مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جناب عمران خان کی حیرت اور تشویش ||حیدر جاوید سید

ہم نے خوشی سے دانہ چُگ لیا ۔ اب بھگت رہے ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم مطالبات سے اب تک پارلیمان کیوں لاعلم ہے؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب عمران خان نے ارشاد کیا
’’خیبر پختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر حیرت ہے۔ مجھے یہ سازش لگ رہی ہے‘‘۔
ادب کے ساتھ انہیں یہ یاد دلایا جانا ضروری ہے کہ 2014ء میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اس وقت کی حکومت سے مذاکرات کے لئے شوریٰ کی منظوری سے جو کمیٹی قائم کی تھی جناب عمران خان اس کے رکن تھے۔
یہ بھی کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے 9برسوں سے ان کی جماعت کی حکومت ہے اور وہ فخر کے ساتھ کہتے رہے اور ہیں کہ پختونخوا کے لوگوں نے آج تک تحریک انصاف کے سوا کسی پارٹی کو دوبارہ حکومت کا موقع نہیں دیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کو پشاور میں سیاسی دفتر بنانے کی اجازت دینے کی تجویز بھی انہوں نے ہی 2014ء میں دی تھی۔ انہیں کالعدم ٹی ٹی پی کی خیبر پختونخوا واپسی پر حیرت کیوں ہے۔
ان کی حکومت نے ہی افغان عبوری حکومت کے توسط سے کابل میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع کئے تھے۔ ان مذاکرات کے آغاز کے بعد سے کافی عرصہ تک ان کی حکومت مذاکرات سے انکار کرتی رہی تبھی ان سطور میں مذاکرات کاروں اور مذاکرات کی وجہ ہر دو پر تفصیل سے عرض کیا تھا۔
اس سے قبل جب ان کی حکومت افغانستان میں ’’شاگرد رجیم‘‘ کی واپسی کو فتح مبین کے طور پر پیش کررہی تھی اور ایک صاحب کابل کے ہوٹل میں چائے کا کپ ہاتھوں میں لئے خصوصی تصویر بنوارہے تھے تب بھی عرض کیا تھا، غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ سارے معاملات مستقبل میں گلے پڑجائیں گے۔
ابھی دو دن قبل خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کہہ رہے تھے ہم کالعدم ٹی ٹی پی سے رابطے میں ہیں۔ بیرسٹر سیف مذاکراتی کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ان سطور میں خیبر پختونخوا کے معروف صحافی عقیل یوسفزئی کی رپورٹ کے اقتباسات قارئین کے استفادے کے لئے پیش کرتے ہوئے یہ بھی عرض کیا تھا کہ جس صوبے کا سابق گورنر، حاضر وزیراعلیٰ اور کم و بیش سات وزراء ’’پرچی ملنے پر بھتہ کی رقم بھجوانے میں عافیت سمجھیں اس صوبے کے لوگوں کا کیا حشر ہوگا آنے والے دنوں میں؟‘‘
خان صاحب اور ان کے حامی اب یہ بیانیہ بنارہے ہیں کہ
’’فوج و عدلیہ ہمارے مخالف ہیں اب کالعدم ٹی ٹی پی کو لایا جارہا ہے تاکہ تحریک انصاف کو گھیرا جاسکے‘‘۔
یہ بیانیہ کس حد تک درست ہے اس پر ضرور بات ہونی چاہیے۔ خان صاحب مطالبہ کریں کہ ایک کمیشن بنایا جائے جو جنگجوئوں کی واپسی اور انکے اس دعوے کی تحقیقات کرے کہ "ہم ایک معاہدہ کے تحت واپس آئے ہیں ” ۔
کم از کم مجھے امید نہیں کہ وہ یہ مطالبہ کریں گے۔ وجہ صاف سیدھی ہے۔ ان کی جماعت کی مرکزی حکومت سے اپنے دور میں تین غلطیاں ہوئیں اولاً افغانستان میں ’’شاگرد رجیم‘‘ کی واپسی کے لئے پرجوش ہونا، ثانیاً افغان شاگردوں کے توسط سے ان کے پاکستانی ایڈیشن کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات، ثالثاً کالعدم ٹی ٹی پی کے بڑے بنیادی مطالبات میں سے ایک کو فوری طور پر تسلیم کرنا، خان صاحب قوم کو اصل بات بتائیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کی سفارش پر صدر مملکت نے سواتی طالبان کے رہنما مسلم خان وغیرہ کی سزائیں کیوں معاف کیں اور کیسے ان کی رہائی عمل میں آئی؟
ویسے تو اے این پی کے رہنما بشیر بلور کی شہادت کے وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے لوگ جو کچھ کہتے رہے وہ بھی شرمناک ہی تھا۔
جنگجوئوں کی واپسی پر یقیناً ہر شخص کو تشویش ہے اور یہ فطری بات ہے خیبر پختونخوا میں آگ و خون کا کھیل کم از کم تین دہائیوں سے جاری ہے اس کھیل کے کرداروں بارے سبھی کو سب کچھ معلوم ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اب عوام کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ افغان حکومت کے توسط سے ہمارے بچوں کے قاتلوں سے مذاکرات کا ڈول کیوں ڈالا گیا ضرورت کیا تھا اور مجبوری کیا؟ چلتے چلتے یہ بھی بتادیا جائے کہ کابل مذاکرات میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اہم لوگوں کی رہائی کے ساتھ کچھ رقم بھی طلب کی تھی اس میں سے کتنی دے دی گئی؟
اس پر دو آراء ہرگز نہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کی واپسی اتنی ہی خطرناک ہے جتنا پچھلے سال ستمبر میں بھتہ خوری کے کاروبار کا دوبارہ شروع ہونا۔ ستمبر سے اب تک گیارہ مہینوں میں صوبائی حکومت نے بھتہ خوری کی پرچیاں ملنے کی شکایات پر کیا کارروائی کی؟ کارروائی کیسے ہوتی جب صوبائی حکومت کے بڑوں نے تحفظ کے لئے ’’حق خدمت‘‘ ادا کرنے میں عافیت جانی ۔
گزشتہ ہفتہ دس دنوں کے دوران جب سے مٹہ سوات میں جنگجوئوں کی واپسی ہوئی ہے پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک تک دہشت گردی کی کتنی کارروائیاں ہوئیں؟
خان صاحب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ان کے دور میں ہی گزشتہ سال نومبر اور پھر اسی سال مارچ میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاک افغان بارڈر پر کم از کم تین مقامات پر لگی خاردار تاروں کو اپنے افغان سرپرستوں کی مدد سے اتارا۔
مارچ میں ایسی ہی ایک کارروائی کے موقع پر افغان حکومت کے ذمہ داروں نے کہا ’’یہ خاردار تاریں خلاف شریعت ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی جدوجہد ویسی ہی ہے جیسی ہماری امریکہ کے خلاف 20سالہ جدوجہد‘‘۔
کیا ان کے وزیر خارجہ اور وزارت خارجہ نے افغان حکومت سے کسی سطح پر کوئی احتجاج کیا؟ نہیں تو کیوں؟ انہوں نے کہا ’’مجھے کالعدم ٹی ٹی پی کی واپسی اور اس کی سرگرمیاں سازش لگ رہی ہیں‘‘
خیبر پختونخوا میں اے این پی اور دوسرے قوم پرست کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے جنگجوئوں کو محفوظ راستہ دلوایا۔ کچھ باتیں ٹی ٹی پی کے متاثرہ خاندان بھی کہہ رہے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے عمل میں شریک خیبر پختونخوا حکومت کے ذمہ داران نے کوئی رپورٹ انہیں دی۔ صوبائی سطح پر کیا اقدامات ہوئے۔
ہم صرف یہ کہہ کر پتلی گلی سے نہیں نکل سکتے کہ طویل پہاڑی سلسلے کی پاک افغان سرحد پر سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جو آمدورفت کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
یقیناً ایسا ہی ہے پھر ان کے دور میں ان راستوں کو بند کرنے کے لئے کیا اقدامات ہوئے۔
خان صاحب تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عالمی اخبارات نے لکھا ایمن الظواہری پر ڈرون حملے میں پاکستانی فضائی حدود استعمال ہوئی ‘‘۔ کیا وہ بھارت کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے اخبار میں سے یہ حوالہ دے سکتے ہیں؟
جبکہ عالمی ذرائع ابلاغ کہہ رہے ہیں ڈرون کرغزستان سے اڑا۔ پی ٹی آئی کہتی ہے ڈالروں کے لئے ملکی فضائی حدود بیچ دی گئی؟ انہیں الزام کی سنگینی کا احساس ہے یا بس من موجی ہے جو منہ میں آیا کہہ دیا؟
ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم سابق اور موجودہ حکومت دونوں سے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے غلطیاں ہوئیں جس اہم ترین غلطی پر مٹی ڈالی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ مذاکرات کی درخواست کالعدم ٹی ٹی پی نے نہیں کی تھی بلکہ ستمبر 2021ء میں پہلی بار افغان عبوری حکومت نے ہم سے کہا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں۔
ہم نے خوشی سے دانہ چُگ لیا ۔ اب بھگت رہے ہیں۔ یہاں ایک سوال ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کے اہم مطالبات سے اب تک پارلیمان کیوں لاعلم ہے؟
اصولی طور پر افغان عوری حکومت کی بات مانی کیا سنی ہی نہیں جانی چاہیے تھی لیکن 2014ء میں کالعدم ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کا رکن پاکستان کا وزیراعظم تھا بات کیسے نہ سنی جاتی۔
کیا وہ اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ اس وقت اپوزیشن اور دوسرے حلقے اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کے لئے کہتے رہےمگر ان کی حکومت اس آمادہ نہیں ہوئی جبکہ اکتوبر 2021ء میں خان صاحب نے ایک مشاورتی اجلاس بلایا اس میں سپیکر ا سد قیصر۔ وفاقی وزیر علی محمد خان۔ شہریار آفریدی، وزیراعلیٰ محمود خان وغیرہ نے زور دے کر کہا، افغان حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا عمل مکمل ہونے تک کسی بات کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ یہ بات کیوں کہی گئی؟
اس کی صاف سیدھی وجہ ان حضرات کا ماضی ہے جس کے ڈانڈے افغان خانہ جنگی کے مختلف ادوار سے ملتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر دفاع اور دوسرے وزراء کو رونے دھونے، الزامات کی دھول اڑانے وغیرہ وغیرہ سے وقت ملے تو کسی تاخیر کے بغیر خیبر پختونخوا میں جنگجوئوں کی واپسی اور دشہت گردی کی حالیہ لہر پر وفاقی کابینہ کے ساتھ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلاکر حکمت عملی وضع کی جائے بصورت دیگر یہ معاملہ بھی گلے پڑنے والا ہے۔ جیسے دوہزار نو اور دس میں پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: