دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب کی فرسٹریشن۔۔۔|| اظہر عباس

برطانوی دور حکومت میں اقتصادی ترقی کم سے کم تھی، جو کہ 1900 سے 1947 تک اوسطاً صرف 0.9 فیصد سالانہ تھی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ نوآبادیاتی ہندوستانی معیشت زیادہ تر زرعی تھی، لیکن پھر بھی انگریزوں نے زرعی پیداوار کو بہتر بنانے میں بہت کم سرمایہ کاری کی۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنے سیاسی کیریئر کے مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور ہر آنے والا دن ان کیلئے مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔

عمران خان اپنے سیاسی مستقبل اور مقبولیت کے گرے ہوئے گراف کے حوالے سے انجانے خوف کا شکار ہیں۔ دراصل آڈیو لیکس نے ان کے سائفر بیانیہ کو تو دفن کیا ہی ساتھ ہی ان کے بہت سے حامیوں کو ان مایوسی ہوئی کہ کس طرح جھوٹ کی بنیاد پر انہوں نے ایک ایسے بیانیے کو ڈیزائن کیا۔ جس کی مقبولیت پر انہیں زعم تھا لیکن اب بتدریج اس کے قلعہ میں دراڑ یں پڑ نا شروع ہوگئی ہیں۔

روز اول سے میں اپنے قارئین کو سائفر کی حقیقت، سائفر اور خط میں فرق اور دھمکی آمیز خط یا تبادلہ خیالات کی سمری کے مابین تفریق پر بھی آگاہ کر چکا۔ انتہائی باریک بینی سے نظام اور نظام کی تبدیلی کے بارے میں بھی آگہی دی اور آزادی و حقیقی آزادی کے مفہوم پر بھی لکھا۔ ان کی سوشل میڈیا مہم پر بھی نہایت عرق ریزی سے آگہی دی اور بیانئے بنانے اور اس بیانئے کو پھیلانے کے طریقوں سے بھی آگاہ کیا۔ روز اول سے میرا ایقان کہ جھوٹ کے پاس وقت کی قلت ہوتی ہے اور بالآخر سچ نے آشکار ہو کر رہنا ہے۔ خان صاحب برین گیم کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں کہ اپنے ماننے، چاہنے والے فالوورز کو ایسے مقام پر لا کھڑا کر دو کہ دن دہاڑے جرم میں پکڑا بھی جاؤں تو قتل بھی معاف رہے۔ یہی کلٹ اور کلٹ فالوونگ کی معراج ہوتی ہے۔ اس سے پہلے الطاف حسین کا عمل ہم دیکھ چکے ہیں ،ہر کرتوت، اخلاقی، مالی عیب، قتل، بھتے سب کچھ مگر ’’قائد کا ایک اشارہ، حاضرحاضر لہو ہمارا‘‘ کے نعرے۔ دلچسپ مماثلت کہ دونوں کو اسٹیبلشمنٹ نے ہی تراشا، بلندیوں تک پہنچایا، الطاف حسین کو RAW اوربرطانوی MI6 نے استعمال کِیا۔ خان صاحب آج کل کس کے استعمال میں ہیں؟ اگر اس پر غور کیا جائے تو نیو کونز لابی جس کو امریکہ میں ٹرمپ لیڈ کرتے ہیں، میں مماثلت ملے گی اور کلٹ فالوونگ کی مماثلت اسی نیو کونز کے ایک کلٹ پراوڈ بوائز میں۔ لیکن اس پر بات پھر کبھی سہی۔

دراصل خان صاحب کو مکافات عمل کا سامنا ہے۔ جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں مخالفین پر الزامات لگانے اور ان پر کیسز بنانے پر صرف کردیں۔ ملکی تاریخ کے سب سے متنازعہ کردار، سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال کو مبینہ طور پر وڈیو کے ذریعے ہی بلیک میل کیا گیا۔ اور اب اقتدار سے محرومی کے بعد وہ شدید مایوسی کی کیفیت میں ہیں کیونکہ پہلے تو آڈیو لیکس نے خان صاحب کی سیاسی ساکھ کو دھچکا لگایا۔ ان کے جھوٹ آشکارا کئے اور ان کے اعتماد کو شکستہ کردیا اور اب انہیں ممکنہ وڈیو لیکس کا خوف لاحق ہے۔ انہیں چونکہ ممکنہ وڈیو کے مضمرات کی سنگینی کا بخوبی احساس ہے اسلئے انہوں نے اب سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پہلے سے ہی پیش بندی شروع کردی ہے اور کسی وڈیو کے آنے سے پہلے خود ہی واویلا شروع کر دیا ہے تاکہ جب ایسی کوئی وڈیو منظر عام پر آئے تو ان کے پارٹی لوگ یہ کہیں کہ دیکھ لیں عمران خان نے تو پہلے ہی بتادیا تھا کہ ایسی گندی وڈیو آنے والی ہیں۔

گزشتہ روز ننکانہ صاحب میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ "سارے چور جمع ہوکر کسی نہ کسی طرح مجھے اور میری پارٹی کو عوام کی نظروں میں گندا کرنا چاہتے ہیں، یہ گندی گندی ویڈیو تیار کررہے ہیں، یہ گھر میں بیٹھ کر نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ویڈیو اور آڈیو ٹیپ تیار کر رہے ہیں۔”

ان کا کہنا تھا کہ "ڈیپ فیک ویڈیو عوام کو دکھائیں گے، یہ خود کو بچانے کے لیے گند اچھال رہے ہیں پھر بھی اپنے آپ کو نہیں بچاسکیں گے۔”

سوال یہ ہے کہ جو وڈیو آنے والی ہے اس کے متن (Content) کا عمران خان کو کیسے پتہ چل گیا ہے ؟

بند مٹھی سے گرتی ہوئی ریت ان کے اعتماد کو متزلزل کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 10 اکتوبر کو فائنل کال کا بگل نہیں بجایا۔ انہیں اب یہ خوف ہے کہ اگر اسلام آ باد پر چڑھائی کا انتہائی قدم بھی ناکام ہوگیا اور مطلوبہ تعداد میں لوگ نہ نکلے تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔

دوسری طرف ایف آئی اے نے ممنوعہ فنڈ نگ کیس میں جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں عمران خان بھی شامل ہیں اسلئے انہیں اب گرفتاری کا خوف بھی لاحق ہوگیا ہے ۔ ننکانہ صاحب میں عمران خان نے کہا کہ "ان سے دشمنوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے جھوٹے کیس بنائے جارہے ہیں۔ مقدمے کیے جارہے ہیں۔”

یہ رونا دھونا بھی ان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ دیوالیہ پن کے شکار کے پی کے، جس کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کیلئے فنڈ ہی نہیں تھے اور بالآخر وفاقی حکومت اوور ڈرافٹ سے مدد کو آئی۔ اسی طرح اس کی وادی سوات میں ہزاروں افراد کی غیر معمولی احتجاجی ریلی نے صوبائی حکومت کی کاکردگی پر بھی سوالات اٹھادیے ہیں۔

خان صاحب اپنے ستارے اپنے ہی ہاتھوں بگاڑ چکے ہیں، سو اب ان کی واپسی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ جن کی گود میں بیٹھ کر آئے تھے، وہ انہیں زمین پر پٹخ کر الگ ہو بیٹھے ہیں۔ خان کی فرسٹریشن عروج پر ہے جسکی گواہی خود صدر عارف علوی کی جانب سے آچکی ہے۔ ان کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ کسی طرح جلد سے جلد اقتدار میں آکر ایک پوسٹنگ کر سکیں مگر ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا اور یہی بات خان کو شدید خوفزدہ کیے ہوئے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے کھاتے میں بہت سے جرم جمع ہوچکے ہیں جن کی سزا سے انہیں "کوئی” ایک ہی صورت بچا سکتا ہے مگر افسوس کہ حالات بالکل بدل چکے ہیں۔

لانگ مارچ کے حوالے سے بھی بہت مجبوریاں پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں کیونکہ تحریک انصاف ابھی تک باقاعدہ تنظیم میں نہیں ڈھل سکی جو عوام کو لانگ مارچ جیسی سرگرمی میں لانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یعنی خان صاحب کے پاس منظم جدوجہد کرنے والا کیڈر موجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو 25 مئی والا لانگ مارچ اس برے طریقے سے ناکام نہ ہوتا۔ ویسے بھی خان کے پاس لانگ مارچ کا ہی کارڈ بچا ہے اور اگر یہ بھی ناکام ہوگیا تو ۔۔ ؟

ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ فی الوقت موجودہ حکومت کو نہ صرف یہ کہ کوئی خطرہ درپیش نہیں بلکہ وہ دھیرے دھیرے اپنے قدم جماتی چلی جارہی ہے۔ ڈالر کے ریٹ میں مسلسل گراوٹ ایک حوصلہ افزا نشانی ہے۔ اسمبلی کی کل سیٹیں 342 ہیں، سو نارمل حالات میں حکومت کو قائم رہنے کیلئے 172 کا عدد درکار ہوگا، مگر تحریکِ انصاف کے 122 ممبران کے اسمبلی سے نکل جانے کے بعد حکومت کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے صرف 111 ووٹ درکار ہیں۔ اس کا کیا کیا جائے کہ خان صاحب اسمبلی سے نکل کر اس حکومت کی برقراری کو آسان بنا چکے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ حکومت کسی بڑے خطرے کے بغیر اپنا وقت پورا کرے گی اور خان کا جلد الیکشن کا خواب بھی پورا نہیں ہوگا۔

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author