اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راولپنڈی : عدالت نے سینئیر صحافی وقار ستی کی عبوری ضمانت کنفرم کردی

عدالت نے بار بار طلب کرنے کے باوجود مقدمہ کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا

راولپنڈی

عدالت نے سینئیر صحافی وقار ستی کی عبوری ضمانت کنفرم کردی

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی محمد افضل مجوکہ نے توہین مذہب کے مقدمہ میں نامزدسینئر صحافی کی عبوری ضمانت کنفرم کر دی ہے

عدالت نے بار بار طلب کرنے کے باوجود مقدمہ کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ

تفتیشی افسر کو عدالت میں ریکارڈ پیش کرنے میں کیا چیز مانع ہے عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس عدالتوں اور قانون کو مذاق نہ سمجھے ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں

چند کلو میٹر کے فاصلے پر موجود شخص سے رابطہ ممکن نہیں تو پھر عوام کو انصاف کیسے ملے گا

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ضمانت کنفرم کرنے کا حکم جاری کیا

گزشتہ روز سماعت کے موقع پر درخواست گزار کے وکیل قاضی حفیظ الرحمان ایڈووکیٹ اورپراسیکیوٹر نغمانہ بشیرکے علاوہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ، نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا، سیکریٹری راجہ خلیل احمد،سینئر

جوائنٹ سیکریٹری شکیلہ جلیل،سابق صدر طارق چوہدری،آر آئی یو جے کے صدرعابد عباسی، فنانس سیکریٹری کاشان اکمل،ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے

صدریوسف خان، سیکریٹری ملک زبیر اعوان سمیت جڑواں شہروں کی مختلف صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی

لیکن مقدمہ کامدعی،اس کا وکیل اور تفتیشی افسر عدالت میں پیش نہ ہوئے اس موقع پر عدالت نے تفتیشی افسر کی عدم موجودگی پر پراسیکیوٹر سے استفسار کیا

تو پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر ابھی ریکارڈ لے کر نہیں پہنچا جس پر عدالت نے ہدائیت کی کہ تفتیشی افسر ریکارڈ لے کر 1گھنٹے میں عدالت پہنچے عدالت نے

درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد ریکارڈ طلب کرتے ہوئے پراسیکیوشن کو ایک گھنٹے کا وقت دیا تاہم ایک گھنٹے کا وقت ختم ہونے پر بھی تفتیشی

افسر ریکارڈ لے کر حاضر نہ ہوا جس پر عدالت نے اپنے عملے سے دریافت کیا کہ کہ متعلقہ پولیس حکام اورتفتیشی کو آگاہ کیا تھا

تو عدالتی عملے نے بتایا کہ تفتیشی افسر کے ساتھ متعلقہ مجاز حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے

ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوشن عدالتوں اور قانون کو مذاق نہ بنائے عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کو عدالت میں ریکارڈ پیش کرنے میں کیا چیز مانع ہے جس پر پراسیکوٹر نے موقف اختیار کیا کہ

تفتیشی سے رابطہ نہیں ہو رہا جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگرٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر موجود شخص سے رابطہ ممکن نہیں تو پھر عوام کو انصاف کیسے ملے گا جس پر پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ

انہیں رابطے کے لئے مزید وقت دیا جائے جس پر عدالت نے مزید2گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے 11بجے ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا تاہم

دوبارہ مہلت ختم ہونے پر بھی تفتیشی ریکارڈ لے کر حاضر نہ ہوا جس پر عدالت نے وقار ستی کی ضمانت کنفرم کر دی قبل ازیں درخواست گزار کے

وکیل قاضی حفیظ الرحمان نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کو بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمہ میں نامزد کیا گیا ہے حالانکہ درخواست گزار نے ایسے کسی فعل کا ارتکاب نہیں کیا

اور درخواست گزار مکمل بے گناہ ہے درخواست گزار کے خلاف درج مقدمہ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 196کی خلاف ورزی ہے مقدمہ کے

اندراج سے قبل وفاقی یا صوبائی حکومت سے منظوری نہ لینا مقدمہ کا ادراک نہ ہونے کے مترادف ہے جبکہ

مقامی پولیس نے بھی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016کی خلاف ورزی کی ہے جس سے پولیس اور مقدمہ کے مدعی کی بدنیتی عیاں ہوتی ہے

درخواست گزار مکمل بے گناہ ہے اور مقدمہ میں عائد الزامات بے بنیاد ہیں اگر مقدمہ کے مدعی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں تو اسے یہ الزامات درخواست گزار کی

بجائے اپنے لیڈر سے منسوب کرنے چاہئیں درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ کا سابق صدر اور نیشنل پریس کلب کا سابق سیکریٹری فنانس رہ چکا ہے

جو ایسے فعل کا تصور بھی نہیں کر سکتا اس طرح پولیس اس بے بنیاد مقدمہ میں درخواست گزار کو گرفتار کرنا چاہتی ہے

درخواست گزار کو سیاسی انتقام کے طور پر مقدمہ میں نامزد کیا گیا ہے جبکہ پراسیکیوشن کے پاس درخواست گزار کے خلاف اس مقدمہ میں کوئی ٹھوس شواہد بھی

موجود نہ ہیں درخواست گزارایک قابل عزت اور قانون پسند شہری ہے جو آج تک کسی بھی کیس میں ملوث

یا نامزد نہیں رہادرکواست گزار کے وکیل نے مزید بتایاکہ درخواست گزار راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ کا سابق صدر اور نیشنل پریس کلب کا سابق سیکریٹری فنانس رہ چکا ہے

جوایک راسخ العقیدہ مسلمان، محب وطن پاکستانی اور ایک عامل صحافی ہونے کے ناطے ایسے فعل کا تصور بھی نہیں کر سکتا

اس طرح پولیس اس بے بنیاد مقدمہ میں درخواست گزار کو گرفتار کرنا چاہتی ہے درخواست گزار کو سیاسی انتقام کے طور پر مقدمہ میں نامزد کیا گیا ہے

جبکہ پراسیکیوشن کے پاس درخواست گزار کے خلاف اس مقدمہ میں کوئی ٹھوس شواہد بھی موجود نہ ہیں

درخواست گزارایک قابل عزت اور قانون پسند شہری ہے جو آج تک کسی بھی کیس میں ملوث یا نامزد نہیں رہا۔

%d bloggers like this: