مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی المیوں کی تکرار||اسلم اعوان

بے نظیر بھٹو کی المناک موت پر خان نے لندن کے ٹیلی گراف اخبار کے لئے ”بے نظیر بھٹو خود کو قصوروار ٹھہرائیں“ جیسے عنوان سے دل آزار تحریر لکھی لیکن اب خان خود پہ حملہ کی ذمہ داری وزیراعظم اور ریاستی مقتدرہ پہ ڈال رہے ہیں۔ عمران خان پہ قاتلانہ حملہ کی کوشش کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی، جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عمران خان پر حملہ کی مذمت کرتے ہوئے، فریقین سے تشدد، ہراساں کرنے اور باہم دھمکیاں دینے کی روش سے گریز کا مطالبہ کیا۔

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری قومی تاریخ ایسی ساختہ سیاسی تحریکوں کے دوران رونما ہونے والے دلخراش المیوں اور انسانی جذبات سے کھیلنے جیسے فن سیاست سے بھری پڑی ہے، جن کا ایندھن تو مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کارکن اور لیڈر بنے لیکن ان کاشتہ (پلانٹڈ) تحریکوں کے فوائد ہمیشہ عالمی و ملکی مقتدرہ کے حصہ میں آئے۔ اگر سیاسیات کے طالب علم، ریشمی رومال، خلافت موومنٹ، تحریک ہجرت، شدھی جیسی مذہبی اور فقیرایپی و ملاپوندہ کی مسلح تحریکوں سے لے کر 1953 کی تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیﷺ، ایم کیو ایم اور صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت کی وسیع تناظر میں سیاسی و نفسیاتی زاویوں سے تحقیق کریں تو انہیں ایسی تمام تحریکیں کے اصل محرکات اور اس خطہ کے تہذیبی پس منظر میں خوش عقیدہ انسانوں کی سوچ اور نفسیات پہ مرتب ہونے والے اثرات واضح نظر آئیں گی، یعنی ریاستیں اور رہنما عوام کے لئے دام بچھاتے اور اس دام کو ہمیشہ عوامی حقوق اور سیاسی آزادی کا نام دیتے رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ریاستی مقتدرہ معاشرے کے سماجی مفادات کو رد کرنے کے لئے ایسی جذباتی تحریکوں کی آبیاری ضروری سمجھتی ہے، جو بظاہر تو ہجوم کے لئے نہایت پرکشش ہوتی ہیں لیکن ان کے نتائج مذہبی، سیاسی و سماجی طبقات اور معاشروں کے فطری ارتقاء کے لئے کبھی سودمند ثابت نہیں ہوئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارا سماج ایسی تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تحریکوں کے تلخ و شیریں تجربات کی کٹھالی سے گزرنے کے باوجود کندن بن سکا نہ ایسے مظاہر ہمارے سیاسی و سماجی ارتقاء کا زینہ بن سکے۔

البتہ ظاہری طور پہ بامقصد نظر آنے والی ان تراشیدہ تحریکوں میں بروکار آنے والے کچھ سماجی دانشور معصوم انسانوں کو خارجی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کو آدمیت کے خلاف سمجھنے کے باوجود اپنے ماحول پہ چھائی التباسات کی دھند اور انسانی اذہان میں گہرائی تک سرایت کر جانے والے تراشیدہ تصورات کو تبدیل کر کے سماج کو ان مصنوعی وظائف کی تکرار سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ چنانچہ آج بھی بیرونی اور اندرونی عناصر کی برپا کردہ مصنوعی تحریکوں میں آزادی اور مساوات کے نعروں کی گونج عام لوگوں کے لئے چارے میں پڑے چارہ کی ترغیب کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔

آج بھی بعض لوگوں کے ادنی ترین سیاسی مفادات اور مذہبی تعصبات کی تسکین کے لئے انسانی خون کے نذرانے پیش کرنے کی روایتیں زندہ ہیں۔ مانٹسکو نے کہا تھا، دنیا میں جتنی بلائیں ہیں، ریاست ان میں سب سے زیادہ مہیب ہے، وہ سردمہری کے ساتھ جھوٹ بولتی ہے اور جھوٹ مسلسل اس کے ذہن سے نکلتا رہتا ہے ”۔ آج بھی ریاستی نظام میں برسرپیکار عناصر عوام جذبات کو بروئے کار لانے کی خاطر مقبول سیاستدان کے ذریعے حقیقی آزادی کے نعروں کے ذریعے ہجوم میں جذبات ابھارنے کے انہی فرسودہ حربوں کو آزمانے پہ مصر ہیں، جنہیں سیاسی قوتیں ہمیشہ رائے عامہ کو اپنے سیاسی مفادات کے تابع رکھنے کے لئے آزماتی رہی ہیں۔

پاور پالیٹکس کے شناور مرضی کے نتائج لینے کے لئے پہلے حالات خراب کر کے خوف اور بے یقینی کی فضا پیدا کرتے ہیں، پھر انہی تضادات کی سطح کے نیچے متعین سکیم کے مطابق پولیٹیکل منیجمنٹ کا عمل پروان چڑھایا جاتا ہے۔ تاہم خوش قسمتی سے جمعرات کے دن سابق وزیر اعظم عمران خان کے کنٹینر کے قریب فائرنگ میں ایک قیمتی انسانی جان کی قربانی کے باوجود حالات اس قدر خراب نہیں ہوئے جتنی توقع کی جا رہی تھی، جس نے خان کو مایوس اور ان کے مخالفین کے مورال کو کچھ بلند کر دیا، خان کو امید تھی، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک کے طول و عرض میں جس طرح کا تشدد بھڑک اٹھا تھا، اسی نے ریاستی مقتدرہ کو وقتی طور پہ پیچھے ہٹنے اور اقتدار پیپلز پارٹی کے حوالے کرنے پہ مجبور کیا، چنانچہ انہیں امید تھی کہ ان پہ حملے کا بھی ویسا عوامی ردعمل آئے گا لیکن خلاف توقع خان پر حملہ کے ردعمل میں 230 ملین پہ مشتمل قوم میں بڑے پیمانہ کے مظاہرے یا کہیں بھی پرتشدد فسادات نہیں پھوٹے۔

خان نے اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کا الزام وزیراعظم شہباز شریف سمیت حساس ادارے آفیسر پر لگایا۔ تاہم کوشش بسیار کے باوجود پنجاب اور خیبر پختون خوا، جہاں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں، وہاں چند گنے چنے مظاہرین نے لوکل پولیس اور انتظامیہ کی چشم پوشی سے فائدہ اٹھا کر مرکزی شاہراہیں بند کر کے دو دن سے جزوی طور پہ ٹریفک کا پہیہ جام رکھا لیکن اس بیکار سرگرمی کا کوئی خاص سیاسی اثر نظر نہیں آیا۔ عمران خان بظاہر قبل از وقت انتخابات کے مطالبات کی گونج میں لانگ مارچ کا جو لشکر لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے رواں دواں تھا اس کی کامیابی کی امید بتدریج کم ہوتی گئی چنانچہ ایسے میں اس سانحہ وزیر آباد کے بیک باونس نے انہیں لانگ مارچ کی آزمائش سے نکلنے کا موقع ضرور دیا لیکن کچھ نادیدہ مسائل نے پھر انہیں اسی دلدل میں کھینچ لیا۔

70 سالہ خان کا دعوی ہے کہ انہیں اس وقت پنڈلی میں زخمی آئے جب مسلح شخص نے ان کے کنٹینر پر خودکار ہتھیار سے فائرنگ کردی۔ پنجاب پولیس کے مطابق، قاتلانہ حملہ میں پی ٹی آئی کے ایک حامی کی اتفاقیہ ہلاکت سمیت سات افراد زخمی ہوئے، تاہم مدعیوں نے مقتول کے پوسٹ مارٹم اور زخمیوں کی میڈیکولیگل رپورٹس سے دانستہ اغماض برتا، اس واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ بھی ستر گھنٹوں سے تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔ حیران کن طور پہ خان نے اپنی ہی پنجاب گورنمنٹ کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج کا قانونی تقاضا پورے کرنے کی بجائے اپنے چیریٹی ہسپتال میں دونوں ٹانگوں کی سرجری کروانے کو ترجیحی دی۔

پی ٹی آئی کے مرکزی جنرل سیکرٹری اسد عمر کہتے ہیں“ ہمارے پاس حملہ بارے پیشگی معلومات تھیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تینوں نامزد افراد کو عہدوں سے ہٹایا جائے، اگر انہیں ہٹایا نہ گیا تو ہم ملک گیر احتجاج کی کال دیں گے ”۔ گویا خان اور اس کی جماعت چاہتی ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت گرانے کے لئے شروع کیے گئے لانگ مارچ کا اسلام آباد میں استقبال کیوں نہیں کیا جا رہا؟ خان کی اپنی پنجاب پولیس نے حملہ آور کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر کے اس کا اعترافی ویڈیو بیان سوشل میڈیا پہ وائرل کیا جس میں ملزم نے اعتراف کیا، وہ عمران خان کو مارنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اپنے آپ کو نبیوں سے تشبیہ دے کر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رہا تھا، تاہم خان اور اس کے رفقاء مبینہ حملے کے پیچھے شہباز شریف اور فوجی اہلکاروں کا ہاتھ دیکھتے ہیں، جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں نے پی ٹی آئی پر خان کے ناکام لانگ مارچ کو مہمیز دینے کی خاطر خود پر جھوٹے فلیگ اٹیک کا الزام لگایا۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا کہ“ عمران نے سیاست میں جس نوع کی انتہاپسندی کی آگ بھڑکائی، اب وہ نفرتوں کی اسی آگ میں خود جلنے والے ہیں۔ ہماری سیاست میں تشدد کوئی اجنبی عنصر نہیں 1951 میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں اجتماع سے خطاب کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو دسمبر 2007 میں راولپنڈی شہر میں انتخابی ریلی کے دوران بم حملوں کی گونج میں لیزر گن سے شہید کیا گیا۔

بے نظیر بھٹو کی المناک موت پر خان نے لندن کے ٹیلی گراف اخبار کے لئے ”بے نظیر بھٹو خود کو قصوروار ٹھہرائیں“ جیسے عنوان سے دل آزار تحریر لکھی لیکن اب خان خود پہ حملہ کی ذمہ داری وزیراعظم اور ریاستی مقتدرہ پہ ڈال رہے ہیں۔ عمران خان پہ قاتلانہ حملہ کی کوشش کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی، جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عمران خان پر حملہ کی مذمت کرتے ہوئے، فریقین سے تشدد، ہراساں کرنے اور باہم دھمکیاں دینے کی روش سے گریز کا مطالبہ کیا۔

سوشل میڈیا پہ نفرت انگیز مہمات، باہمی الزام تراشی، پرتشدد مظاہروں اور ڈرانے دھمکانے کے بیانات کے ساتھ قومی سیاست تیزی سے انتقامی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دریں اثناء ہمارا ملک 26 فیصد تک پہنچ جانے والی مہنگائی اور ہولناک سیلاب، جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا، میں 1,700 سے زیادہ انسانی جانیں گنوانے کے علاوہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 بلین ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ عالمی ماہرین سیاست کہتے ہیں ”یہ حیران کن ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران اور خوفناک سیلابوں کو دیکھتے ہوئے بھی، عمران خان مملکت کو سیاسی عدم استحکام کی دلدل کی طرف دھکیلنے میں فعال نظر آتے ہیں، عمران خان اپنی حکومت گرانے سے پہلے بھی غیر ضروری طور پر مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے جیسے رویے کے مرتکب ٹھہرائے گئے، مقابل سیاستدانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانا اور سیاسی حریفوں کو “ غدار ”قرار دینے کے علاوہ طاقتور فوج کو میر جعفر و میر صادق جیسے طعنہ دے کر ان کے تاریخی کردار کو تضحیک آمیز جملوں میں اڑانے لگے، گزشتہ ہفتے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے اپنی بے مثال پریس کانفرنس میں پہلی بار میڈیا سے گفتگو کے دوران خان پر الزام لگایا کہ وہ راتوں کی تاریکی میں فوج کے ساتھ دوغلے طریقے سے مذاکرات اور دن کی روشنی میں اسے اپنے سیاسی شکار کے بیانیہ میں لپیٹ لیتے ہیں۔

اکتوبر میں الیکشن کمیشن نے خان کو سرکاری تحائف بیچنے اور اثاثے چھپانے کے جرم میں پانچ سال کے لئے سیاسی عہدے کے لئے نا اہل قرار دیا۔ فوج، جس کی حمایت 2018 میں خان کو اقتدار میں لانے کے وسیلہ بنی تھی، پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر بدامنی کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ شریف کی حکومت کی حمایت کرے گی۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: