و جمیل گوشے۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ کی تاریخ کے حَسین و جمیل گوشے ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ کے بعض گوشے جو ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ان کو معلوم کرنے کے لیے مجھے بار بار دانشور بزرگوں سے ملنا پڑتا ہے تاکہ اپنے وسیب کے Roots کا پتہ چل سکے ۔ اس سلسلے میں آج ڈیرہ کے ممتاز قصوریہ خاندان کے اعلی تعلیم یافتہ تجربہ کار اور ڈیرہ کی تاریخ کے چشم دید گواہ دوستوں سے ملاقات کی اور کئی موضوعات پر آ گاہی حاصل کی۔بقول شاعر حفیظ جونپوری ؎ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے۔ مجھے جہاں تاریخ سے متعلق معلومات ملتی ہے وہیں بیٹھ کر حاصل کرتا ہوں۔سب سے پہلے سابق صوبائ وزیر جناب عبدالکریم خان قصوریہ سے ملاقات ہوئ۔ آپ ھوم سیکٹری kpk کے علاوہ سابق خیبر ۔نارتھ۔ساوتھ۔پارا چنار ایجنسیوں میں پولیٹیکل ایجنٹ رہے اور ڈیرہ کی تاریخ کے علاوہ ٹرائیبل ایریا کی تاریخ وثقافت پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کے چھوٹے بھائ ڈاکٹر فضل الرحیم خان قصوریہ نے امریکہ سے Phd کی ہے ۔وہ اُم القراء یونیورسٹی مکہ مکرمہ۔اسلامی یونیورسٹی ملائشیا و اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ۔اوپن یورسٹی ۔NUST اسلام آباد ۔گومل یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں اور آجکل فوجی فاونڈیشن یونیورسٹی کے ڈین آف سوشل سائنسز ہیں۔ آپ ماس کیمونیکیشن کی تعلیم میں بین الاقوامی شھرت رکھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائ عبدالحلیم خان قصوریہ سابق MPA ڈیرہ کی ہر دلعزیز شخصیت و لیڈر ہیں اور آجکل DRC ڈیرہ کے سیکریٹری ہیں۔ ان کے کزن محمد نعیم خان قصوریہ سابق ڈسٹرکٹ کونسل کے سینئر انجینیر ریٹائرڈ ہیں اور ضلع ڈیرہ کے طول و عرض میں دیہی علاقوں کی تاریخ و ثقافت پر اتھارٹی ہیں۔نوجوان نسل میں جمیل خان قصوریہ سے ملاقات ہوئ جو خدمت خلق میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ان سے جو معلومات ملیں وہ میں گاہے گاہے آپ کو بتاتا رہونگا اللہ پاک ان دوستوں کی عمر صحت و خوشحالی کے ساتھ دراز کرے آمین۔

یونائٹڈ بک سنٹر کی رونقیں بحال ہو گئیں

عید کے موقع پر ایک ہفتہ بند رہنے کے بعد آج سے یونائیٹڈ بک سنٹر کی رونقیں بحال ہو گئیں اور ادیبوں دانشوروں اور شاعروں نے آنا شروع کر دیا۔ آج صبح ڈیرہ کی معروف ادبی و علمی شخصیت ایڈیشنل کمشنر ایف بی آر جناب سلطان محمد نواز ناصر صاحب پہنچ گیے اور دوستوں سے عید مبارک ملنے کے ساتھ ساتھ علمی ادبی موضوعات پر گفتگو کی۔ ۔ وہ خود بہت بڑے شاعر ۔ادیب اور چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی پہلی تصنیف ۔ شھید عشق ۔ کے نام سے ہے۔دوسری کتاب ۔۔سیرت نور۔۔ ہے جو نور سلطان القادری رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت سے متعلق ہے۔ تیسری تصنیف ۔۔کہیں نہیں ۔۔۔ انکی آزاد نظموں کا مجموعہ ہے اور چوتھی کتاب انہوں نے اپنے دادا اور جمعہ شریف کے پیر غلام باہو رحمتہ اللہ کی سوانح حیات اور مکتوبات کے حوالے سے خزائن فقر کے ٹائٹل سے لکھی ہے جو ایک دستاویز ہے۔ان کو اس سال اباسین آرٹس کونسل پشاور کا ادبی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ سلطان ناصر ہمارے وسیب کے اعلی ادیب و شاعر کے علاوہ بہت قابل افسر ہیں۔اس سال ڈیرہ اسماعیل ریجن میں ان کی قیادت میں ریونیو میں 40% اضافہ ہوا جو ہمارے خیبر پختونخوا صوبے میں ایک ریکارڈ ہے۔ ایک اور اعزاز بھی ان کو حاصل ہے ۔پوری دنیا میں ٹوٹل تین ھزار ایسے ٹیکس پروفیشنل ہیں جو
TADAT CERTIFIED
ٹیڈیٹ سرٹیفائڈ ہیں۔ ان میں سترہ پاکستانی ہیں۔ پھر ان سترہ پاکستانیوں میں ایک کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ اور وہ ڈیرہ کے سپوت ۔ایڈیشنل کمشنر FBR ڈیرہ جناب سلطان ناصر ہیں
ان کے بعد سنٹر پر کھگلاں فقیر درگاہ کے فقیر شیر محمد صاحب تشریف لاۓ۔ فقیر شیر محمد ڈیرہ کی ہر دلعزیز علمی شخصیت اور سوشل ورکر ہیں۔ نوجوان ادیب حمزہ حسن جو تیرہ کتابوں کے مصنف ہیں وہ بھی آ گئے ۔سرائیکی شاعر بشیر سیماب بھی حسب معمول وقت پر مجلس میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالے ان حضرات کی عمر دراز کرے یہ لوگ ہمارے وسیب کا سنگھار ہیں۔

ہماری قسمت اور دامان ۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے دامان کے علاقے سارا سال پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں اور لوگ کھڑے پانی کے جوہڑوں سے پانی پیتے ہیں۔ ساون کے مہینے کوہ سلیمان پر شدید بارشیں ہوتی ہیں اور وسیع پیمانے پر بہترین منرل واٹر سیکڑوں سال پرانی رودوں سے گزرتا ہے۔ یہ پانی اگر ڈیم کی شکل میں جمع کیا جائے تو سارا سال کی آبنوشی اور آبپاشی کی ضرورتیں پوری کرنے کو کافی ہو جایے ۔مگر یہ پانی الٹا ہمارے دیہات تباہ کرتا سمندر برد ہو جاتا ہے۔ 75 سال سے کسی حکومت کو عقل نہیں آئ کہ اللہ کی اس نعمت کو استعمال کر کے اناج میں خود کفالت حاصل کی جائے بجلی کی پیداوار بڑھائ جاۓ۔ ہم قرضے لے کر بار بار بڑے شھروں کی سڑکیں کھود کےunproductive میٹرو بسیں چلاتے ہیں جن کو سالانہ اربوں روپے کی سبسڈی بھی دینی پڑتی ہے مگر اپنے قدرتی وسائل نظر نہیں آتے۔؎
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں.
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ ؟
دنیا ہے تیری منتظرِ روزِ مکافات !!

%d bloggers like this: