اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان ۔ مسائل حل کیسے ہوں گے۔۔؟۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بلوچستان کے مسئلہ پر قومی کمیشن بنانے کے لئے وفاقی کابینہ میں بات کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں قومی سلامتی کے معاملات کا فوری اور مستقل حل نکالنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہائیوں سے عسکریت پسندی جاری ہے، وقت تیزی سے گزر رہا ہے مزید تاخیر کی صورت میں یہ آگ سب کے دامن تک پہنچ سکتی ہے اس سے وفاق کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ فوج، عدلیہ، سیاستدانوں سمیت سب سے غلطیاں ہوئیں اب سبھی کو مل بیٹھ کر سوچنا سمجھنا ہوگا کہ غلطیوں کا ازالہ کیسے ہوسکتا ہے۔

مل بیٹھنے اور غوروفکر کے ساتھ حکمت عملی وضع کرکے عمل کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں انہوں نے سوات اور ملحقہ علاقوں میں رونما ہوئے حالیہ واقعات پر بھی اظہار خیال کیا ان کا یہ کہنا درست تھاکہ حالیہ واقعات اور مسلح جتھوں کی سرگرمیاں گیارہ بارہ برس بعد شروع ہوئی ہیں اس پر بلاوجہ کی الزام تراشی کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔

صد شکر کہ کسی نے تاخیر سے سہی بلوچستان کے مسئلہ کی حساسیت کا اعتراف کرتے ہوئے فوری اصلاح احوال پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا یہ کہنا بلاشبہ درست ہے کہ تاخیر کی صورت میں پھیلنے والی آگ سب کے دامن تک پہنچے گی اور وفاق کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل اور دوسرے معاملات پر طویل عرصہ کے بعد پاکستانی وفاق کے نمائندہ ادارے قومی اسمبلی میں وزیر دفاع کا اظہار خیال اور مسائل کو حل کرنے کی ضرورت پر زور یقیناً خوش آئند بات ہے۔ اس طور سوچنے اور اظہار خیال میں تاخیر کیوں ہوئی اس سوال سے صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ بلوچستان کے حقیقی مسائل اور دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی دونوں کی پردہ پوشی کرکے بلوچستان کے حوالے سے تصویر کا من پسند رخ باقی ماندہ ملک کے لوگوں کو کیوں دیکھایا جاتا رہا؟

وزیر دفاع نے عدلیہ، فوج، سیاستدانوں کی غلطیوں پر بات کی، غلطیاں ہوئی بدقسمتی یہ ہے کہ ہر طبقے نے اپنی غلطی کو اصلاح کا غلاف پہناکر حقائق کو مسخ کیا۔

ستم بالائے ستم قومی میڈیا کہلانے کے دعویدار میڈیا ہائوسز نے بھی اس معاملے پر آزادانہ رپورٹنگ، تجزیوں اور مکالمے کی ضرورتوں کو یکسر نظرانداز کیا اس طور عام آدمی کے سامنے تصویر کا ایک رخ ہے وہ یہ کہ بعض علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں پاکستان کی قومی سلامتی سے کھیل رہی ہیں۔ اس موقف کی تان اکثر اوقات بھارت پر ٹوٹتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے بلوچستان میں عسکریت پسندی کی پشت بانی کرکے دنیا کی توجہ اپنے جنگی جرائم سے ہٹانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

بالفرض یہ موقف درست بھی ہو تو کیا عوام کے لئے اتنی ہی آگاہی کافی ہے اور اس کی بنیاد پر مداوے کے لئے کئے جانے والے اقدامات بھی؟

یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت بلوچستان کی حقیقی صورتحال سے ناواقف ہے بلکہ ایک بڑی تعداد نے تو کبھی کوئٹہ کا رخ ہی نہیں کیا۔ قلات، مکران، بیلہ ، پنجگور تو رہے ایک طرف، وفاقی سیاست کی دعویدار جماعتوں کے روابط بھی وفاقی سیاست اور اقتدار میں اپنے حصے کا کردار لینے والے بڑے خاندانوں تک محدود ہیں۔

بلوچ سماج کے عام طبقات سے بڑی سیاسی جماعتوں کی لاتعلقی سے پیدا ہوئے مسائل نے ان محرومیوں کو مایوسیوں میں تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ذرائع ابلاغ یا عام شہری بس ان باتوں اور خبروں سے واقف ہوپاتے ہیں جو سات پردوں سے ’’چھن‘‘ کر باہر آئیں ۔

جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے عام آدمی کے سامنے حقیقت حال کو رکھا جائے۔ بلورچستان میں عسکریت پسندی نے راتوں رات جنم لیا نہ صرف کچھ بیرونی قوتوں کے مذموم ایجنڈے تک بات محدود ہے۔

پچھلے پچھتر برسوں میں مختلف ادوار کی حکومتوں نے اقتدار سازی کے عمل میں مخصوص خاندانوں کو حصہ دیا ان خاندانوں میں سے اکثر حکومت وقت کے حامی ہوتے ہیں۔ ان کے پیش نظر عام شہری کے نہیں اپنے مفادات ہوتے ہیں۔

تعلیم و تحقیق، سرکاری یا بڑی کارپوریشنوں کی ملازمتوں اور دوسرے وسائل میں حصہ بقدرے جثہ نہ ملنے اور مقامی وسائل پر دسترس سے محرومی نے جن مسائل کو جنم دیا ان سے چشم پوشی بگاڑ کا سبب بنی۔ ہر دوچار ماہ کے بعد یہ کہہ کر بہلایا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے ہر کس و ناکس سے بات ہوگی۔ چند بار عوام کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت عسکریت پسندوں سے بھی بات کرنے کو تیار ہے تاکہ مسئلہ حل ہو۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ بلوچستان کا حقیقی مسئلہ یا مسائل کیا ہیں۔

عسکریت پسندی کی حقیقی وجوہات، سب سے بڑھ کر یہ کہ بلوچوں کی نئی نسل فیڈریشن سے لاتعلق کیوں ہوتی جارہی ہے؟ ان سوالات کا صاف سیدھے انداز میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ کامل سنجیدگی سے اصلاح احوال کے لئے ایجنڈا وضع کرنا ہوگا البتہ غور طلب امر یہ ہے کہ فیڈریشن اور اس سے مایوس طبقات اور عسکریت پسندوں میں اعتماد سازی کی شروعات کیسے ہوں گی۔

ایک رائے یہ ہے کہ اعتماد سازی سے عبارت ماحول کے لئے کئی کئی برسوں سے لاپتہ افراد میں سے جو ریاستی محکموں کی تحویل میں ہیں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ان میں جن کے خلاف مقدمات بنتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے باقی ماندہ کو رہا کردیا جائے۔ فیڈریشن سے گریز پا طبقات کا اعتماد حاصل کرکے دو قدم آگے بڑھ کر عسکریت پسندوں کوقومی دھارے میں لانے کے لئے پیش رفت ضروری ہے۔

یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ اگر ماضی میں حکومت کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرسکتی ہے اور مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سنگین جرائم میں سزا یافتہ اور گرفتار اشخاص کو رہا کیا جاسکتا ہے تو ناراض بلوچوں سے بات چیت کرنے کے لئے اعتماد سازی کے تقاضے پورے کرنے میں امر مانع کیا ہے؟

یہ عرض کرنا غلط نہ ہوگاکہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے تاخیر سے سہی قومی اسمبلی کے ایوان میں بلوچستان کے مسئلہ پر بات تو کی اور یہ بھی کہا کہ آگ وسیع ہوئی تو سب کے دامن تک پہنچے گی۔ یہ تاثر دور کرنے کی ضرورت ہے کہ فیڈریشن کو صرف بلوچستان کے وسائل سے غرض ہے۔

یہاں ہم اس امر کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ حالیہ بدترین سیلاب میں بلوچستان کے دوردراز کے علاقے شدید متاثر ہوئے ان متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا وہ زوروشور دیکھائی نہیں دیا جو دیگر متاثرہ علاقوں میں دیکھائی دیا۔ سیلاب سے متاثرہ بلوچستان کے علاقوں کے باسی خود کو مجبور و بے دست اور یک و تنہا محسوس کرتے ہیں۔

یہ سوچ ہی امیدوں کے دیئے بجھاکر مایوسیوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ دیر آید درست آید یقیناً بلوچستان کے مسائل کا جائزہ لینے اور ٹھوس پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے قومی کمیشن بننا چاہیے اور اس کمیشن کو تمام فریقوں سے بہرصورت بات کرنی چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں قومی کمیشن بنانے کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔

یہ امر بہرصورت پیش نظر رہے کہ بلوچ عوام بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح مساوی حقوق رکھتے ہیں ان کی محرومیوں، مایوسیوں اور ناراضگیوں کو دور کرکے ایک ایسے نئے دور کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے جو تعمیروترقی، باہمی اعتماد کے فروغ اور وسائل پر مساوی حقوق کے حوالے سے مثالی ہو۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: