اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جھوکاں تھیسن آباد ول ۔۔۔||گلزار احمد

گلزار احمد سرائیکی وسیب کے تاریخی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ براڈ کاسٹر ہیں، وہ ایک عرصے سے مقامی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تاریخ ، تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلطنت عثمانیہ کے وقت مسلمانوں میں یہ رواج تھا کہ روٹیاں پکانے کے تنور پر ایک ٹوکری لٹکتی رہتی ۔جب کوئی گاہک روٹی خریدنے آتا تو عام طور پر وہ دو روٹیاں خریدنے کے بدلے چار روٹیوں کی قیمت ادا کرتا۔ اس طرح دو روٹیاں وہ گھر لے جاتا اور دو روٹیاں تنور والا اس نیکیوں کی ٹوکری میں ڈال دیتا اس کے بعد جب کوئی غریب ضرورت مند تنور پر آتا تو اس ٹوکری سے تنور والا اس کو ضرورت کے مطابق روٹیاں اٹھا دیتا ۔اس طرح نہ دینے والے کا پتہ چلتا نہ لینے والے کی سیلفی بنتی اور عزت نفس مجروح ہوتی۔ یہ ایک سنہری روایت تھی جس کو مسلمانوں نے چھوڑ دیا البتہ بعض ہوٹلوں میں اب بھی روایت زندہ ہے ۔کھانا کھانے والے صاحب حیثیت لوگ ایک کی بجاۓ دو کھانے کے پیسے ادا کرتے ہیں اور ہوٹل والا بعد میں کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتا ہے۔ ترکی میں بعض بیکری والے جو اشیا بچ جاتی ہیں دکان کے باہر ایک فریج میں رکھ دیتے ہیں اور فری لکھ دیتے ہیں اس طرح ضرورت مند خود فریج سے اٹھا لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے دردمند لوگ بھوکوں کو کھانا کھلانے کا کام جاری رکھے ہوۓ ہیں۔ ایدھی مرحوم نے غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے لیے دسترخوان کا بندوبست کیا پھر اس میں بہت سے لوگ اور نجی تنظیمیں شروع ہو گئیں اور اللہ کے نام پر کھانے کا بندوبست کرنے لگے۔ PTI کی حکومت نے لنگر خانے کھولے ۔ ہمارے ۔نگہبان ۔ کے دوست اعجاز خٹک یتیم بچیوں کو مفت تعلیم رہائش کھانا فراہم کر رہے ہیں۔آغوش کا ادارہ یتیم بچوں کی پرورش میں پیش پیش ہے۔ دیکھا جاے تو اس دنیا میں ہر زوال کے بعد کمال ہے۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔ ہر ہار کے بعد جیت ہے۔ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانا ہے اور ہر غروب کے بعد نیا آفتاب طلوع ہوتا ہے بشرطیکہ کہ آدمی اپنی شام کو صبح میں تبدیل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس کا مالک کوئی انسان نہیں بلکہ خدا ہے جو تمام طاقتوں سے زیادہ طاقت رکھنے والا ہے۔جس وقت حالات آپ کو محرومی سے دوچار کرتے ہیں یا کوئی جھونکا آپ کے چراغ کو بجھا دیتا ہے عین اس وقت خدا یہ کہ رہا ہوتا ہے کہ میری دنیا میں ہر محروم ہونے والے کو دوبارہ دیا جاتا ہے اور ہر بجھے ہوۓ چراغ کو از سر نو روشن کیا جاتا ہے۔اس خدائی امکان کو اپنے حق میں واقعہ بنانے کی شرط صرف ایک ہے کہ آدمی اپنی متاع کو کھونے کے بعد اپنی ہمت کو نہ کھوۓ وہ ہر دفعہ گرنے کے بعد دوبارہ کھڑا ہو کے جدوجھد شروع کردے۔ شام کے بعد دوبارہ صبح کو ظہور میں لانے کے لیے کائیناتی طاقت درکار ہے پھر جس دنیا میں اتنے بڑے واقعہ کا ظہور ممکن ہو وہاں یہ چھوٹا واقعہ ظہور میں کیوں نہیں آے گا کہ پوری انسانیت کو اللہ مشکل سے نکال دے۔ لوگوں کا مزاج یہ بن چکا ہے کہ۔۔جو کچھ ہو چکا ۔۔اس کو جانتے ہیں۔۔جو کچھ ہو سکتا ہے ۔۔اس کو نہیں جانتے ۔۔یہی وجہ ہے کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر لوگ دوسری بات کو جانیں تو کبھی مایوس نہ ہوں کیونکہ اس دنیا میں مایوسی وقتی ہے اور امید دائمی ۔۔۔
خواجہ غلام فرید ؒ نے کہا ہے ؎
ہن تھی فریدا شاد ول…
مونجھیں کوں نہ کر یاد ول..
جھوکاں تھیسن آباد ول..
اے نیں نہ واہسی ہک منڑی…

%d bloggers like this: