مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیس میں نکلا ہو گا چاند || آفتاب احمد گورائیہ

‏جہاں عید سب کے لئے خوشیاں لے کر آتی ہے وہیں عید کے موقع پر وہ عزیز رشتہ دار اور بھی زیادہ یاد آتے ہیں جو اللہ کو پیارےہو چکے ہیں. ان کی آخری آرامگاہ پر حاضری اور ان کی مغفرت کے لئے کی جانے والی دعائیں بھی عید کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہیں.

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ یہ فقرہ بچپن سے لے کر سنتے آ رہے ہیں لیکن کبھی اس فقرے کی گہرائی پر غور نہیں کیا نہ ہی کبھی اس کی ضرورت محسوس کی. آج عید کے موقع پر بچوں کو عیدی تقسیم کرتے کرتے خیال آیا کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے. عیدی وصول کرتے کرتے کب خود عیدی دینے لگ گئے پتہ ہی نہیں چلا. بے فکری کی موج بھری زندگی کب تمام ہوئی اور ذمہ داریوں کے بندھن میں کب جکڑے گئے معلوم ہی نہیں ہو سکا، سہانا بچپن کب گزر گیا احساس ہی نہیں ہوا. اگر اس تمام مرحلے کومثبت انداز میں لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خوشیوں بھرا بچپن عطا فرمایا, والدین اور رشتہ داروں کی محبت عطا فرمائی. یہ مرحلہ گزرنے کے بعد اس قابل بنایا کہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے ادا کر سکیں.

‏عیدالفطر کے موقع پر عید کارڈ کی روایت تو ڈیجیٹل دور شروع ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی. مجھے یاد ہے ابو جان کو عیدالفطر کےموقع پر بڑی تعداد میں عید کارڈ موصول ہوتے تھے. یہ تمام عید کارڈ ڈرائنگ روم میں چاند رات سے لے کر عید کے اگلے دن تک سجے رہتے تھے. چاند رات کو خواتین جن میں امی جان, چچی جان اور گرلز چوڑیاں خریدنے بھی جایا کرتی تھیں اور ہم بوائز بھی ساتھ ہوتے تھے. لاہور کے دوسرے علاقوں کی طرح ہمارے علاقے سمن آباد میں چاند رات کو چوڑیوں اور مہندی کے سٹال لگتے تھے. شائد اب بھی لگتے ہوں گے لیکن ہمیں اس طرف کا رخ کئے سالوں گزر چکے ہیں. یقیننا لوگ آج بھی چاند رات کی اس روٹین کوفالو کرتے ہوں گے. عید والے دن ہم بچوں کی سب سے بڑی خوشی عیدی ملنے کی ہوتی تھی جو کچھ کزںز سنبھال سنبھال کر خرچ کرتے تھے اور کچھ ہم جیسے بھی ہوتے تھے جو شام ہونے تک ساری عیدی ختم کر چکے ہوتے تھے.

‏عیدالاضحی کا اہتمام بھی عید سے کچھ روز پہلے قربانی کے جانوروں کی خریداری سے شروع ہو جایا کرتا تھا. قربانی کے جانور خریدنا بھی ایک بڑا دلچسپ مرحلہ ہوا کرتا تھا جس میں ہم بچوں کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ جانوروں کی خریداری کے موقع پر ہمیں بھی ساتھ لے جایا جائے اور اکثر اوقات ہم اس کوشش میں کامیاب بھی رہتے تھے. ہمارے گھر میں ہمیشہ بکروں کی قربانی ہی کی جاتی ہے. عید سے دو تین روز پہلے بکرے خرید لئے جاتے تھے. چونکہ ہم لوگ ہمیشہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہے ہیں اس لئے چچا زاد، تایا زاد کزنز ماشاءاللہ کافی ہوتے تھے اور بکروں کی خاطر مدارت بھی خوب ہوتی تھی. کوئی چارہ کھلا رہا ہے تو کوئی پانی پلا رہا ہے، کوئی بکروں کو دو تین دن میں اور زیادہ موٹا کرنے کے لئے دانہ کھلا رہا ہے تو کوئی بکروں کی خوبصورتی میں اضافہ کے لئے جھانجھریں وغیرہ خرید کر لا رہا ہے. عید والے دن جہاں کچھ کزںز بکروں کی قربانی پر اداس ہوتے تھے تو وہیں ہم جیسے کچھ ایسے بھی ہوتے تھے جن سے گوشت کے مزے مزے کے پکوان پکنے کا انتظار بھی نہیں ہوتا تھا. گوشت کی تقسیم بھی ایک بڑا مرحلہ ہوتا تھا جس کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہوتا تھا. اب زیادہ تر کزںز بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں، سب کی شادیاں ہو چکیں. قربانی تو اب بھی ایسے ہی ہوتی ہے لیکن اب بکرے عید سے ایک رات پہلے آتے ہیں کیونکہ اب ان کی ٹہل سیوا کرنے والے سات سمندر پار بیٹھ کر ان کی صرف تصویر دیکھ سکتے ہیں ان کو چارہ نہیں کھلا سکتے.

‏جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے اسی طرح آج ہم کہتے ہیں کہ عید تو پاکستان کی ہوتی ہے پردیس میں کونسی عید ہوتی ہے. عید کی نماز پڑھ لی، کھانے کھا لئے اور جو عزیز رشتہ دار یہاں موجود ہیں ان سے مل لیا. پاکستان اور دوسرے ملکوں میں رہنےوالے عزیز واقارب سے فون پر بات کر لی اور عید ختم. اس کے بعد جتنے دن پاکستان میں عید کی چھٹیاں ہیں ٹیلیویژن پر پاکستان کی عید دیکھ دیکھ کر اداس ہوتے رہو.

‏جہاں عید سب کے لئے خوشیاں لے کر آتی ہے وہیں عید کے موقع پر وہ عزیز رشتہ دار اور بھی زیادہ یاد آتے ہیں جو اللہ کو پیارےہو چکے ہیں. ان کی آخری آرامگاہ پر حاضری اور ان کی مغفرت کے لئے کی جانے والی دعائیں بھی عید کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہیں.

‏عید کی خوشیوں کے دوران ہمیں اپنے آس پاس بھی نظر رکھنی چاہیے اور ان لوگوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرنا چاہیےجن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ عید کے موقع پر اپنے بچوں کی خوشیاں پوری کر سکیں. ان لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے جہاں تک ممکن ہو سکے ان لوگوں کے لئے بھی عید کا سامان کرنا چاہیے. یقین مانیں ایسا کرنے سے دل کو جو سکون، اطمینان اور خوشی ملے گی اس کا مقابلہ کسی اور خوشی سے نہیں کیا جا سکتا اور حقیقی عید بھی وہی ہو گی جس میں دوسروں کوبھی شریک کیا جائے.

‏عید مبارک

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: