اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سب کا لالہ|| ارشاد رائے

ارشاد رائے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں ،سیاست سمیت مختلف موضوعات پر انکی تحریریں مختلف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاروانِ آخرت برق رفتاری کے ساتھ دن بدن اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے اوریہ اپنے ساتھ ایسے ایسے لعل و گوہر سے زیادہ قیمتی شخصیات کو بہا لے جارہا ہے کہ جس کی نظیر و مثیل کا دوبارہ ملنا اس عہد زوال اور علمی قحط الرجال میں نا ممکن نظر آتا ہے، بحر فنا کی ہر ایک موج ہم سے کیسے کیسے غواصانِ فکر و دانش چھین کے لے جارہی ہے اسکا اسے اندازہ ہی نہیں ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ دستِ اجل کے مضراب سے نغمہ تارحیات مسلسل کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس سے ہر لمحہ اول وآخر فنا،باطن و ظاہر فنا کے نوحے پھوٹ رہے ہیں۔ کار جہاں کی بے ثباتی کا ثبوت تو ازل سے سب کے سامنے آشکار ہے لیکن جب علم و ادب کا درخشاں ستارہ،
فکر ودانش کا نیر تاباں، تحقیق و تدقیق کا ماہِ ضوفشاں، پروفیسر ڈاکٹر لالہ ملک امیر ( عرف لالہ میرو ) جیسی علمی و ادبی شخصیت داغ مفارقت دے جاتی ہے تو اس دنیا کے فانی ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا، اور ایسی مفارقت پر جس قدر نوحہ ، ماتم ، گریہ و افسوس کیا جاۓ کم ہے
آج حزن و یاس کی الگ کیفیت طاری ہے، انگلیاں سرد،قلم اداس اور دل افسردہ ہے وجود پر یاس و حسرت کی فضا چھائی ہوئی ہے،کہ اخلاص و محبت کا پیکر، دیانت وامانت کا خوگر، علم و ادب کا پاسبان، سینکڑوں دلوں کی دھڑکن، ہر دل عزیز شخصیت دوستوں جیسا استاد ہم میں نہیں رہا
میں 93-1992 میں گورنمنٹ گریجوایٹ کالج لیہ میں لالہ کا شاگرد رہا ہوں آپ ہمیں اردو کی کلاس پڑھایا کرتے تھے بعد میں پریٹیکلی لائف اور کچھ سیاست میں دلچسپی کی وجہ سے شاگردی دوستی کا روپ دھار گئی لالہ امیر ملک ہمہ وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے علم و ادب کے گوہر نایاب تو تھے ہی ساتھ ساتھ بزلہ سنج بزلہ گفتار اور ایک اچھے سیاسی استاد بھی تھے آپ زمانہ طالب علمی سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ورکر ورہنما رہے اور آخری دم تک نظریہ بھٹو سے وابسطہ رہے لالہ میرو میں ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اگر لالہ سے کچھ پوچھتے اگر لالہ کو معلوم ہوتا تو بڑے آسان طریقے سے سمجھا دیا کرتے اگر معلومات لمیٹڈ ہوتیں تو لالہ سیدھا سیدھا کہہ دیتے میرا اس بارے علم محدود ہے لہذا معذرت لالہ خواہ مخواہ فلسفہ جھاڑنے یا علمی وادبی شخصیت جیسے غرور و گھمنڈ جیسی عفریت سے پاک تھے
خاکسار سمیت لالہ مصطفی جونی ایڈووکیٹ و ممبر پنجاب بار کونسل ، مسعود احمد خان چانڈیہ ، ناصر حسین جعفری ، لالہ طارق ممتاز خان عرف جگنو خان ، قیوم خان ٹھیکیدار ، لالہ مانو کھوکھر ، میاں معظم علی ایڈووکیٹ ، اخلاق احمد ڈوگر ایڈووکیٹ ، سیاسی وسماجی شخصیت عبدالرحمن مانی ، آحمد عثمان خان بزدار ایڈووکیٹ ، آفتاب احمد، ملک طارق کھوکھر ، باسط فاروقی صاحب لالہ میرو کی کچن کیبنٹ تھے جو روزانہ پرانے بلوچ اڈے پر عشا کے بعد اکٹھے ہوجاتے ہیں اور چاۓ کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ ، علم وادب قانون اور دیگر ملکی حالات پر گفتگو کرتے رہتے ہیں مگر پچھلے ایک سال سے پروفیسر ڈاکٹر لالہ ملک امیر لبلبے کے عارضے میں مبتلا ہوۓ اور سرجری کے بعد ایک سال سرطان جیسی مہلک بیماری سے صبروتحمل اور بہادری کے ساتھ جنگ لڑتے رہے شدید علالت میں بھی وہ اپنے دوستوں کو نہ بھولے اور مہینے میں دو تین بار اپنے دوستوں سے ملنے آجایا کرتے لالہ میرو کی کچھ یادیں ایسی ہیں جو بھلاۓ نہیں بھلائی جاتیں وہ سردیوں میں اکثر مجھے فون کیا کرتے فون پر بھٹی صاحب کی بجاۓ بھٹی سانپ کہا کرتے اور کہتے چاۓ کیلۓ آپ کے پاس آرہا ہوں اور پھر چاۓ تو اک بہانہ تھی اصل تو لالہ جیسے عظیم علمی و ادبی شخصیت کی محبت تھی جو وہ ہم جیسے ناکارہ انسانوں سے بھی والہانہ کیا کرتے تھے
لالہ من کا موجی تھا سیر و سیاحت سے بہت دلچسپی تھی وہ اپنے ملک کے علاوہ کئی ملکوں کی سیاحت بھی کر چکے تھے
لالہ کی زندگی کے کئی پہلؤوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لالہ سے دور رہنے والے کچھ دوست لالہ کے ناقدین بھی تھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ دور رہنے والے لالہ کو کبھی سمجھ ہی نہیں پاۓ لالہ کے جو قریب ہو ۓ وہ پھر قریب تر ین ہوتے چلے گۓ بس مختصر یہ کہ لالہ میرو ایک خوددار ، فقیر درویش غریب پرور ، اور سب کا لالہ تھا
میں آپ جیسی عظیم شخصیت کی کیا تعزیت کروں میں علم و عرفان کے لاکھوں سوگواران کی تسلی کیلۓ کیا لکھوں بلکہ علم وادب کے ایک ایک پھول و غنچہ کو کیسے دلاسہ دوں اس الم ناک اور درد ناک لمحے پر لالہ کی جدائی پر تو میں خود مستحق تعزیت ہوں لالہ کے بغیر تو ہر شام ہم پر شام غریباں بن کر ٹوٹی ہے میں تو سقطے میں ہوں مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ لالہ اب ہم میں نہیں رہے
مگر موت جیسی یونیورسل سچائی کو اپنی آنکھو ں سے دیکھ چکا ہوں اور اسے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
لہذا بس آخر میں لم یزل سے دست دعا ہوں کہ رب ذوالجلال آپ کے جملہ حسنات کو قبول فرماۓ سیات کو حسنات میں متبدل فرماۓ آپ کو غریق رحمت کرے اور جنت آل فردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ آمین

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: