مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سستی سیاست سے سستی دینداری تک ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹرانس جینڈر قانون پر آفت اٹھائے دانشوروں پتھروں کی برسات کے عذاب کی نوید دیتے انصافیوں اور دیگر دینداروں کو چاہیے کے پہلے پوری معلومات حاصل کرلیں کہ یہ کوئی نیا قانونی مسودہ ہے یا قانون پہلے سے موجود ہے اور اب اس پر سیاست و دینداری چمکائی جارہی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ (ن) لیگ دور اقتدار کے چوتھے سال میں ایک فیض آباد دھرنا ہوا تھا اس دھرنے کی وجہ ایک قانون تھا اس قانون کی قائمہ کمیٹی سے منظوری کے عمل میں شیریں مزاری اور شفقت محمود نے پی ٹی آئی کی نمائندگی کی تھی۔ بل پر ان کے دستخط بھی تھے
لیکن جب ’’کہیں‘‘ فیصلہ ہوا کہ (ن) لیگ کو رگڑا لگانا ہے تو تحریک انصاف بل کے مخالف کے طور پر فیض آباد دھرنے کے نہ صرف پرجوش حامیوں میں شامل تھی بلکہ 2018ء کے انتخابی عمل میں عمران خان سے ایک عام انصافی تک (ن) لیگ کو ختم نبوتؐ کے مخالفین کے طور پر پیش کرتے رہے۔
افسوس کہ تب بہت کم لوگوں نے پی ٹی آئی کو متنبہ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ مذہبی جذبات بھڑکانے میں کوئی بھی جماعت کردار ادا کرے اس کی بلاچوں چرا کے مذمت کی جانی چاہیے۔
چند دن قبل (ن) کے میاں جاوید لطیف نے پریس کانفرنس میں غیرذمہ دارانہ گفتگو کی کسی بھی ہوش مند شخص نے اس گفتگو کو پسند نہیں کیا بلکہ مختلف الخیال لوگوں نے کھلی مذمت کی۔ خیر اب تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کی سرپرستی میں مریم اورنگزیب، جاوید لطیف، ایم ڈی پی ٹی وی اور چند دیگر افراد کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات درج کروائے جاچکے۔
اس ملک میں زبان درازی کی اجازت صرف ایک شخص کو ہے وہ خود کو خدا کا تربیت یافتہ کہے، قبر میں سوال والی بات کرے ، مخالفین کو مشرک قرار دیتا پھر اسے کسی نے کچھ کہنا ہے نہ قانون اس کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ سیاست کو مذہبی تڑکے لگانے کے کبھی اچھے نتائج نہیں نکلے۔ اب بھی جو لوگ اپنے لیڈروں کی خوشنودی یا ذاتی تسکین کے لئے مذہبی جذبات بھڑکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہ گھاٹے کا سودا کررہے ہیں۔
مثلاً فرانس والے معاملے پر عالمی تعلقات، قوانین اور دیگر امور پر بھاشن دینے والے دیندار انصافی اب فرانسیسی صدر سے شہباز شریف کی ملاقات پر نیا کٹا کھول بیٹھے ہیں۔ منظم انداز میں ایک مسلکی تنظیم کے لوگوں کو بھڑکانے کے لئے طعنے دیئے بلکہ مارے جارہے ہیں۔
خود کو اہل دیانتدار اور قابل سمجھنے والے بنی گالوی سرکار کو بھی ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر دوسروں کو چور ڈاکو لٹیرے ناسور وغیرہ کہتے رہنے کی ان کی سیاست نے ایک خاص قسم کی مادرپدر آزادی کو رواج دیا ہے۔ انہیں تو عوام سے معافی مانگنی چاہیے تھی کہ وہ ایجنسیوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہے۔
اگلے روز انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’میں اپنے پیروں پر اقتدار میں آیا کسی نرسری میں پالا پوسا نہیں گیا‘‘۔
یہ دعویٰ ہی رواں صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے۔ اب ذرا دونوں باتوں کو ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔ اولاً مجھے زرداری نوازشریف کی کرپشن کی معلومات ایجنسیوں نے فراہم کی ثانیاً میں اپنے پیروں پر اقتدار میں آیا کسی نرسری کی پیداوار نہیں۔
لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں صرف مظفر گڑھ سے 2018ء میں آزاد حیثیت سے جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے باسط بخاری سے دریافت کرلیجئے کہ انہوں نے جس ٹیلیفون کال پر (ن) لیگ کا ٹکٹ واپس کرکے آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اس ٹیلیفون کال میں ان کے لئے پیغام کیا تھا؟
تحریر نویس ان سطور میں قبل ازیں 2018ء کے انتخابی عمل میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعض لوگوں کو پی ٹی آئی میں شمولیت کے لئے جاری ’’حکم‘‘ بارے تفصیل سے عرض کرچکا۔
یاد دلانے کے لئے عرض کردوں کہ چودھری برادران کی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا سے ایک ملاقات ریکارڈ پر ہے۔ چودھری پرویزالٰہی نے اس ملاقات کے حوالے سے اعتراف کیا تھا کہ ہم نے کیانی سے کہا کہ پاشا کے ماتحت ہمارے لوگوں کو ٹیلیفون کرکے انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لئے کہہ رہے ہیں۔
یہ بھی بتایا کہ شجاع پاشا نے ہمیں مشورہ دیا کہ اپنی جماعت پی ٹی آئی میں ضم کردیں۔
ہمارے لوگوں کی یادداشت اچھی نہیں ہے بہت جلدی بھول جاتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد آئی ایس پی آر کے اس وقت کے سربراہ کے اس بیان کو یاد کیجئے انہوں نے ایک قرآنی آیت کے ترجمے کو اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا تھا اس بیان پر سوشل میڈیا میں بہت لے دے ہوئی تو موصوف نے اپنی ٹیوٹ ڈیلیٹ کردی۔
ایک منظم انداز میں سیاسی جماعتوں کے خلاف پروپیگنڈہ کروایا گیا یہ تاثر پختہ کروایا گیا کہ ملک صرف فوج کی وجہ سے بچا ہوا ہے ورنہ سیاستدانوں نے پتہ نہیں کیا کردینا تھا۔ ایجنسیوں کے اسی بیانیے پر تحریک انصاف نے اکتوبر 2011ء سے اپنی جدوجہد کے نئے دور کا آغاز کیا۔
اس ملک میں اگر کبھی حقیقی جمہوری حکومت بنے تو وہ تحقیقات کروائے کہ 2011ء سے 2018ء کے انتخابی عمل کے آغاز تک عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے میڈیا مینجمنٹ میں کس ریاستی محکمے کا بنیادی کردار رہا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو یہاں حقیقی جمہوریت آئے گی نہ کبھی تحقیقات ہوسکے گی۔
اس بدقسمتی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کی بیعت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کاموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
’’جدھر دیکھو حصول اقتدار کے بیمار بیٹھے ہیں۔
سینکڑوں مرگئے ہزاروں تیار بیٹھے ہیں‘‘
کے مصداق صورتحال ہے۔
معاف کیجئے گا بات ٹرانس جینڈر قانون سے شروع ہوئی اور ذرا دور نکل گئی۔ تحریک انصاف کے جو حامی آجکل عذاب الٰہی کی نوید دیتے پھرتے ہیں یہ 2018ء میں قانون سازی کے وقت کہاں تھے۔ تب یہ قانون انقلابی قدم کیوں تھا اور اب خدا سے بغاوت کیوں؟
سستی شہرت اور سیاسی مخالفین کے خلاف مذہبی جذبات بھڑکانے میں پی ٹی آئی کا بھی کوئی ثانی نہیں ۔
رہا سوال جعلی ڈومیسائل پر بلوچستان کے کوٹے سے وفاقی سروس کا افسر بننے والے اوریا مقبول جان کی قلابازیوں کا تو اس پر کیا تبصرہ کیا جائے انکے خلاف ان کے ایک ٹی وی پروگرام کے معاون میزبان کا ایک بیان ریکارڈ پر ہے۔ حد نہیں ہوگئی اس بیان کے ہوتے ہوئے موصوف مرد مجاہد بن کر حقائق کو مسخ کرتے پھرتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر قانون میں یقیناً یہ تبدیلی ہونی چاہیے کہ میڈیکل لازمی ہو تاکہ یہ حقیقت کھل سکے کہ یہ معاملہ پیدائشی ہے یا جنس کی تبدیلی کے عمل کا سہارا لیا گیا ہے۔ عرض کرنے کامطلب یہ ہے کہ ہر بات پر جذباتی چاند ماری اور زمینی حقائق کو مسخ کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑتی ہے
ہمارے بزعم خود دیندار کہلانے والوں کو؟
ایک خالص قانونی مسئلہ ہے ٹرانس جینڈر والااسے ہم جنس پرستی کا قانون بناکر پیش کرنے والے ’’کودنوں‘‘ کو کیا کہا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے اس ملک میں چونکہ مذہبی سودے آزادی سے فروخت ہوتے ہیں اس لئے منہ اٹھاکر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو خلاف اسلام ہے۔
تحریر یہاں تک لکھ چکا تو مجھے یاد آیا کہ پی پی پی کے 1988ء والے دور میں سماجی بہبود اور منصوبہ بندی کے قوانین پر شوروغل بہت ہوا تھا تب عرض کیا تھا کہ قانون تو ایوب دور سے موجود ہے ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ منگنی سے قبل لڑکے اور لڑکی کا میڈیکل لازمی قرار دیا جائے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ دونوں میں سے کسی کو کوئی ایسا مرض تو لاحق نہیں جو اگلی نسل کو منتقل ہوسکتا ہو۔
اسی طرح دوسری طبی معلومات۔ اور یہ کہ میڈیکل رپورٹ ایک سرٹیفکیٹ کے طور پر نکاح نامے کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر اس وقت روزنامہ ’’مساوات‘‘ میں دو تین کالم لکھے تھے
تب بزرگ عالم دین مولانا عبدالقادر آزاد کی قیادت میں مولوی صاحبان کے ایک وفد نے مساوات کے ایڈیٹر جناب حمید اختر سے ملاقات کی اور ان کالموں کو خلاف اسلام قراردیا۔ طالب علم نے مولانا حضرات سے ایک سوال کیا تھا
"آپ مجھے وہ آیت مقدس دیکھادیجئے جو زندگی کا نیا سفر شروع کرنے والے جوڑے کے میڈیکل کو خلاف فطرت قرار دیتی ہو؟ ”
اچھا وقت تھا ڈیڑھ دو گھنٹے کی نشست میں جناب آزاد اور ان کے ہمراہیوں نے تسلیم کیاکہ نکاح سے قبل میڈیکل کرانے کا مطالبہ خلاف شرع نہیں ہے۔ بس یہی معاملہ ٹرانس جینڈر کے قوانین کا ہے۔ حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے وہ بھی سستی سیاست سستی دینداری کے لئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: