نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فوری انتخابات کے لئے عمران خان کا دباﺅ ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر کے روز ایک دن قبل ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج کی بابت اپنے ساتھیوں سے طویل مشاورت کے بعد عمران خان صاحب نے ایک تفصیلی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ میں اس فروعی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنی پسند کے چند صحافیوں ہی کو مذکورہ پریس کانفرنس کے لئے مدعو کیوں کیا۔ میری دانست میں ہر سیاست دان کو یہ حق میسر ہے کہ اپنا پیغام اجاگر کرنے کے لئے من پسند انتظامات کے ذریعے ”پریس کانفرنس“ سے خطاب کرے۔

”صحافت“ کئی دہائیوں تک معدودے چند ”رپورٹروں“ سے مختص رہی ہے۔ زمانے کے انداز اب بدل چکے ہیں۔ رواں صدی کے آغاز میں ٹی وی صحافت اور سوشل میڈیا کے فروغ نے جو انداز متعارف کروایا ہے اس نے موبائل کے مالک ہر شہری کو ”صحافی“ بنا دیا ہے۔ سیاستدان ”پرہجوم کانفرنس“ کے ماحول میں اپنا پیغام تفصیلی انداز میں بیان نہیں کر سکتا۔ کلیدی مقصد اس کا جبکہ اپنا ”پیغام“ اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

اس حقیقت کے تناظر میں لازمی ہے کہ تحریک انصاف کے قائد کے ”پیغام“ پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ یہ طے کرنے کے بعد آگے بڑھیں تو عمران خان کامل اعتماد سے یہ اصرار کرتے سنائی دیے کہ اتوار کے دن ضمنی انتخابات نہیں ہوئے ”ریفرنڈم“ ہوا ہے۔ ”ریفرنڈم“ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں۔ ”امپورٹڈ حکومت“ میں شامل ”چوروں اور لٹیروں“ سے ہمارے عوام کی اکثریت اکتا چکی ہے۔

ذاتی طور پر میں ”ریفرنڈم“ والے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے قاصر ہوں۔ اسے نظرانداز کرتے ہوئے بھی تاہم یاد رکھنا ہو گا کہ خان صاحب کے خیال میں اتوار کے ”ریفرنڈم“ نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت فوری انتخاب کی شدت سے متمنی ہے۔ یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں کہ انہیں کامل اعتماد ہے کہ فوری انتخابات ہو گئے تو وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ نہ سہی کم از کم بھاری بھر کم اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹ آئیں گے۔

فوری انتخاب کے مطالبے کو جائز یا ناجائز ثابت کرنے کی بحث میں الجھنا بھی وقت کا زیاں ہو گا۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ قائم ہے کہ نئے انتخاب کون دے گا۔ پاکستان کا ”تحریری آئین“ اگر اب بھی کوئی وقعت رکھتا ہے تو نئے انتخابات فقط اسی صورت ممکن ہیں اگر وزارت عظمیٰ کے منصب پر ان دنوں فائز شہباز شریف صاحب صدر مملکت کو موجودہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست کریں۔ اتوار کے دن ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج آ جانے کے بعد شہباز شریف ایسی درخواست بھیجنے کی جرات نہیں دکھائیں گے۔ ”تحریری آئین“ ہی کو بروئے کار لانا ہے تو فوری انتخاب کے حصول کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب اپنے ان اراکین سمیت قومی اسمبلی میں واپس لوٹ آئیں جن کے استعفے ابھی تک سپیکر راجہ پرویز اشرف نے منظور نہیں کیے ہیں۔ تحریک انصاف اگر اپنے تئیں قومی اسمبلی میں لوٹ بھی آئے تو اس کے پاس شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے والے نمبر موجود نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم کو ایک بار پھر ان ہی ”اتحادیوں“ سے رجوع کرنا ہو گا جن کے تعاون سے انہوں نے جولائی 2018 ء کے انتخابات کے بعد حکومت بنائی تھی۔ رواں برس کے اپریل میں وہ ان سے جدا ہو گئے تو شہباز شریف کو برسراقتدار لانے کی چال کامیاب ہوئی۔ آخری وقت پر ساتھ چھوڑ جانے والے ”اتحادیوں“ کو لیکن خان صاحب معاف کرنے کو آمادہ نہیں۔

نئے انتخابات یقینی بنانے کے لئے سابق وزیر اعظم ازخود کوئی سیاسی گیم لگانے کے بجائے ”انہیں“ یاد دلائے چلے جا رہے ہیں کہ ملک کے ”وسیع تر قومی مفاد“ کی خاطر وہ ”نیوٹرل“ رہنے کے بجائے ”سیاسی“ کردار ادا کرنے کو رضا مند ہوجائیں۔ نظر بظاہر ”وہ“ مائل نہیں ہو رہے۔ ”ان“ پر دباؤ بڑھانے کے لئے عمران خان صاحب کو لہٰذا اپنے وعدے کے مطابق رواں مہینے کے اختتام سے قبل اسلام آباد پر لانگ مارچ کے ذریعے ”دھاوا“ بولنا ہو گا۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے اختتامی دنوں میں بھی ان دنوں کی اپوزیشن جماعتیں ویسا ہی ماحول بنانا چاہ رہی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مگر ان دنوں کے آرمی چیف نے مذاکرات کے لئے اپنا ہیلی کاپٹر بھیج کر مدعو کر لیا۔ اس ملاقات کی بدولت ”کاکڑ فارمولا“ نمودار ہوا۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ معین قریشی کو امریکہ سے ہنگامی طور پر مدعو کرنے کے بعد عبوری وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ 1993ء میں تاہم ان کی نگرانی میں جو انتخاب ہوئے اس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور تین برس تک اقتدار میں رہیں۔

میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ اگر اب کی بار ”کاکڑ فارمولا“ جیسا کوئی راستہ بن گیا تو یہ بالآخر عمران خان صاحب کے بجائے ان کے سیاسی مخالفین خاص طور پر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ہی کے کام آئے گا۔ یہ بات تقریباً یقینی نظر آ رہی ہے کہ موجودہ حالات میں نئے انتخاب ہوئے تو وہ عمران خان صاحب ہی کو فائدہ پہنچائیں گے۔ سوال اگرچہ یہ لکھ دینے کے بعد یہ بھی اٹھانا ہو گا کہ اگر ”نیوٹرل“ کی معاونت سے نئے انتخابات تقریباً عمران خان صاحب کی خواہش کے مطابق ”مسلط“ ہوئے نظر آئے تو ان دنوں حکومت میں بیٹھ کر بھی بے بس و لاچار دکھتی جماعتیں کیا رویہ اپنائیں گی۔ فی الوقت تو یہ نظر آ رہا ہے کہ وقت سے پہلے اقتدار کھو دینے کے بعد یہ جماعتیں عمران خان صاحب کی طرح ”خطرناک“ نہیں بن پائیں گی۔ ”وقت“ مگر کبھی ساکن نہیں رہتا۔ شہباز شریف صاحب دباؤ کے تحت مستعفی ہونے کے باوجود شاید ”باغی“ ہونے سے گریز کریں گے۔ لندن میں مقیم ان کے بڑے بھائی مگر یکسر مختلف رویہ اپنا سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت بھی ”غضب ناک“ ہوسکتے ہیں۔ سندھ میں آئے سیلاب کی تباہ کاریوں نے پیپلز پارٹی کو ویسے ہی بوکھلا رکھا ہے۔ اقتدار سے ”زبردستی“ نکالے جانے کے بعد وہ ایک بار پھر ”سندھ کارڈ“ کو بھی زندہ کر سکتی ہے۔

یہ حقائق مگر ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں فی الوقت زیربحث نہیں۔ عمران خان صاحب تو انہیں کسی خاطر میں نہیں لا رہے۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے البتہ میں اس خدشے کے اظہار کو مجبور ہوں کہ محض عمران خان صاحب کے دباؤ کے تحت ہوئے فوری انتخاب وطن عزیز کو استحکام فراہم نہیں کر پائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author