دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بائیڈن نے کیا غلط کہا۔۔؟ ۔۔۔|| اظہر عباس

خان صاحب بیانیہ پر بیانیہ دیتے رہے۔ یوں کہیے سوشل میڈیا پر ان کا جیسے کنٹرول ہوگیا۔ وہ کسی بھی لحاظ سے کارکردگی دینے میں بالکل ناکام ہو گئے۔ لیکن آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر رخصت ہوئے۔ ان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے گئی، اس کو انھوں نے امریکی سازش قرار دیا۔ جو ان کے چاہنے والے تھے وہ اس طرح ان پہ اندھا یقین رکھتے تھے جس طرح ہندوتوا والے مودی سے، سفید فام قوم پرست ٹرمپ سے محبت رکھتے ہیں۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اتحاد، تنظیم، یقین محکم”

ایمان، اتحاد، نظم و ضبط پاکستان کا قومی نصب العین ہے۔ اسے پاکستان کی قومیت کا رہنما اصول سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد، اسے ملک کے بانی محمد علی جناح نے قومی نصب العین کے طور پر متعارف کرایا اور اپنایا۔ یہ ریاستی نشان کی بنیاد پر اردو میں کندہ ہے۔ جناح نے اسے اپنی زندگی کی ذاتی مثال سے جوڑا، اور اپنے وقت کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام دیا۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کے ابھرنے کے چار ماہ بعد 28 دسمبر 1947 کو قائد اعظم نے کہا: "ہم آگ سے گزر رہے ہیں: سورج کی روشنی ابھی آنی ہے۔ لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے ساتھ ہم دنیا کی کسی بھی قوم کے ساتھ موازنہ کریں گے۔ کیا آپ آگ سے گزرنے کے لیے تیار ہیں؟ آپ کو اپنا ذہن بنانا چاہیے۔ اب ہمیں انفرادیت اور معمولی حسد کو چھوڑ کر ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔ ہم خوف، خطرے اور خطرات کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط ہونا چاہیے۔”

جناح نے ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کو بیان کرتے ہوئے بہت سے خطاب کئے۔ 23 مارچ 1945 کو انہوں نے کہا: "پاکستان میں ہماری نجات، دفاع اور عزت مضمر ہے… ہماری یکجہتی، اتحاد اور نظم و ضبط میں اس جنگ کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے طاقت، طاقت اور منظوری پوشیدہ ہے۔ کسی بھی قربانی کو بہت بڑا نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ اس دنیا میں آپ کے اپنے ضمیر سے بھی بڑھ کر اور جب آپ خدا کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری دیانتداری، دیانتداری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کی۔”

11 ستمبر 1948 کو جناح نے اپنا آخری پیغام دیا: "آپ کی ریاست کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں اور اب یہ آپ پر ہے کہ آپ جلد از جلد تعمیر اور تعمیر کریں۔ پاکستان کو اپنے نوجوانوں پر فخر ہے، خاص طور پر طلباء، جو کہ کل کے قوم کے معمار ہیں۔ انہیں پوری طرح سے لیس ہونا چاہیے۔ خود نظم و ضبط، تعلیم اور تربیت کے ذریعے اپنے سامنے پڑے مشکل کام کے لیے۔ ایمان، نظم و ضبط، اتحاد اور فرض کے لیے بے لوث لگن کے ساتھ، کوئی بھی قابل قدر چیز نہیں ہے جسے آپ حاصل نہیں کر سکتے۔”

قائد اعظم کے بعد جو بھی قائدین اس ملک میں برسر اقتدار رہے وہ اسی نصب العین کو سامنے رکھ کر چلے اور اگر اس کو سامنے نہیں بھی رکھا تو اسے پس پشت بھی نہیں ڈالا۔ لیکن دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آج کا پاکستان اس قومی نصب العین کی ترجمانی کرتا ہے ؟ کیا ہم میں ایک واضع دراڑ نہیں در آئی اور کیا یہ دراڑ ہر قومی ادارے میں موجود نہیں ؟ کیا اس ملک کے لوگ لکیر کے دو حصوں میں نہیں بٹ چکے ؟ کیا پاپولرازم کے گھوڑے پر سوار ہمارا ایک لیڈر اور اس کے پیروکار اس وقت ہر ادارے کو تہس نہس کرنے پہ نہیں تلے ہوئے ؟

خان صاحب ٹرمپ جیسی سیاست کرنے والے پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفرد سیاستدان نکلے ہیں۔ ایک بیانیہ بنایا اور مخالف سیاستدانوں کو کھلی گالیاں دیں، انھیں کرپٹ قرار دیا۔ ان کے لانے والوں اور چلانے والوں نے جمہوری اداروں کو اپنی انگلیوں پر نچایا۔ یہ ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے جس کا اعتراف انھوں نے اب کیا بھی ہے لیکن جتنی کرپشن و اقربا پروری انھوں نے کی، اس کی ان کو اجازت تھی، پنجاب انتہائی کم زور شخص کو دیا اور فرح گوگی نامی خاتون کو ڈیفیکٹو وزیر اعلیٰ بنا دیا جو خود بنی گالہ میں رہتی تھی۔

خان صاحب بیانیہ پر بیانیہ دیتے رہے۔ یوں کہیے سوشل میڈیا پر ان کا جیسے کنٹرول ہوگیا۔ وہ کسی بھی لحاظ سے کارکردگی دینے میں بالکل ناکام ہو گئے۔ لیکن آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑا کر رخصت ہوئے۔ ان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے گئی، اس کو انھوں نے امریکی سازش قرار دیا۔ جو ان کے چاہنے والے تھے وہ اس طرح ان پہ اندھا یقین رکھتے تھے جس طرح ہندوتوا والے مودی سے، سفید فام قوم پرست ٹرمپ سے محبت رکھتے ہیں۔

امتیاز عالم صاحب اپنے کالم مورخہ 16 اکتوبر 2022 میں موجودہ خلفشار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"سیاسی لیڈروں میں تبدیلی آتی ہے، اچھی بھی بری بھی۔ لیکن عمران خان کی سیاست کے ضمیر میں کوئی صفتی تبدیلی واقع نہیں ہورہی۔ گھسی پٹی سیاست کو سطحی انقلابی نعروں سے مقبول تو کیا جاسکتا ہے، حقیقی جمہوری ، عوامی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ایک پوری نسل ان کی ڈرٹی پالیٹکس کی نذر ہوچکی ہے جس کا کلچر اینٹی پالیٹکس ہے، جیسے شہری مڈل کلاس اور دیہات کے چوہدریوں کا ماسٹر بیانیہ ہمیشہ سیاستدان مخالف اور پرو اسٹیبلشمنٹ رہا ہے اور ہر آمر کو ان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ اینٹی پالیٹکس مڈل کلاس اب جمہوری دھارے کے خلاف عمران خان کے اتھارٹیرین کنزرویٹو پاپولزم کی حامی ہے، اوپر سے عمران خان کا شخصی کلٹ ہے جس کے مردوزن پروانوں کی کمی نہیں جو خان کی حکمرانی (khanate of Imran Khan) چاہتے ہیں خواہ کیسی ہی لیکس کپتان کے اخلاقی غبارے سے کتنی ہی ہوا نکالتی رہیں۔ عمران خان کی سیاست کا انداز فقط بیانیے کی حد تک جارحانہ نہیں، سماجی خلفشار اور خانہ جنگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔”

ایک اور کام جو خان صاحب نے کیا ہے وہ مذہب کو جنرل ضیاء الحق کی طرح استعمال کرنا تھا۔ ان دس سالوں میں جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے جو عمران خان اور ہمنوائوں نے بیانیہ بنایا، مارکیٹ میں وہ بیانیہ آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھو رہا ہے، لیکن اس ملک کو بہت نقصان بہرحال اس بیانیہ نے پہنچایا ہے، جس نقصان کی تلافی کے لیے ایک وقت درکار ہے۔

آیندہ دہائیوں میں دنیا بہت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ریاستوں پر بین الاقوامی قانون اور زیادہ اثر رکھے گا۔

یوں کہیے دنیا کی ہر ریاست کے لیے لازم ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ کار اپنائے وگرنہ بین الاقوامی رشتوں کے اعتبار سے اسے خاندان میں ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔

ان حالات میں اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے صدر بائیڈن ہمیں اتحاد کا درس دے تو ہمیں بڑا صدمہ نہیں ہونا چاہئیے۔ میں چونکہ صدر بائیڈن اور دوسرے عالمی لیڈرز کو مسلسل فالو کرتا ہوں کیونکہ ان کے بیانات سے ان کے ورلڈ ویو کا بہتر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ باقی دنیا اور پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اسی طرح دنیا پر ان کی سوچ کے اثرات کی آگہی بھی مل جاتی ہے۔ تو میں نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ اس نے کہا کیا ہے اور کہاں کہا ہے۔

پتا چلا کہ ان خیالات کا اظہار اس نے ایک پارٹی اجتماع میں دیا۔ وہ اجتماع دراصل اُن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریشنل کیمپئن کمیٹی کا اجتماع تھا اس لحاظ سے یہ تقریب امریکی حکومت کی کوئی سرکاری تقریب نہیں تھی اور صدر بائیڈن کی شرکت اور خطاب ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی کامیابی سے متعلق امور سے تھا جس میں صدر بائیڈن پارٹی لیڈر کے طور پر ایک پرائیوٹ رہائش گاہ پر شرکت کیلئے گئے تھے۔

اچھا اب الفاظ پر غور فرمائیں:

’’اور پاکستان میرے خیال میں شاید دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہے جس کے پاس کسی اتحاد کے بغیر جوہری ہتھیار ہیں‘‘۔

زور کس پر دیا "اتحاد” پر۔

اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا خان صاحب نے قوم کو منقسم نہیں کر دیا ؟ کیا انہوں نے اداروں کو تقسیم نہیں کیا ؟ یا جیسے کہ شہباز گل کے ذریعے سے ایک پیغام دیا گیا تھا اگر کوئی اس پہ کان دھر لیتا تو ؟

دنیا ہماری ہر موو پر نظر رکھتی ہے جیسے ہم ان پر۔

جب سے یہ سب علم میں آیا ہے سر پکڑے بیٹھا ہوں کہ بائیڈن نے کیا غلط کہا۔؟

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author