مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ تلخ و شیریں معروضات||حیدر جاوید سید

ان چھاتہ برداروں کے سامنے جب بھی یہ اور اس طرح کے سوال آئے انہوں نے منہ بھر کے سوال کرنے والوں کو غدار قرار دے دیا۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک میں غداری اور کفر کے جتنے منہ مارے فتوے جاری ہوئے اس کا حساب لگائیں تو 22کروڑ کی آبادی میں محب وطن اور مسلمان تلاش کرکے لانا مشکل ہوجائے گا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلم لیگ نون کے دور میں جب سائبر کرائم کا قانون بنایا جارہا تھا تو چند دوستوں کے ہمراہ سڑکوں پر احتجاج کے علاوہ ان سطور میں بھی عرض کیا تھا کہ قانون بناتے وقت اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ قانون سازی اصلاح احوال کے لئے ہو نہ کہ سیاسی مخالفین کو رگیدنے کے لئے

مگر سوشل میڈیا پر ہوتی تنقید سے تنگ (ن) لیگ نے ایک نہ سنی۔ ستم یہ کہ اس قانون کی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے بھی حمایت کی۔

22کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں مشکل سے دو تین سے سو افراد نے سائبر کرائم کے قانون کے سیاسی استعمال پر خبردار کیا باقی سب خاموش رہے۔

تحریک انصاف کے دور میں اس قانون کا مخالفین کے خلاف بے رحمانہ استعمال ہوا۔ تب (ن) لیگی منہ بسور کر روتے دیکھائی دیئے لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

ہم کچھ ماضی کے اوراق الٹتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کی دفعہ 49کا بے رحمانہ استعمال ہوا۔ ایوبی آمریت میں یہ دفعہ پرچون فروشوں کے ہتھے چڑھی رہی۔

مارشل لائوں اور آمروں کے ادوار میں جو ہوا وہ الگ داستان ہے حیرانی تب ہوتی ہے جب جمہوریت پسند کہلوانے والے ایسے قانون بناتے ہیں جو بدقسمتی سے چاپلوسی کے زمرے میں آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی ایک قانون بنایا گیا۔ سیاست کے میدان میں دھکوں اور تجربوں کی ماری پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے قائمہ کمیٹی اور پھر قومی اسمبلی میں اس قانون کی مخالفت کی لیکن تحریک انصاف والوں نے ایک نہ سنی اور قانون پاس کروالیا۔

اس قانون کے تحت ’’فوج پر تنقید کو جرم قرار دیتے ہوئے 2سال قید اور 5لاکھ روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا۔کہا گیا اس قانون کے تحت مقدمات سول عدالتوں میں چلیں گے‘‘۔ یہ قانون آزادی اظہار پر خودکش حملہ تھا اور ہے۔

ہم نے تب بھی ان سطور میں عرض کیا تھا

’’ہر وہ شخص اور ادار و محکمہ سماجی و سیاسی بحثوں میں زیربحث آئے گا جو دستوری حدود سے تجاوز کرکے مملکت کے معاملات اور سیاست میں دخل دے گا۔ سیاست بند گلی میں نہیں ہوتی جمہوری میدان میں ہوتی ہے۔ اور ہر شخص سیاسی عمل میں حصہ لے سکتا ہے ماسوائے سرکاری ملازم کے‘‘۔

المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں سیاست میں سب سے زیادہ دلچسپی سرکاری ملازم ہی لیتے ہیں۔ کچھ درباری بننے کے لئے کچھ دربار سجانے کے لئے۔ (دونوں کی شناختیں لکھنے کی ضرورت نہیں)

پی ٹی آئی کے دوستوں کا اس وقت موقف تھا کہ فوج کے خلاف تنقید ریاست پر خودکش حملہ ہے۔ اس کے حامی اخبار نویس اینکرز اور یوٹیوبرز اس قانون کو آسمانی صحیفہ بناکر پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھائی دیئے۔

تب آئی ایس پی آر ان مجاہدین کی مدد کو آگے بڑھ کر آیا اور اس قانون کو عوام کے جذبات کی ترجمانی قرار دیا۔

یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ تب بھی ان کالموں میں کہا تھا آج قانون بنانے والے کل سرپکڑ کر روئیں گے۔ ایک طویل عرصہ سے قلم مزدوری کرتے ہوئے یہ بات بخوبی سمجھ لی ہے کہ ہر آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہاں جب کوئی فریق اپنی حد سے تجاوز کرے حلف کی خلاف ورزی کرے تو اسے جتانا سمجھانا ضروری ہوتا ہے کہ یہ آپ کا کام نہیں۔

ایک وقت تھا جب آتش جوان تھا۔ ہم لکھتے ہوئے یہ نہیں سوچتے تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔ تب جو جی چاہا لکھ دیا۔ اس لکھے کا بھگتان بھگتا۔ تجربے، مشاہدے، مطالعے اور اساتذہ کی رہنمائی نے یہ سمجھادیا کہ سخت سے سخت بات نرم سے نرم انداز میں بھی کی جاسکتی ہے۔

ہم آج بھی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی توجہ دستوری حدود کی طرف دلاتے رہتے ہیں۔ گاہے ان سطور میں منتخب لوگوں سے بھی یہ عرض کرتے رہتے ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندوں کا فرض عوام کے حق حاکمیت کی حفاظت، دستور کی بالادستی، عدل و انصاف کا قیام اور مساوات پر توجہ دینا ہے۔

اب اس کا کیا کریں کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی اکثریت کو عوام سے زیادہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ رہتا ہے وہ اس میں لابی بنانے اور ساجھے داری کو حکمرانی کا حسن سمجھتے ہیں۔

سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے عوام کے منتخب نمائندے اپنے اس ’’شونق‘‘ کی بدولت استعمال ہوتے ہیں اور پھر جب ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیئے جاتے ہیں تو انہیں یاد آتا ہے کہ وہ تو عوام کے منتخب نمائندے تھے۔

خلیل خان چڑیاں اڑ جانے کے بعد ہوا میں چھجا لہرائے یا کپڑا کیا فرق پڑتا ہے۔

سیاستدان سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

فقیر راحموں کہتے ہیں جب سے سیاست تجارت بنی ہے حق نمائندگی تاجروں کے پاس چلا گیا ہے۔

ایک قلم مزدور کی حیثیت سے ہمیشہ یہی کہا لکھا کہ قلم مزدور وہ ہوتا ہے جو اپنی تحقیق مطالعے اور ذرائع سے دستیاب معلومات کی روشنی میں خبر فائل کرے، تجزیہ کرے۔

یہاں بدقسمتی سے پچھلی کم از کم ساڑھے تین دہائیوں سے اسے ’’نادر‘‘ لوگ بھی آن موجود ہوئے جنہوں نے ریاستی محکموں کی فراہم کردہ معلومات کو ایمان کا پانچواں رکن سمجھ کر اس کی تبلیخ شروع کردی۔

ہمارے پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ اکثر یہ عرض کیا کہ ایک ذرائع سے ملی معلومات کا ازسرنو زیرزبر کے ساتھ جائزہ لینا ہی صحافت ہے۔

یہاں مگر یہ ہوا کہ عجب کرپشن کی غضب کہانی حرف بحرف فراہم کردہ دستاویزات کا ترجمہ ثابت ہوئی۔

پرنٹ میڈیا تک بات نبھ گئی الیکٹرانک میڈیا آیا تو ایک منصوبے کے تحت ایسے ایسے نابغے اینکر و تجزیہ نگار بناکر بٹھادیئے گئے جن میں سے اکثر کو اس ملک کی سیاسی تاریخ کا علم تھا نہ صحافت کے بنیادی اصولوں کا بس وہ پروگرام شروع کرتے ہی سیاستدانوں پر تبرے کا آغاز کرتے اور پروگرام کے اختتام تک یہ ثابت کرچکے ہوتے کہ سیاستدان سارے فساد کی جڑ ہیں۔

بھارت ہمارا دشمن ہے۔ فوج کی وجہ سے ہم چین کی نیند سوتے ہیں۔ زرداری کے گھوڑے سیبوں کا مربہ کھاتے ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔

ان چھاتہ برداروں میں عقل ہوتی تو یہ بات ضرور سمجھ پاتے کہ سیاستدان کا احتساب میڈیا، ایجنسیوں کی فراہم کردہ دستاویزات کی کہانیوں سے نہیں کرتا بلکہ ووٹر اپنے ووٹ سے کرتا ہے۔

فوج ہر ملک میں ہوتی ہے اور دستور کے مطابق فرائض سرانجام دیتی ہے۔

کرپشن کے ثبوت کسی کو بلاکر پڑھائے دیکھائے نہیں جاتے بلکہ عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں۔

بھارت ہمارا دشمن ہے۔ ہوگا ، پڑوسی سے اینٹ کھڑکا کرتے رہنے سے عوام پر دفاعی بجٹ کا بوجھ بڑھتا ہے۔

ان چھاتہ برداروں کے سامنے جب بھی یہ اور اس طرح کے سوال آئے انہوں نے منہ بھر کے سوال کرنے والوں کو غدار قرار دے دیا۔ گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک میں غداری اور کفر کے جتنے منہ مارے فتوے جاری ہوئے اس کا حساب لگائیں تو 22کروڑ کی آبادی میں محب وطن اور مسلمان تلاش کرکے لانا مشکل ہوجائے گا۔

لگ بھگ نصف صدی سے ان سطور میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ جمہوری نظام، سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا احتساب الیکشن کے دن ہوتا ہے۔

ملک میں قوانین موجود ہیں ان پر عمل نہیں ہوتا تو ذمہ داران تلاش کرنا ہوں گے۔ طالع آزما کوئی بھی ہو وہ نظام مملکت کا مجرم ہے۔

ہماری اب بھی یہی رائے کہ لُولی لنگڑی جمہوریت سے عوامی جمہوریت کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ ’’جرنیلی جمہوریت‘‘ کی بند گلی میں دس بارہ گیارہ برس دھکے کھانا پڑتے ہیں۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دستور قانون اور پارلیمان یہ افضل ترین ہیں باقی سب اس تیکونی امبریلا کے نیچے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: