اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دل گرفتگی۔۔۔||فضیل اشرف قیصرانی

یہاں اُن رانگ نمبرز کو بھی یاد رکھئیے گا کہ جنکی فیسبکی دیواریں اور دانش تب آسمان تک چیخیں لگا رہی تھی جب ایک مظلوم شامی بچے کی سمندر پر لاش بر آمد ہوئ تھی اور اب انکی دیواروں پر موت کا سا سکوت ہے۔اس بچے سے ان رانگ نمبرز کی ہمدردی آسان تھی کہ وہاں معاملہ صرف دعاؤں کا تھا اور یہاں دواؤں کا ہے

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیلاب میں ڈوب گۓ بچوں کی وفات کا غم اور بہت غم۔پُرسہ مگر کیا دیجئیے کہ لواحقین کے پاس بچھانے کو چٹائ تک نہ رہی۔زمیں زادوں کے بچے اس دیس میں کہیں پانی کی کمیابی سے مر جاتے ہیں تو کہیں پانی کی زیادتی سے۔سوال مگر کس سے کیجئیے گا؟کسے ٹھرائیے کا جوابدہ کہ یہاں حاکم گونگا، صحافی جھوٹا، رکھوالا غاصب، ڈاکٹر قصاب اور ریاست، حکومت اور اسکے ماتحت تمام محکمے اور ادارے فقط زمیں زادوں کے خون پر پلنے والی جونکیں ہیں ۔
ان جونکوں سے ترس، رحم اور مدد کی اپیل جلاد سے رحم مانگنے کے برابر ہے۔نہ ان کے سینے میں دل ہے، نہ کھوپڑی میں دماغ، نہ ضمیر اور نہ ہی کسی قسم کا اخلاق۔یہ اپنا پیٹ بھرنے والی وہ مخلوق ہیں جو مخلوق کے نام پر قبیح ترین دھبا ہیں۔بارشوں کا زیادہ ہونا امرِ ربی مگر پلوں کا ٹوٹ جانا ریاستی نا اہلی، ندی نالوں کا بھپرنا خدائ کام مگر اسکا تدارک نہ کر پانا ریاستی مجرمانہ غفلت، رودکوہیوں کا بہہ نکلنا قدرتی معاملہ مگر ان میں معصوم بچوں کا ڈوب جانا ریاست، حکومت اور اسکے ہاتھوں ہوا وہ قتل ہے جس کے چھینٹے تا دیر انکے دامن پر رہنے والے ہیں۔
ایسے میں کسی کا یہ کہنا کہ یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے تو براۓ مہربانی اس رانگ نمبر کو تُرنت شٹپ کال دیجئیے گا کہ یہئ وہ چھوٹی جونکوں ہیں جنہیں بڑی جونکیں اپنے حصے کا جھوٹا خون فراہم کرتی چلی آئ ہیں۔ممبران اسمبلی، کونسلز اور امیدواران کو یاد رکھئیے گا کہ جن کے گھر اور ڈیرے اس وقت سیلاب زدگان کے لیے نہیں کھل رہے بوقت الیکشن انکے لیے اپنے ڈیروں اور گھروں کے در وا نہ کیجئیے گا۔انہیں وہ سبق سکھائیے گا کہ یہ کسی زمینی آفت زدہ علاقے میں آتے ہوے ہزار بار سوچیں کہ یہاں ایسا استقبال ہو گا کہ جان بچاتے نہ بچے گی۔۔۔۔۔
یہاں اُن رانگ نمبرز کو بھی یاد رکھئیے گا کہ جنکی فیسبکی دیواریں اور دانش تب آسمان تک چیخیں لگا رہی تھی جب ایک مظلوم شامی بچے کی سمندر پر لاش بر آمد ہوئ تھی اور اب انکی دیواروں پر موت کا سا سکوت ہے۔اس بچے سے ان رانگ نمبرز کی ہمدردی آسان تھی کہ وہاں معاملہ صرف دعاؤں کا تھا اور یہاں دواؤں کا ہے۔افکار کے الفاظ میں،
“مرشد میں جل رہا ہوں، ہوائیں نہ دیجئیے!
مرشد ازالہ کیجئیے، دعائیں نہ دیجئیے!
یہ زمیں زاد کسی سے ہمدردی نہیں مانگتے، یہ درد شریکی چاہتے ہیں۔ریاست سے کوئ سوال نہیں کہ بہرے سے کیا سوال۔بیداروں سے سوال کہ سرکار درد شریک بنئیے۔درد کا ساماں کیجئیے، درد کا درماں کیجئیے۔
خشک سالی، پانی کی کمیابی اور آلودگی بگتھ آۓ، کینسر دیکھ لیا اور دیکھ رہے ہیں۔زمیں زاد ہیں سیلاب بھی دیکھ لیں گے مگر دھرتی نہیں چھوڑیں گے کہ جہاں ہم دھرتی سے ہیں، وہیں ہماری دھرتی ہم سے ہے۔ہمیں صرف اپنے گھروں کے ڈوبنے کا غم نہیں ہے، ہمیں صرف اپنے بچوں کے بہہ جانے کا غم نہیں ہمیں دھرتی کا بھی اتنا ہی غم ہے کہ اس کے کیکر ڈوب رہے ہیں، ہمارا بیری کا درخت دریا برد ہو چلا ہے اور دھرتی پر کچھ دن اور کیچڑ رہے گا۔زمیں زاد ہیں دھرتی کا غم جانتے ہیں۔اس دھرتی پر پراۓ نہیں نہ ہی یہ دھرتی پرائ ہے ۔۔۔
ہم سوگ میں ہیں مگر ہمیں دلاسہ نہ دیجئیے ہماری مدد کیجئیے۔ہمیں زندگی کی بحالی میں مدد دیجئیے اور ہمارے بچوں کے قاتلوں سے ہمیں انصاف دلائیے۔
ہم زمیں زاد ہیں
ہم دھرتی زاد ہیں
ہم آپ کے اپنے ہیں
ہماری مدد کیجئیے

فضیل اشرف قیصرانی کی مزید تحریرں پڑھیں

%d bloggers like this: