اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ کے نام پر جھوٹ کی تجارت کیوں؟ ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا جھوٹ یہ ہے کہ "کروڑوں ہندوئوں پر لاکھوں مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی” ۔ تاریخ یہ ہے کہ عرب مسلمان پہلے سندھ پر حملہ آور ہوئے اس حملے کی ایک سے زائد وجوہات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔

بالفرض اگر ہم ’’چچ نامہ‘‘ میں موجود حجاج بن یوسف کے اموی خلیفہ کو لکھے گئے خط کے مندرجات کو سامنے رکھ لیں تو اس کے خط میں واضح طور پر لکھا ہے کہ سندھ پر حملہ اور فتوحات سے نہ صرف جنگی اخراجات پورے کرلئے جائیں گے بلکہ بیت المال کی چار سے پانچ سال کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔

خلیفہ کا جواب اور حجاج کا الجواب بھی چچ نامہ میں موجود ہے۔ اس طور مسلم حکمرانی اول اول سندھ میں قائم ہوئی۔

یہاں یہ بات سمجھنے والی ہے کہ اس وقت ہند الگ اور سندھ الگ مملکتوں کے طور پر موجود تھے۔ راجہ داہر کے سندھ کی حدود سیالکوٹ سے آگے دریائے ” توی ” کے کنارے تک تھی دیگر حدود بھی بہت واضح ہیں۔

اسی طرح ہند پر مسلم تسلط کی مجموعی عمر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ ہندوئوں یا کانگریس کا یک قومی نظریہ ایک قوم ایک زبان، ایک مذہب اور ایک تہذیب کا پرکشش نعرہ تھا، کیسے حضور؟ کیونکہ قوم تو وطن سے بنتی ایک وطن میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔

لیکن اگر ظہوری صاحب کی یہ تھیوری مان بھی لی جائے تو کیا بدھ مت اور جین مت والوں نے خود کو ہندو دھرم کا حصہ مان لیا تھا اس تھیوری کی روشنی میں ؟

بظاہرایسا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے۔ بالائی سطور میں جن دو جھوٹوں کی نشاندہی کی تمہید و تعارف کے بغیر کی یہ اصل میں پروفیسر آصف ظہوری کی کتاب "تاریخ تقسیم ہندوستان” کا اقتباس ہے جو بقول ان کے انہوں نے جغرافیہ کیوں تقسیم ہوتا ہے کے تناظر میں تحریر کی۔

پروفیسر آصف ظہوری ایم اے مطالعہ پاکستان ہیں یہی ان کا تعارف ہے۔ فہمی آراء کے اختلاف سے جغرافیہ تقسیم ہوتا ہے؟ جی ہوتا ہے ذرا غور کیجئے بنگلہ دیش کیوں معرض وجود میں آیا۔ مطالعہ پاکستان والے قصے نہ سنانا شروع کردیجئے گا۔ اسباب قیام بنگلہ دیش کا اعتراف اصل میں اس متھ کو روند ڈالتا ہے جو مذہب سے قوم بناتے ہوئے پیش کی گئی۔

دو قومی نظریہ کے ناقدین نہیں بلکہ مجاوران دو قومی نظریہ سیم و تھور سے رزق پاتے رہے اور یہ کہ مذہب سے قوم بنانے کا نظریہ مسلم لیگ اور سرسید کا تھا۔

کانگریس کی ون نیشن تھیوری مذہب کی بنیاد پر نہیں تھی جیسا کے مصنف نے لکھا بلکہ اس سے مراد وطنی قومیت تھی اور ہے۔ اسی طرح شدھی تحریک بھی ہندو قومیت کی نہیں دھرم کی تحریک تھی۔

مطالعہ پاکستان کے گھٹالے یہی ہیں کہ اس کے اسیران دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے جھجکتے بھی نہیں ۔ بظاہر اس دروغ گوئی پر افسوس نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ نویسوں کی اکثریت اپنی فہم کی اسیر ہوتی ہے۔ درباری یا پھر اپنے ہم خیال طبقات کے جنون کی۔ جغرافیہ کیوں تقسیم ہوتا ہے؟

یقیناً یہ اہم سوال ہے خصوصاً تاریخ کے طلبا کے لئے بدقسمتی سے پروفیسر آصف ظہوری اس سوال کا جواب اپنی تصنیف میں نہیں دے پائے۔

اس کے برعکس انہوں نے دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیرعلی خان پٹودی کے پیش کردہ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر اٹھائی گئی فہم کا دفاع کیا۔

ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ظہوری صاحب کچھ کچھ ان مذہبی گروہوں کی فکر کے فرستادہ بھی ہیں جو بٹوارہ (کچھ لوگوں کے خیال میں تحریک پاکستان) کے مخالف تھے پھر پاکستان بننے کے بعد دو قومی نظریہ کے وارث بن گئے۔

طالب علم کے خیال میں انہوں نے بلاد عرب کی تقسیم یعنی نئی مملکتوں کے قیام کے معروضی حالات کا مطالعہ نہیں کیا۔ حجاز کبھی کبھی ایک آزاد مملکت کے طور پر وجود نہیں رکھتا تھا ظہور اسلام کےبعد کے مرحلوں میں مدینہ و مکہ اور کچھ دوسرے علاقے مملکت کے طور پر متعارف ہوئے۔ شام، عراق اور یمن کچھ آگے چلیں تو مصر بطور مملکت اسلام سے قبل بھی موجود تھے۔

شام اور عراق یمن اور مصر کا ریاستوں کے طور پر قدیم تاریخوں میں ذکر موجود ہے۔ بابلی تہذیب کو نظرانداز کر کے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔

یمن دنیا کے قدیم ڈیموں اور نہری نظام کا وارث ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم فتوحات کے برسوں میں اگر شام یمن اور عراق و مصر نئی مملکت کے صوبے بن گئے تو اس سے ان ریاستوں کی قدیم تاریخی شناختوں کی نفی نہیں ہوجاتی ۔

بلاد عرب میں نئی مملکتوں کا ظہور بنیادی طور پر اس برطانوی پالیسی کا حصہ تھا جس میں سعوی عرب کے نام پر ایک نئی ریاست بنی۔ حجاز کے حکمران شریف مکہ کے خاندان کو عراق، شام اور اردن کی مملکتیں عطا ہوئیں۔ اردن میں آج بھی شریف مکہ کا ہاشمی خانوادہ اقتدار میں ہے۔ شام اور عراق میں انقلاب آئے ہاشمی سپوت مارے گئے۔

دونوں جگہ قدیم مقامی عصبیت بھی ایک زندہ حقیقت تھی فوجی انقلابوں میں۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ عرب نیشنلزم بہت بعد کی بات ہے۔ پھر مصر زمانہ قدیم سے براعظم افریقہ کا حصہ رہا۔ گلف کی دوسری ریاستیں بنیادیں طور پر قبائلی شناختوں پر معرض وجود میں آئیں نہ کہ دینداروں کے اسلامی تصور قومیت پر۔

جس بات کو ہمارے ہندی مسلم تاریخ نویسوں کا بڑا طبقہ نظرانداز کرتا آیا ہے وہ یہ کہ امت مختلف اقوام کی فیڈریشن یا کنفیڈریشن تو ہوتی ہے بذات خود کوئی قوم نہیں۔امت اگر قوم ہو تو پھر جغرافیائی حد بندیوں کے لئے دینداروں کے گھڑے دلائل خود ان کے گلوں کا ہار بن جائیں گے

ایک وقت میں آج کی وسطی ایشیائی ریاستیں ایرانی صوبہ جات تھے۔ درمیان میں چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستوں کا تصور اور تعارف ہے۔

خراسان کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوا؟

شدت پسند مسلم دہشت گرد تنظیم جو آج کل ’’دولت اسلامیہ خراسان‘‘ کا چورن بیچ رہی ہے اس کے ’’خراسان‘‘ میں ایران، پاکستان، افغانستان وسط ایشیائی مسلم ریاستوں کے علاوہ ہندوستان کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔ پروفیسر آصف ظہوری ہند و سندھ کی شناختوں سے ناواقف محقق ثابت ہوئے ان کے خیال میں ہندوستان کی تہذیبی آشنائی موہنجو داڑو کی تہذیب ہے۔

یہ غلط اور بالکل غط فہم ہے ، موہنجو داڑو ہندوستان کی نہیں سندھ وادی کی تہذیبی شناخت ہے۔

بالائی سطور میں عرض کرچکا کہ راجہ داہر کے سندھ کی سرحد کہاں تک تھی۔ اس سندھ وادی کی معروف تہذیبوں میں موہنجو داڑو، پرہلاد کے عہد کا مولتان اور ہاکڑہ تہذیب (اس کا مرکز رحیم یار خان کے قریب تھا پتن منارہ اس کی باقیات ہے) شامل ہیں خیر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے فی الوقت یہ کہ پروفیسر ظہوری صاحب جب یہ ہی نہیں جانتے کہ کئی ہزاریوں تک ہندوستان الگ مملکت رہا اور سندھ الگ تو پھران کی تحقیق کو کس معیار پر پرکھا جائے؟

فقط ایک معیار ہے وہ ہند کے مسلم تاریخ نویسوں کی خود پرستی جو خودلذتی سے عبارت ہے۔ یعنی ہم حقیقت اور ہمارا کہا حرف آخر ہے۔

ایسا نہیں ہے تاریخ باقاعدہ موضوع ہے ہمیشہ سے۔ وہ کہتے ہیں مسلم لیگ نے مراعات یافتہ طبقوں کا مقابلہ کیا۔ کون سے مراعات یافتہ طبقات کا؟

1906ء میں مراعات یافتہ طبقے کے ہندووں نے نہیں مسلمانوں، راجوں، خان بہادروں، نوابین اور جاگیرداروں نے ہی آل انڈیا مسلم لیگ بنائی۔ یہی اس کی شناخت تھے۔ جناح صاحب کے اردگرد سارے مراعات یافتہ طبقات ہی تھے لیاقت علی خان، راجہ محمود آبادیہ (دو نام بطورمثال عرض کئے ہیں) کس درگاہ کے مجاور تھے۔

مسلم لیگ کا تو سرمایہ ہی یہ پیر، نواب، خان بہادر، جاگیردار وغیرہ تھے یا برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے وہ سابق مہرے جنہوں نے وردی اور بنا وردی برطانوی راج کے لئے خدمات سرانجام دیں۔ شوکت حیات کون تھے؟ ٹوانہ صاحب کون، ممتاز دولتانہ کہاں کریانہ کی دکان کرتے تھے؟

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ریت سے عمارتیں نہیں بنتیں۔ اسی طرح تاریخ ہے کوئی تاریخ نویس آخری نہیں ہوتا بعد میں اس موضوع پر کام کرنے والے پڑخچے اڑادیتے ہیں۔ ان متھوں کے جو گمراہی سے عبارت ہوں

مطالعہ پاکستان کے رزق سے پروان چڑھی نسل کا سفید جھوٹ یہی ہے کہ کانگریس کی ون نیشن تھیوری ہندو قومیت کی بنیاد پر تھی۔ حضور اگر ایک بڑی عمارت تعمیر کرتے ہوئے آپ مضبوط بنیادیں نہ بنائیں تو عمارت کا ملبہ زد میں آنے والوں کی جان لے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: