مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تونسہ اور گردونواح میں سیلابی ریلے،حقائق کیاہیں؟۔۔۔||سرمد سلیمان

ان د دنوں میں موسلہ دھار بارشوں کی وجہ 18 اگست کی صبح 3 بجے سے ایک اور سیلابی ریلے کی وجہ کئے بند ٹوٹے ذور سینکڑوں ملحقہ آبادیاں زیر آب آ گئیں۔

سرمد سلیمان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تونسہ اور گردونواح میں سیلابی ریلے،حقائق کیاہیں؟

14 اگست : اس دن منگڑوٹھہ کے مشرق میں واقع "جام واہ” کے ٹوٹنے سے سوکڑ اور منگڑوٹھہ زیر آب آگئے۔ جام واہ کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ ایک چھوٹا بند نما اسٹرکچر ہے جو تاریخی طور پر مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا تھا۔ لیکن کچھ عرصے سے لوگ اے سی تونسہ کو بار بار درخواستیں دے رہے ہیں کہ یہ "واہ” ٹوٹنے کے قریب ہے اور اس کی جلد سے جلد مرمت کی جائے۔ لیکن اے سی صاحب نے کبھی اس بات پر توجہ نہ دی۔
مزید یہ کہ اس دن سنگھڑ میں 256000 کیوسک کا ریلہ گزرا جب کہ اس کی کیپسٹی 150000 کیوسک ہے۔

17-18 اگست:
ان دو دنوں میں موسلا دھار بارشوں کی وجہ 18 اگست کی صبح 3 بجے سے ایک اور سیلابی ریلے کی وجہ کئے بند ٹوٹےاور سینکڑوں ملحقہ آبادیاں زیر آب آ گئیں۔
ان کی تفصیل:
(1) ٹھٹھہ لغاری والا بند ٹوٹنے سے کلر والا، ریتڑہ، جت والا، ٹبی قیصرانی، بنبھان ،ڈونہ اور درجنوں چھوٹی آبادیاں سیلابی ریلے کی زد  میں آگئیں۔
(2) تونسہ چشمہ رائٹ بنک کینال کے مغرب میں موہانے والی نہر کا غربی بند ٹوٹنے کی وجہ سے پانی نہر میں داخل ہوتا ہوا بستی منگلہ والی، قاضی والا، ڈمرہ ، جڑھ، اوربھٹہ والا کو تباہ کرتا ہوا چک سونرہ بچہ ڈرین میں داخل ہوا۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹی آبادیاں تباہی کا شکار ہوئیں۔
(3) کنواں، جس کا دوسرا نام مٹھوان رود کوہی بھی ہے، کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے لتڑا، حسن آباد، نتکانی اور درجنوں بستیاں ملیا میٹ ہو گئیں۔
(4) کوڑا درہ کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے وہوا، جلو والی، لکھانی، جروار، مڑھا اور کئی بستاں تباہ و برباد ہو گئیں۔

انتظامیہ کا کردار:
اس ہنگامی صورت حال میں انتظامیہ کا کردار انتہائی مجرمانہ غفلت پر مبنی تھا۔ مثلاً موہانے والی، جو کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر سے صرف دس منٹ کے فاصلے پر ہے اور اسی مقام پر حفاظتی بند بھی ٹوٹا، پر انتظامیہ 5 گھنٹے کی تاخیر کے بعد پہنچی۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں پر انتظامیہ ان کی کوئی مدد نہیں کررہی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کررہے  ہیں۔ اس اثنا میں چند فلاحی تنظیموں کا کردار انتہائی قابل تحسین رہا۔اس کے برعکس انتظامیہ نا اہلی اور غفلت کی وجہ سے متاثرین کا انتظامیہ کی طرف شدید غم و غصہ دیکھنے کو آیا۔ ایک مقام پر سےتو ڈی سی صاحب مار کھانے کے ڈر سے بھاگ اٹھے۔ ہفتہ پہلے احمدانی کے سیلاب میں جب وزیراعلٰی پرویز الٰہی صاحب آئے اور لوگوں کی آہ و پکار سنے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے۔ اس پر لوگوں نے احتجاج کیا اور انتظامیہ نے لوگوں پر پرچے کاٹے۔

لوگوں کا کردار:
ہوتا تو یہ کہ وہ لوگ جو اس آفت سے محفوظ رہے وہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کو پناہ دیتے اور ان کی داد رسی کرتے۔ لیکن یہ لوگ متاثرین کے گھروں میں جاکر ان کا سامان چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس بابت 20-15 لوگ پکڑے بھی جا چکے ہیں۔

سیلاب کی اصلی وجہ:
رود کوہی کا سیلابی ریلہ مغرب  میں کوہ سلیمان سے بہتا ہوا آتاہے اور مشرق میں دریائےسندھ  میں جاگرتا ہے۔ اور اس کے اپنے تاریخی راستے موجود تھے۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ رود کوہی کا پانی اپنا راستہ بدلتا رہتا ہے۔ چشمہ رائٹ بینک نہر کے آجانے کے بعد نہر کے مشرقی طرف ایک لمبی دیوار بنادی  گئی۔ موجودہ سیلابی ریلے کی وجہ سے نہر تو محفوظ رہی لیکن وہ آبادیاں بھی زیر آب آگئیں جو تاریخی طور پر کبھی سیلاب کا شکار نہیں ہوئیں تھیں مثلاً کچھ دنوں پہلے بستی احمدانی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ڈرینز بھی بنائی گئیں۔ ان ڈرینز کا فالٹ یہ ہے کہ یہ ڈرینز سطح زمین سے اونچی ہیں اور ان کی کیپسٹی بھی کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کسی بڑا سیلابی پانی کو سنبھالنے کی کیپسٹی نہیں رکھتیں۔ اس سیلاب کی وجہ  تونسہ کے حلقہ 285-ppکے تحریک انصاف کے ایم-پی-اے خواجہ داؤد سلیمانی اپنے اور لوگوں کے گناہوں کو قرار دیتے ہیں۔

فضیل اشرف قیصرانی کی مزید تحریرں پڑھیں

%d bloggers like this: