مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسان ملک کی شان || ارشاد رائے

ارشاد رائے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ،سیاست سمیت مختلف موضوعات پر انکی تحریریں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا ملک پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس ملک کی معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے جہاں ملک کو آجکل بہت سے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے جن میں معاشی بحران، مہنگائی، بےروزگاری، سیاسی عدم استحکام ، سیلاب ، تعلیمی بےتوجہی، وغیرہ وہاں سب سے اہم بحران غریب کسان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ہونا ہے، آج جہاں دیکھو ، بے حسی لاپرواہی اور رشوت خوری دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے، سرکاری ملازمین اپنی منمانی چلانے میں اپنی شان سمجھتے ہیں، اس تناظر میں پاکستان کے اندر رہنے والے کسانوں کا تو کوئی پُرسان حال ہی نہیں۔ جہاں دیکھو لوگ کسانوں کے خون پسینے کی کمائی بڑی بے دردی سے ڈھینگی مچھر کی طرح چوسنے میں لگے ہوۓ ہیں خاص طور پر بیچارہ چھوٹا کسان تو شدید ترین بے بسی کے عالم میں اپنے لُٹنے کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ کبھی کھاد والے سے لٹ رہا ہے تو کبھی بیج والا اس کا خون نچوڑ رہا ہے ، کبھی ڈیزل والا اس کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہا ہے تو کبھی پیسٹی سائیڈ والے اس کی کھال ادھیڑ رہے ہیں کبھی مل مالکان ان کی ہڈیوں سے گودا نکال رہے ہیں تو کبھی گورنمنٹ ان کا احتصال کر رہی ہے ۔چونکہ میرا اپنا تعلق بھی دیہات اور کسان کمیونٹی سے ہے اس لئے اس جبر اور ظلم کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے ، کسان ہمارے ملک اور ملکی معیشت کیلۓ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جب کبھی قحط سالی ہو یا سیلاب آئیں قدرتی آفات یا عذاب آئیں تب اسی کسان کے پیدا کیے گۓ اناج سے پورے ملک کے لوگوں کا پیٹ پلتا ہے ، کسان کو ہمارے معاشرے میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلاً اَن داتا، کاشتکار بھائی، بھوکے غریبوں کا مسیحا وغیرہ – مگر حکومت اور حکمرانوں کی نظروں میں کسانوں اور ان کے اناج کی حیثیت کسی گلی کوچے میں پڑی لاوارث اشیاء سے زیادہ نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کے وقت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کسانوں کو ایسے لبھانے آ جاتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد انہیں قارون کا خزانہ دیدیا جائے گا، یا پھر اُن کی زندگی کے سارے مصائب و مشکلات کو منٹوں سیکنڈوں اور چٹکیوں میں حل کر دیا جائے گا، کسانوں کی حوصلہ افزائی اور دل جیتنے کے لئے پارلیمنٹیرین کیا کیا جتن نہیں کرتے، کبھی کسانوں کے ساتھ بیلچہ یا کسّی اٹھاکر تصویریں بنواتے ہیں، تو  کبھی فصل کاٹ کر فوٹو سیشن کراواتے ہیں ، کبھی کسانوں کے ساتھ کھیتوں میں کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو کبھی اپنے سر پر کسانوں والی پگڑیاں باندھ کر سلفیاں بناتے ہیں ، کبھی ٹریکٹر پر بیٹھ کر اپنے آپ کو کسان ثابت کرتے ہیں تو کبھی ان کے لیے بہت بڑا مسیحا ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں، انتخابی جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں قرض معافی کھاد بیج مفت دینے بجلی کے ٹیرف کم کرنے اور دیگر لولی پوپ اور سبز باغ دکھا کر خوب ووٹ حاصل کرتے ہیں، اور جب جیت کر حکومت میں جاتے ہیں تو سب وعدے وعید بھول کر بے شرمی ، بے حسی اور  بزدلی کا لبادہ اوڑھ کر روپوش ہو جاتے ہیں، اور کسان بیچارے اپنے حقوق کی خاطر دربدر رل جاتے ہیں ،
یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ اناج پیدا کرنے کے لئے کسان خوب محنت کرتا ہے مئی ، جون کی دھوپ میں اپنے خون پسینے سے زمینوں کو سیراب کرتا ہے، دسمبر و جنوری کی خون جما دینے والی سرد اور ٹھٹھرتی راتوں میں اٹھ کر کھیتوں کو پانی لگاتا ہے ، کھاد پانی اور بیج کے لئے اپنی تمام تر جمع پونجی فطرت کی نظر  کر کے اقدرت اور موسم کے رحم وکرم سے امیدیں لگاۓ رکھتا ہے  مگر جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے تو اُنہیں ان کی لاگت اور محنت و مشقت کے مطابق اجرت نہیں ملتی ، حالانکہ TV پر دن رات پارلیمنٹرین وزیر و مشیر کسانوں کی ہمدردی میں آسمان و  زمین کے قلابے ملا دیتے ہیں ، جلسے جلوسوں اور الیکش میں ، انکو حقوق دلانے کیلۓ بلند بانگ دعوے اور باتیں کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب ملک کے غریب کسان اپنے جائز حقوق اور مطالبات کے لئے مجبور ہوکر سڑکوں پر آتے ہیں تو ان کے مطالبات سننے اور ان کا حل تلاش کرنے کی بجاۓ آن  پر بے رحمی سے تشدد کیا جاتا ہے ، آنسو گیس کے شیل پھنکے جاتے ہیں ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہے،
آج کل بھی کسان ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد میں اپنے جائز حقوق اور مطالبات کیلۓ سراپا احتجاج ہیں مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اور جماعت ان کی بات سنے یا نہ سنے کم ازکم پاکستان پیپلزپارٹی کو تو ان کے پاس جا کر ان کے مطالبات سن کر ان کی دادرسی کرنی چاہیے کیونکہ پیپلزپارٹی تو ہمیشہ مزدوروں ، کسانوں غریبوں کے حقوق کی دعویدار رہی ہے اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں کہ پیپلزپارٹی کے دور میں ہمیشہ کسان مزدور اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف ملا ہے اگر کالم کے توسط سے میری آواز اور بات بلاول بھٹو یا پارٹی کے دوسرے سرکردہ لیڈران تک پہنچ پا رہی ہے تو خدا راہ میرے ملک کے اَن داتاؤں کے پاس جاکر ان کے مطالبات سنیں اور جائز مطالبات مان کر ان کا آزالہ کریں ان کے حقوق اور جائز مطالبات کیلۓ ملک کے وزیراعظم سے بات کریں صوبوں کے وزراۓ اعلی سے گذارش کریں زیادہ سے زیادہ ان کے مطالبات کھاد بیج اور بجلی کے ٹیرف کی حد تک ہونگے خدانخواستہ وہ کوئی حکومت میں اپنا حصہ ڈالنے تو نہیں آۓ ، یہاں ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے اور مجھ سمیت پوری قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں کسان کا بڑا اہم رول ہے اگر میں کہوں کہ ستر فیصد ملک کی معیشت کسان اور زراعت کی مرہون منت ہے تو یہ غلط نہ ہوگا
اس لیے میں وفاق کے علاوہ صوبائی حکومتوں سے بھی ملتمس ہوں کہ کسانوں کے مطالبات سنیں ان پر غور کریں اور زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کریں اور جائز مطالبات پر عمل پیرا ہو کر فی الفور احتجاج اور دھرنا ختم کروائیں ۔۔ شکریہ

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: