مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نثری ادب میں سانحہ کربلا ||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں سانحہ کربلا پر بہت شاعری کی گئی ہے۔ سلام اور مرثیہ تو صرف امام حسین کے غم کے لیے مختص ہوکر رہ گیا ہے۔ اس بارے میں تاریخ اور تبصرے کی بے شمار کتابیں بھی لکھی گئی ہیں لیکن فکشن کے روپ میں اس پر بہت کم لوگوں نے قلم اٹھایا ہے۔ شاید اس کی وجہ تقدس اور احترام ہے۔ کہیں تعصب بھی ہوگا۔
دوسری زبانوں، اقوام اور مذاہب میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر تاریخی واقعے پر کہانیاں، ناول اور ڈرامے لکھے جاتے ہیں اور فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ سانحہ کربلا کے جلوسوں میں علم و ذوالجناح کی شبیہیں تو نظر آتی ہیں لیکن اردو بولنے والے خطوں میں اسے اسٹیج نہیں کیا جاتا۔ ایران اور آذربائیجان میں اس کی تماثیل دیکھی جاسکتی ہیں۔ کربلا میں بھی پاکستان ہندوستان سے زیادہ شبیہیں نظر آتی ہیں۔ میں نے وہاں جلوسوں میں کربلا کے سپاہی اور نیزے پر کٹے ہوئے سر کی شبیہیں بنی دیکھی ہیں بلکہ ان کی تصاویر بھی شئیر کی تھیں۔
اردو کے پہلے افسانہ نگار منشی پریم چند نے کربلا کے عنوان سے ایک ڈراما لکھا تھا جو کسی پہلے رسالے میں چھپا اور بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔ عصمت چغتائی نے اک قطرہ خوں کے عنوان سے ناول لکھا۔ مردان سے نکلنے والے ادبی جریدے قند نے 1961 میں ڈراما نمبر چھاپا تو اس میں سید جعفر طاہر کی تحریر عراق شامل تھی۔ وہ بھی کربلا کے کرداروں پر ہے۔
کئی سال پہلے راولپنڈی میں فسادات ہوئے تو میں نے چار کہانیاں لکھی تھیں جو ڈاکٹر آصف فرخی نے دنیازاد میں چھاپی تھیں۔ اس پر آصف بھائی سے سنیوں نے اور مجھ سے شیعوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: