اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہار گیا کراچی۔۔۔۔۔۔!|| عادل علی

مرتضیٰ وہاب کا سیاسی مستقبل تابناک ہے پر شہر قائد نے ایک بار پھر بہتری کی امید کھو دی۔ نقصان کراچی اور اس کے عوام کا ہوا جس کی مجھے یقین ہے کسی کو بھی پرواہ نہیں ہے۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی سے باہر دیگر شہروں میں رہنے والوں کے لیے کراچی ماسوائے دہشت کے کچھ بھی نہیں۔ لوگ ہم سے ایسے سوال کرتے ہیں جیسے کراچی میں دن رات سڑکوں پر اندھا دھند گولیاں چلتی ہیں اور لاشیں بوری میں بھرنے کے لیے مزدور ہر سگنل پر لائن لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
بہت عجیب لگتا ہے اپنے شہر کی صفائی بیاں کرتے ہوئے کہ نہیں حالات اب ایسے بھی نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے کبھی تھے بھی کہ راہ چلتے کو گولیوں سے بھون دیا جائے۔
یہ تمام کالک شہر کراچی پر راج کرنے والی سیاسی تنظیموں کی بدولت ہے جو اپنائیت کا راگ الاپتے اپنوں سے ہی اپنا قبرستان بھی بھرتے رہے تو دوسری طرف ایک مذہبی جماعت کراچی میں مذہب کی آڑ میں سیاست میں پنجے مظبوط کیے بیٹھی رہی۔
شہر ظلمت کو کبھی قومیت تو کبھی گینگ وار کی بھینٹ چڑھایا گیا کہ کسی بھی طرح معاملات معمول پر نہ رہ پائیں۔ ہم جب طفل مکتب تھے تو جانے کیسے نعمت اللہ خان نے ایم کیو ایم سے برتری حاصل کرکے شہر کے میئر کی کرسی جیت لی۔ شہر کی انتظامیہ بشمول بلدیہ عظمیٰ میں اب بھی جماعت اسلامی کا اچھا اثر رسوخ موجود ہے جبکہ شہر کی عوام عموماً مذہبی رجحان رکھتی ہے اس لیے ایم کیو ایم کے دور عروج میں اپنے جذبات کا اظہار برملہ تو نہ کر پاتی تھی مگر دعاوں میں یاد ضرور رکھا کرتی تھی.
ایم کیو ایم کے سنہری دور میں بھی جامعہ کراچی میں جماعت کی طاقت کا گواہ راقم خود ہے۔ جب جامعہ آزاد نہ ہوپائی ان سے تو کیا بلدیہ عظمیٰ کا ان سے پاک ہونا ممکن ہے؟
دوسری طرف بات کریں شہر کے بلا شرکت غیرے مالکان کی تو بچہ بچہ ساتھی بھائی کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ایک واقعے نے پوری قوم کی ملک سے وفاداری کو ہی مشکوک بنا ڈالا۔ شخصیت پرستی و اندھی تقلید کا جو عروج الطاف حسین کو نصیب ہوا اس کا عشر عشیر بھی عمران خان کو میسر نہیں آیا۔
ہم جب سڑکوں پہ سرگرم ہوئے تو جنرل مشرف کے زیر سایہ مصطفٰی کمال کا طوطی بولتا تھا جو نعمت الله خاں کے ادھورے منصوبوں کو مکمل کر کے ہیرو بنتا چلا گیا۔ کچھ وقت بعد شہر نے وسیم اختر جیسا نادر و نایاب میئر کراچی بھی چار سال کے لیے ثابت قدمی سے برداشت کیا۔ وسیم اختر کا دور چہ جائیکہ انتظامی طور پر بدترین دور ثابت ہوا مگر سیاسی مخالفت میں لوگ اس کے بھی قصیدے پڑھتے دکھائی دینگے خواہ دل میں گالیاں ہی کیوں نہ دیں۔
غرض کہ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامى جیسی صف اول کی خود غرض سیاسی جماعتیں سسٹم میں اب تک بہت گہرائی تک موجود ہیں۔ وہ خود تو کچھ بھی بہتر نہ کر سکے مگر جب بھی کسی نے شہر کو اپنانا چاہا تو صاحبان نے فوراً عدلیہ کے دروازے پہ دستک دی۔
ایک عرصے بعد ہم کراچی والے کراچی سے باہر یہ کہنے لائق ہوئے تھے کہ اب کراچی کے ہر ضلع میں کام ہوتا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس ایک غیر متنازعہ ایڈمنسٹریٹر کراچی موجود ہے جو نہ صرف بلا کا متحرک ہے بلکہ ایک انتہائی قابل اور پڑھا لکھا قانون دان بھی ہے۔ مرتضی وہاب کو ہم نے ہر دن ہر رات کسی نہ کسی سڑک کی مرمت کی اپڈیٹ خود شیئر کرتے پایا اور ساتھ ہی وہ موقعے پہ بھی ہر جگہ پایا جاتا تھا۔
حالیہ مون سون تاریخی بارشوں کا حامل تھا۔ بارشوں ميں پانی جمع ضرور ہوا مگر بارش رکنے کے بعد کہیں کوئی انڈر پاس کوئی چوراہا زیر آب نہ آیا۔ جب جہاں سڑک اکھڑی اس پہ فوری مرمتی کام شروع کر دیا گیا اور اس وقت بھی بیس سے زاید سڑکوں پہ ہر ضلعے میں کام جاری ہے۔
مرتضی وہاب کا قصور اتنا ہے کہ وہ بلدیہ عظمیٰ کے ٹیکس کلیکشن کو صاف و شفاف بنانا چاہتا تھا کہ پیسا جمع ہو تو نظر بھی آئے نہ کہ چوری چھپے عوام سے اینٹھ کر ہتھیا لیا جائے۔ خواہ مرتضی وہاب کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے مگر پیپلزپارٹی کا کراچی میں کوئی خاص حصہ نہیں ہے پھر بھی مرتضیٰ وہاب اپنا کام بنا کسی تفرقے کے بخوبی انجام دیتا رہا اور ساتھ ہی سیاسی مخالفین و عدلیہ سے بھی مقابلہ کرتا رہا۔
مرتضیٰ وہاب کراچی کا دیوانہ بیٹا ثابت ہوا۔ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ فرزندان شہر کو موقع ملے اور وہ واقعی کام بھی کریں۔ مرتضیٰ وہاب صوبائی حکومت میں صلاحکار ہے اسے کسی اور عہدے کی ضرورت نہ تھی مگر شہر کی محبت میں اس نے ان کالی بھیڑوں سے ٹکرانے کی ٹھانی۔ آج شاید مرتضیٰ وہاب کو یقین ہوگیا کہ اس بوسیدہ نظام میں گھس بیٹھے فرسودہ سوچ کے مالک شہر کی فلاح میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے انہیں دلچسپی ہے تو بس سیاسی کرسی سے اور وہ جب تک انہیں مل نہیں جاتی تب تک وہ نہ خود کچھ کرینگے نہ کسی اور کو کرنے دینگے جبکہ جب ان کے پاس موقع تھا تب بھی انہوں نے کچھ نہ کیا۔
یہ سچ ہے کہ افسر شاہی ہمارے ملک میں دیمک کی طرح ہے خواہ وہ بیوکریٹس ہوں ججز ہوں یا فوجی افسران۔ ان سب کی انا ملک و عوام کی فلاح و بہبود سے کہیں بڑھ کر ہے جبکہ عام عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
مرتضیٰ وہاب کا سیاسی مستقبل تابناک ہے پر شہر قائد نے ایک بار پھر بہتری کی امید کھو دی۔ نقصان کراچی اور اس کے عوام کا ہوا جس کی مجھے یقین ہے کسی کو بھی پرواہ نہیں ہے۔
افسوس اب جب ہم سے کراچی کا پوچھا جائیگا تو جواب دیتے وقت وہ اعتماد اب ساتھ نہ ہوگا جو کل تک تھا۔

یہ بھی پڑھیے

%d bloggers like this: