نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتے کے پانچ دن صبح اُٹھتے ہی اخبارات پر سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد اس کالم کے لئے موضوع طے کرنا ممکن ہوتا ہے۔بدھ کی صبح اس عادت کے ہاتھوں گھر میں آئے اخبارات میں نمایاں ہوئیں سرخیاں دیکھیں تو سرپکڑکر بیٹھ گیا۔فرض کیا میں کوئی غیر ملکی ہوتا اور چند روز کے لئے پاکستان آکر اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں قیام پذیر ہوتا تو کمرے میں آئے اخبارات پر نگاہ ڈالنے کے بعد احساس ہی نہ ہوتا کہ یہ ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے۔محتاط ترین اندازے بھی مصر ہیں کہ غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے کم از کم چارکروڑ افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے گھر اور فصلیں تباہ ہوگئیں۔ دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے جانور پانی میں بہہ چکے ہیں۔متاثرین کی بے پناہ تعداد ابھی تک خیموں کے بغیر کھلے آسمان تلے خیرات کی صورت ملے رزق کی منتظر ہے۔حاملہ خواتین کی تعداد بھی پریشا ن کن ہے۔بارشو ں نے جن دیہاتوں کو تالاب بنایا ہے وہاں سے پانی کی نکاسی کا راستہ نہیں مل رہا۔ حالات یونہی رہے تو وسیع تر رقبوں میں گندم کی کاشت ناممکن ہوجائے گی جو غذائی بحران کو گھمبیر تر بناسکتی ہے۔
اخبارات کی نمایاں سرخیاں مگر عمران خان صاحب کے بیانات تک محدود ہوچکی ہیں۔وہ بضد ہیں کہ ملک میں فی الفور نئے انتخابات کا اعلان ہو۔نظر بظاہر وہ یہ انتخاب محض قومی اسمبلی کے لئے طلب کررہے ہیں۔ پنجاب ،خیبرپختونخواہ ،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی جماعت پہلے ہی سے برسراقتدار ہے۔اس کی بدولت محض قومی اسمبلی کے لئے ہوا انتخاب انہیں دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں لوٹنے کی نوید سنارہا ہے۔
فوری انتخاب کے لئے وہ اس لئے بھی مصر ہیں کہ ’’نئے مینڈیٹ‘‘ کے نتیجے میں منتخب ہوا وزیر اعظم ہی رواں برس کے نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرے۔آصف علی زرداری کو وہ ’’سندھ کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ پکارتے ہیں۔نواز شریف ان کی دانست میں قانون سے بھاگے ’’بھگوڑے‘‘ ہیں۔آئینی اعتبار سے اگرچہ اہم ترین ریاستی ادارے کی سربراہی کا فیصلہ وزیر اعظم کا اختیارتصور ہوتا ہے۔اس منصب پر ان دنوں شہباز شریف براجمان ہیں۔خان صاحب مگر اصرار کئے چلے جارہے ہیں کہ وہ ایسے شخص کو آرمی چیف تعینات کریں گے جو آصف علی زرداری اور نواز شریف کا ’’چہیتا‘‘ ہوگا۔’’میرٹ‘‘ یوں نظرانداز کردیا جائے گا۔مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر کی دفاعی امور تک رسائی نہیں۔یہ بات مگر سیاست اور حکومتی معاملات سے قطعی نابلد شخص بھی جانتا ہے کہ ہماری فوج کے چھ سے آٹھ سینئر ترین لیفٹیننٹ جرنیلوں ہی میں سے کسی ایک کو آرمی چیف تعینات کیا جاسکتا ہے۔پاک آرمی میں اس مقام تک پہنچنے کے لئے کئی چھلنیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ہمارے ہاں آج تک اس حوالے سے ہوئے فیصلوں پر کبھی سوال نہیں اٹھائے گئے۔ بہت اعتماد سے لہٰذا ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ ’’میرٹ‘‘ کے اعتبار سے مذکورہ مرتبے پر پہنچا ہر افسر مساوی صلاحیتوں کا حامل ہے۔عمران خان صاحب ’’میرٹ‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے درحقیقت پاک فوج میں ترقیوں کے نظام کو بھی متنازعہ بنارہے ہیں۔وہ اگر یہ پیغام نہیں دینا چاہ رہے تو خدارا اس لیفٹیننٹ جنرل کا نام بھی ہم عامیوں کو خود سے مختص جرأت کے ساتھ بتادیں جو ان کی دانست میں مبینہ طورپر کوئی ’’چکر‘‘ چلاکر اس مقام تک پہنچ گیا اور اب آصف علی زرداری اور نواز شریف کا منظور نظر بھی بن چکا ہے۔اس ضمن میں اپنائی خاموشی تمام امیدواروں کو مشکوک بنائے رکھے گی جس سے گریز لازمی ہے۔
عمران خان صاحب کی فوری انتخاب کی ضد پر غور کرتا ہوں تو میرے ذہن میں بے شمار چہرے ڈرا دینی والی فلم کی طرح ابھرنا شروع ہوجاتے ہیں جن کی بدحالی اور بے بسی روایتی اور سوشل میڈیا پر مستقل نمایاں ہورہی ہے۔ ایسے افراد کی تعداد اگر واقعتا 4کروڑ تک پہنچ چکی ہے تو عمران خان صاحب ان کی بدحالی کو سفاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے فوری انتخاب کی بدولت اقتدار میں فی الفور لوٹنے کے خواہاں محسوس ہوں گے۔ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سیلاب زدگان کی اکثریت سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔ ان دو صوبوں میں ’’احساس محرومی‘‘ ہمارے سیاسی بیانیے پر حاوی رہا ہے۔ان کی آفت کو بھلا کر دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کی خواہش وہاں کے سیلاب زدگان کو کیا سوچنے کو مجبور کررہی ہوگی۔ اس کی بابت سوچنے کی کوشش کرتا ہوں تو گھبرا کر توجہ کسی اور جانب موڑنے کی کوشش کرتاہوں۔
آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے ’’میرٹ‘‘ کی آصف علی زردا ری اور نواز شریف کے ہاتھوں ممکنہ خلاف ورزی کی عمران خان صاحب کی جانب سے مچائی دہائی یہ حقیقت بھی یاد دلاتی ہے کہ 2019ء کے آغاز میں سپریم کورٹ کے دھانسو شمار ہوتے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے پارلیمان کو حکم دیا تھا کہ وہ جنرل باجوہ صاحب کی معیادِ ملازمت میں توسیع کو واضح انداز میں لکھے قانون کے ذریعے ’’باقاعدہ‘‘ بنائے۔نواز شریف اس وقت تک ’’بھگوڑے‘‘ ہوچکے تھے۔ ان کے نام سے منسوب مسلم لیگ نے تاہم مطلوبہ قانون کی منظوری 12منٹ کی تاریخی عجلت میں ممکن بنائی۔آصف علی زرداری کی جماعت کا رویہ بھی دوستانہ تھا۔عمران خان صاحب نے اپنی حکومت کے تیار کردہ قانون کی عاجلانہ منظوری کے لئے مبینہ ’’چور اور لٹیروں‘‘ کے ووٹ حاصل کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی جھجک نہیں دکھائی۔ ’’توسیع‘‘ ایک حوالے سے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے ’’متفقہ طور‘‘ پر عجلت میں منظور ہوگئی تو وزیر اعظم عمران خان نے ’’سہولت کار‘‘ جماعتوں کے لئے شکر یے کہ دو بول بھی ادا نہیں کئے۔ ایسی بے اعتنائیوں ہی نے بالآخر ان کے سیاسی مخالفین کو مجبور کیا کہ وہ باہمی اختلافات نظرانداز کرتے ہوئے انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رواں برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹادیں۔ بہتر یہی تھا کہ تحریک عدم اعتماد منظور ہوجانے کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کردیا جاتا۔شہباز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت مگر ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئی۔ اس کی وجہ سے مہنگائی کا جو طوفان اُٹھا ہے وہ موجودہ حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکارہا ہے۔ عوام میں غیر مقبول ہوئی حکومت کو عمران خان صاحب عوامی جذبات کو مزید بھڑکاتے ہوئے یقینا گھر بھیج سکتے ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ ہوا بندوبست مگر ا س کے بعد بھی اپنی جگہ برقرار رہے گا اور4کروڑ افراد کی روزمرہّ زندگی بحال کرنے کا چیلنج بھی مزید شدت اختیا ر کرنا شروع ہوجائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر