مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گنجِ شہیداں سے گنجِ شہیداں تک||رانا محبوب اختر

گڑھی کے گنجِ شہیداں سے رخصت ہوتے وقت اندرونی دروازے کے باہر پھول بیچنے والے منظور لغاری کو گلے لگایا۔اس آدمی سے بوئے دوست آتی ہے ۔ اندر کاک کا کاپڑی ، مٹی کے بت پر سرخ مٹی ، سرخ چادر اور سرخ گلاب ڈارے سویا ہے ۔ لال اینٹوں کی مقامی تہذیب سرخ رنگ میں نمایاں ہے

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جھوک کے گنجِ شہیداں سے گڑھی خدا بخش کے گنج شہیداں تک تین صدیوں اور 422 کلو میٹر کا فاصلہ ہے ۔ جھوک کے گنجِ شہیداں میں شاہ عنایت اور ان کے 24 ہزار فقیر دفن ہیں اور گڑھی خدا بخش میں جونا گڑھ کے وزیراعظم ، شاہنواز بھٹو ،پاکستان کے دو وزرائے اعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو کے دو بیٹے، میر مرتضٰی بھٹو، شاہنواز بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے علاوہ بھٹو خاندان کے افراد اور درجنوں گم نام جیالوں کی قبریں ہیں۔شہیدانِ وفا کے مزار ہیں۔ بھٹوز کی کہانی مقامی آدمی پر نو آبادیاتی ظلم کی کہانی ہے۔ جو بوئے سو کھائے اور روٹی کپڑا اور مکان کا قصہ جھوک کے شاہ عنایت اور ذولفقار علی بھٹو سے بھی قدیم ہے۔ موئن جودڑو کا مساواتی مارکسی یوٹوپیا سندھ کا اولیں تمدن ہے۔ سندھ وادی کی رمز مساواتی اور تجارتی ہے اور اکیسویں صدی کی جاگیرداری و ہاری کی جدلیات سے مختلف ہے ۔ گڑھی خدا بخش میں مدفون خوابوں پر فاتحہ پڑھنے کے لئے ہاتھ اٹھائیں ، سر جھکائیں اور آنکھیں بند کریں تو باطن کی آنکھ راجہ داہر ، رانی لاڈی ، دودو سومرو، نواب دولہا خاں لاشاری ، مخدوم بلاول ، صوفی شاہ عنایت شہید ، صبغت اللہ راشدی، روپلو کولہی ، ہیمو کالانی ، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو دیکھتی ہے ۔داہر سے دودو تک تلواروں کے لگے زخموں سے رستا خون ہے۔ پگارو سے روپلو اور بھٹو تک اونچے سر پھانسی کے پھندوں میں گڑے ہیں۔ زہر کی نیلاہٹ شیو سے شاہنواز تک آئی ہے ۔ گولیوں کی آواز مرتضٰی سے بے نظیر تک گنبدوںکی گونج ہے ۔ مقامیت او مزاحمت کا قصہ خوں رنگ ہے ۔گلاب کی پتیاں اور چادریں بھی خوں رنگ ہیں۔خاک پر لالہ کاری ہوئی ہے :
گل فشانی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
ڈاکٹر شہناز شورو، ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ڈاکٹر ممتاز کلیانی قبروں پہ پھول اور آنسو نچھاور کر رہے ہیں اور ہم مرقدوں پہ پھول رکھ کر ایک طرف دم بخود بیٹھے ایک تہذیب ، مقامی آدمی، ایک ملک ، ایک خاندان اور نیم جاں سندھو ندی کا سوچتے ہیں ۔ بھٹوز کو جوانی میں مرنے کی عادت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پہ جھولے تو 51 سال کے تھے۔فرانس میں وفات کے وقت ان کے بیٹے شاہنواز بھٹو کی عمر 27سال تھی۔ کراچی میں مرنے والے مرتضٰی بھٹو 42 سال کے تھے اور راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کا خون ہوا تو وہ 54 سال کی تھیں. بھٹوز کی جواں مرگ اموات سے مقامیت کا خواب بکھرا ہے ۔ زخم رستے ہیں ۔رفو گر نہیں ملتے :
کپڑا پھٹے تے لگے تروپا دل پھٹے کس سینا
1999 میں ذوالفقار علی بھٹو کی بیسویں برسی کے موقع پر بے نظیر بھٹو نے ” The Impact of Political Dynasties in South Asia” کے عنوان سے ایک تقریب کرائی ۔جس میں سری لنکا کے بندرا نائیکے خاندان کے انورا بندرانائیکے خاص مہمان تھے۔ انورا کے والد اور والدہ دونوں وزیراعظم رہے۔ یوں وہ دو وزیراعظموں کے بیٹے تھے۔ ان کا تعارف کراتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے کہا "کہ جنوبی ایشیا میں نہرو، بھٹو اور بندرانائیکے خاندان کا سیاست میں بڑا کردار ہے کیونکہ ان میں لوگوں کو اپنی امیدیں اور امنگیں مجسم نظر آتی ہیں۔ جنوبی ایشیاء کی سیاست کے لباس پر سرخ دھبے ہیں ۔ بندرانائیکوں، گاندھیوں اور بھٹوز کو اس لئے قتل کیا جاتا ہے کہ ان کو شکست دینا ممکن نہیں ہوتا "۔ یہ تقریر کرتے ہوئے ان کو معلوم نہ تھا کہ جنوبی ایشیاء کے سیاسی لباس پر ان کے خون کے دھبوں کا اضافہ ہونے والا ہے ۔سیاسی خاندانوں اور جمہوریت میں کیا تعلق ہے؟ یہ سوال academia اور متوسط طبقے کا پسندیدہ سوال رہا ہے۔ dynasty یا خاندان کا تصور بادشاہی سے وابستہ ہے جب کہ جمہوریت عوام کی بادشاہی ہے۔ یہ تناقص دانشور اور متوسط طبقے کا آزار ہے۔ جنوبی ایشیاء میں بھٹوز، گاندھی ، بندرا نائیکے خاندان کے ساتھ بہت سے دوسرے خاندان سیاست میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن اور ضیاء الرحمن اور پاکستان میں شریف خاندان ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناح کی بہن نے ایوب خان کے خلاف قسمت آزمائی کی اور ناکام ہوئیں مگر ایوب خاندان اب تک سیاست میں ہے۔ پختون خوا کے خان عبدالغفار خاں اور مولانا مفتی محمود کے خانوادے کئی نسلوں سے سیاست میں ہیں۔ ملتان کے گیلانی اور قریشی خاندان صدیوں سے سیاست میں ہیں۔ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی کے علاوہ بھی بلوچ سردار سیاست کے میدان کے کھلاڑی ہیں۔ سری لنکا میں بندرانائیکوں کے بعد سری لنکا کا راجہ پاسکا خاندان سیاست کے بھنور میں ہے۔ امریکہ میں کینیڈی خاندان جمہوری تاریخ کا حصہ ہے تو بش خاندان کے باپ اور بیٹا صدر بنے ۔ جمہوری سیاست میں خاندانوں کو تاریخی شناخت کا edge حاصل ہوتا ہے۔ خاندانی تسلسل ، طاقت کے اسرار سے جڑی کشش ، سماجی اثرورسوخ، سیاسی تعلقات، عوامی خدمات اور ذاتی قربانیوں سے ایسے خاندانوں کے افراد کو فائدہ ملتا ہے تو غلطیوں ، ناکامیوں اور خامیوں کا حساب دینا ہوتا ہے ۔ خاندانی سیاست کا پیراڈائم عوامی یادداشت میں بیلنس شیٹ کی صورت موجود رہتا ہے ۔ کچھ رہنما ابطال پرستی کی کہانیوں کے کردار بن کر سرکاری اور مقامی تاریخی متون میں دوہری زندگیاں گزارتے ہیں اور کچھ اس کھیل میں جان کی بازی لگاتے ہیں اور مقتل کو دھج سے سجانے والوں کے خاندانوں کا سیاسی مرتبہ بلند رہتا ہے ۔ مغرب میں مقتل سجانے کی روایت سقراط نے آگے بڑھائی اور اب ایک aberration ہے مگر مشرق میں یہ روایت آج بھی نو سامراجیت کے تیرہ بخت پیراڈائم کا حصہ ہے۔ مقامی ابطال کی موت کے پیچھے استعماری حیلے خاندانی سیاست کو نئی زندگی دیتی ہیں ۔ آخری تجزیے میں خاندانی سیاست ایک mixed bag ہے اور جنوبی ایشیاء کی سیاسی روایت میں خاندانی سیاست کا بول بالا ابطال پرستی اور قربانی کے ملاپ کا پیراڈائم ہے!
روایت ہے کہ بھٹو خاندان کا ایک شجرہ ذوالفقار علی بھٹو نے تیار کرایا تھا جس کے مطابق وہ راجپوت ہیں ۔ اس شجرے کے مطابق خاندان کی معلوم عمر کوئی بارہ سو سال ہے۔ سٹنلے والپرٹ کہتے ہیں کہ انھوں نے 70 کلفٹن میں یہ شجرہ دیکھا تھا ۔ بھٹو، بھٹہ اور بھٹی میں لسانی تکرار کے رشتے کے علاوہ راجپوت نسلی رشتہ ہے۔ جیمز ٹاڈ نے نویں صدی عیسوی کے جیسلمیر، Tanot میں ایک بھٹی شہزادے کا ذکر کیا ہے جو بھٹی خاندان کا مقامی حکمران ہے ۔ ریاست بہاولپور کے 1904 کے گزٹ میں بھٹہ واہن کو بھٹوز کا گاؤں لکھا گیا ہے۔ بھٹہ واہن بھٹوز کی بستی اورسسی کی جنم بھومی ہے جہاں سسی کی ماڑی آج بھی موجود ہے۔ بھٹہ واہن جہاں کاک ندی کے کنارے بستے کاپڑی اور سسیاں ندی کی خوں رنگ مٹی جسموں پر مل کر جوگ لیتے اور جوگی بنتے ہیں ۔بھنبھور کی سسی شاہ لطیف کی سورمی ہے ۔ وہ بھنبھور کے راجہ کی بیٹی ہے۔تو پھر یہ بھٹہ واہن کی سسی کون ہے ؟ اس سوال کا جواب تاریخ نہیں، فوک روایت دیتی ہے کہ جوگی، جوگنیں اور سسیاں سندھ وادی کی ہر بستی سے من کی مونجھ ، دل کی تمنا ، زندگی کا اسرار اور عشق کی آگ لے کر گھروں سے نکلتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آتے ۔ سچل سرمست کی ایک سرائیکی کافی میں ان جوگیوں اور جوگنوں کا روگ نظم ہے :
پئی ہاں پنارے تیڈے، لگی ہاں لارے تیڈے
جوگی نال جاونڑاں تے ول نہیں آونڑاں
( ترجمہ : تمھارا سہارا ہے ، تمھارے جھوٹے وعدے پر اعتبار کیا ہے!
جوگی کے ساتھ جانا ہے اور واپس نہیں آنا ہے)
سندھی زبان میں جوگی کو کاپڑی کہتے ہیں ۔ محبت کے مارے جوگی ہجر و فراق کے راگی بیراگی ہیں۔ viragi کا ایک مطلب ہیرو ہوتا ہے۔ ویراگنیں شاہ لطیف کی سورمیاں ہیں۔ خانہ بہ دوش ، ہاتھوں میں ناقوس اور کشکول لئے ، بال بکھرائے، جسم پر راکھ ملے اور کانوں میں مندرے ڈالے ، جوگی ، ذات کی نفی کرکے ذات کو تلاش کرتے ہیں۔ تناقصات سے مرتے ہیں ۔جوگیوں کے ساتھ زندگی کے کئی سال گزارنے والے شاہ لطیف بھٹائی، جوگیوں کا حال بتاتے ہیں:
کھول دیتے ہیں سر کے بالوں کو
اور تن پر بھبھوت ملتے ہیں
دور آبادیوں سے جنگل میں
جانے کیا ڈھونڈنے نکلتے ہیں
جوگیوں کے وہ پر محن ناقوس
غمِ ہستی کا راز اگلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راکھ ملتے ہیں جسم پر جوگی
اور شب و روز دکھ اٹھاتے ہیں
چند کشکول، گدڑیاں، ناقوس
یہی سامان لے کے آتے ہیں
کس قدر حق شناس ہیں یہ لوگ
جوگ کے راز کو چھپاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(رسالہ:شاہ عبدالطیف بھٹائی ،ترجمہ، شیخ ایاز )
بیراگی رانجھے نے ہیر کے ہجر میں جوگ لیا ۔گورکھ پنتھی، بالناتھ جوگی کے ٹلہ جوگیاں پر جا کر کان چھدوائے اور کانوں میں مندرے ڈالے۔کانوں کے مندرے روحانی بالیدگی کی علامت ہیں۔ جوگی دنیا کو تیاگنے کی رسم ادا کرتے ہیں۔ کان چھدوا کر فقیر بنتے ہیں۔ نگر نگر گھومتے ہیں ۔عورتیں کان چھدوا کر ان میں پھول اور بندے پہنتی ہیں تو باطن خوشبو اور آواز بن کر ظاہر ہوتا ہے ۔ کان ، کُن کی شہادت ہے ۔حقیقت ِمطلقہ، کلام ہے ۔ ہندو رشی کان کی شکل کو اوم کا نقشہ کہتے ہیں ۔ جوگ میں کان چھدوانا اوم پر نقطہ لگانا ہے۔ لفظ، آواز ، کان اور کلام عارفوں اور جوگیوں کا علاقہ ہیں۔ کان کی سلطنت میں پھول، مندرے ، آواز اور کلام حلقہ بگوش ہیں ۔ آدمی کا دنیا سے آواز کا رشتہ ہے۔ کان چھدوانا پانچ ہزار سال پرانی روایت ہے۔ قدیم ملاح بالے پہنتے تھے کہ ڈوب جانے کے بعد شناخت ہو سکیں اور کفن دفن کے اخراجات پورے کرنے کا کچھ بندوبست ہو۔ کرنا ویدھا میں کرنا کے معنی کان اور ویدھا کے معنی چھیدنا ہے۔ سرائیکی زبان میں وید ، کان کے چھید کو بھی کہتے ہیں ۔مقدس ویدک کلام کانوں کے لئے ہے ۔ناپاک شودر اگر مقدس وید سن لیتے تو برہمن ان کے کانوں میں سیسہ پلٹ دیتے تھے۔ انھی افتادگانِ خاک کو ذوالفقار علی بھٹو برہمنوں کے برابر قرار دیتے تھے۔اس لئے ان کا قتل ضروری تھا۔
جوگی، سادھو یا صوفی جسے زندگی کا اسرار سمجھ میں آجائے گونگا ہو جاتا ہے، جنگلوں کو جاتا ہے ، ویرانوں میں پھرتا ہے اور جو بولتا ہے، قتل ہوتا ہے۔ منصور حلاج ، اناالحق جیسے راز کو فاش کرتے ہیں ۔ آدمی، حق ہے، منصور نے کہا ۔ عام آدمی کے سچ سے بادشاہ، حاکم ، ملا ، قاضی ، پنڈت اور پادری باطل ٹھہرتے ہیں ۔ اس لئے مہابیانیوں کے سامنے انفرادی اور مقامی سچ کفر ہے، قابل _ تعزیر ہے ۔ذات اور کائنات کے سچ چھپائے جوگی جنگلوں میں آزادی کا تجربہ کرتے ہیں کہ بستیوں اور شہروں میں راز فاش کریں تو مارے جاتے ہیں ۔ کاک کے کاپڑی ، ذوالفقار علی بھٹو کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ایک البیلا جوگی ہے جس کے ناقوس کی آواز پر مجمع _ عام ان کے پیچھے چلتے چلتے خواص کے علاقے میں گھس جائے گا ۔ خلقت، اناالحق بولے گی ۔ عام آدمی، "میں حق ہوں” اور عامیوں کے ہجوم "جمہوریت ہماری سیاست ہے ” کے نعرے لگائیں گے ۔ عوام کو خواص کے برابر سمجھنے کی سزا موت ہے ۔ بھٹہ واہن میں سسی کی ماڑی کے صحن میں ہمارے دوست جہانگیر خان اندھڑ نے سسی کی کہانی سنائی تو بھنبھور کی سسی کے ساتھ شاہنواز بھٹو جونئیر کی بیٹی سسی بھٹو کا نام ذہن میں آیا ۔ کاک کنارے بستی بستی ، قریہ قریہ جوگیوں اورسسیوں کی کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ لاڑکانہ کے البیلے جوگی جادوگر کی کہانی خلقت کے حافظے میں محفوظ ہے :
شاہ رانجھا البیلا ،
جوگی جادوگر وے
یار فرید نہ وسریم ہر گز
سکدی ویساں مروے
بھٹو خاندان پر اپنی کتاب میں اوون بینٹ جونز نے لکھا ہے کہ جیسلمیر راجستھان میں دو ستون ہیں جن پر 1148اور 1178کے سال اور ایک بہادر خاتون نائیکہ دیوی کا نام لکھا ہے یہ خاتون بھٹہ ہیں اور بھٹی خاندان میں بیاہی گئی ہیں ۔ وہ ایک بہادر سردار اور نائیک ہیں جو تیر انداز ردرا کی ماننے والی ہیں۔ تاریخ کی دھند میں بھٹوز کی سندھ آمد 1659میں عالمگیر اورنگ زیب کے ہاتھوں دارا شکوہ کی شکست کے بعد ہوئی۔ روایت ہے بھٹو خاندان دارا شکوہ کا اتحادی تھا۔ وہ خود نگر اور خودپرست دارا شکوہ جس کی موت کے بعد اکبر کا انڈیا ہار کر اورنگ زیب کا ہندوستان بن گیا اور آج تک ضیاء الحق اور نریندرا مودی کی صورت میں دوئی ، دوسراہٹ اور دشمنی کا اسیر ہے ۔ تعصب کا برصغیر کثرت میں وحدت دیکھنے کے قابل نہیں رہا کہ اس پر کم نظری کا سایہ ہے! ٹھٹھہ شہر کو جلانے والے دارا شکوہ کو معلوم نہ تھا کہ سندھی زمیں زادوں کو مارنے والوں کی تقدیر اوجھڑی کے زندان، ساموگڑھ کا میدان اور فضائی شمشان ہیں !
سندھ میں سب سے پہلے بھٹو خاندان کے سہتو بھٹو رتو ڈیرو، لاڑکانہ میں آباد ہوئے۔ صدیوں سے تین طبقے، قبائلی سردار ، مذہبی رہنما اور جاگیردار سندھ وادی میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ موئن جو دڑو کا سماج غیر طبقاتی ہے ۔ کسان، تاجر ، ملاح اور اہلِ حرفہ کی مساوات ہے۔ آریاؤں کی آمد کے بعد وادی سندھ میں نئی سامراجی طبقاتی تشکیل ہوئی تھی ۔ملوہہ کے لوگ جو میسوپوٹومیا اور مصر تک تجارت کرتے اور اپنے شہروں میں مندروں کی بجائے حمام اور اناج گھر بناتے تھے ۔ یہ لوگ وادی سندھ کے اولیں آدم تھے ۔ان کے زوال کے بعد کا آریائی سماج طبقاتی تھا۔ برہمن، کھتری، ویش اور شودر کی درجہ بندی آریاؤں کی دین ہے ! راجپوت بھٹوز کھتری یا کھشتری ہیں اور خیال یہ ہے کہ بھٹوز کو بہ طور قبیلہ سندھ کی مقامی طاقت کی جدلیات میں تالپوروں کے عہد میں اہمیت ملنا شروع ہوئی ۔ پیر بخش بھٹو نے میروں کا ساتھ دیا تھا ۔ 1843 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوا تو دودا خان بھٹو نے قبیلے کے سردار کے طور پر انگریز سرکار کے ساتھ باہمی طور پر منفعت بخش تعلق بنایا ۔ 1876 میں Sindh Encumbered Land Act آیا تو دودا خان بھٹو نے ذہانت سے اسے اپنے حق میں استعمال کیا۔ پورے انڈیا میں برطانیہ نے حمایت کے بدلے مقامی جاگیردار کو مضبوط کرنے کے لئے زمینوں اور طاقت کے مراکز تک رسائی دی اور مستقل ملکیت کا قانون بنایا ۔ بندوبست استمراری جاگیرداری کو مستقل استعماری ادارہ بنانے کا قانون ہے ۔1877 میں دودا خان کو ملکہ وکٹوریہ نے خدمات کے اعتراف کے بدلے میں وفاداری کے عوض تعریفی سرٹیفکیٹ دیا۔ دودا خان بھٹو کے بیٹے خدا بخش بھٹو ہیں اور ان کے بیٹے کا نام غلام مرتضٰی بھٹو ہے۔ غلام مرتضٰی بھٹو ایک archetypal فیوڈل کی طرح مغرور ، شوقین مزاج، شکاری اور رومانوی آدمی ہیں ۔ وہ ایک خاتون کی محبت میں شکارپور کے کلیکٹر کرنل ہرکولیس میہیو کے گھر جا گھستے ہیں اور کلیکٹر کی اچانک گھر واپسی پر اس کی پٹائی کر دیتے ہیں۔ بوڑھے افسر کے خوف سے مرتضٰی بھٹو ، بہاولپور سے ہوتے ہوئے کابل فرار ہو جاتے ہیں۔ غلام مرتضٰی بھٹو کی زمین نیلام اور گھر کو سرکاری سرپرستی میں آگ لگا دی جاتی ہے۔ مرتضٰی بھٹو کے بیٹے شاہنواز بھٹو نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے گھر کو جلتے دیکھا اور بعد میں برطانوی سرکار سے سر کا خطاب پایا ۔ حاکموں سے بھٹو خاندان کا تعلق ambivalent رہا ہے۔ طاقت کے مراکز سے بھٹو خاندان کے متضاد اور متناقص رویوں سے ہی ان کی المیہ داستان کے رنگ ہیں ۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے گھر کو راکھ کا ڈھیر بنتے دیکھنے اور بعد میں اسی سامراج سے سر کا خطاب پانے والے شاہنواز بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو کے والد ہیں ۔ شاہنواز بھٹو کے والد غلام مرتضٰی بھٹو نے مرنے سے کچھ عرصہ پہلے عدالت کے ذریعے اپنی زمیں واپس لی اور لاڑکانہ واپسی کے ایک مہینے بعد زہر خورانی سے فوت ہوگئے ۔غلام مرتضٰی بھٹو، جس نے گورے کلیکٹر کی سندھی محبوبہ کو رجھایا اور عاشق کی پٹائی کی، اسی محبوبہ کو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی جگ مشہور لکھاری پوتی، محترمہ فاطمہ بھٹو نے گوری خاتون بتایا ہے ۔ گوری خاتون کے مرتضٰی بھٹو پر مرنے اور عاشق ہونے کی کہانی سے زمیں زاد سندھی آدمی کے دل میں گدگدی ہوتی ہے اور سامراج کی ہزیمت کا پہلو نکلتا ہے۔ بانکے مرتضٰی بھٹو کے بیٹے، شاہنواز بھٹو سندھ کے اولیں ماڈرن ،تعلیم یافتہ ، خوش لباس اور مغربی طرز کے سندھی سیاستدان ہیں۔ 1910 میں وہ لاڑکانہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر اور 1920 میں اسی بورڈ کے پریذیڈنٹ بنے۔
1937 میں وہ لاڑکانہ کی نشست سے سندھ کی صوبائی اسمبلی کا انتخاب حیدرآباد کے ایک غیر معروف نومسلم ، عبدالمجید سندھی سے ہار گئے ۔ عبدالمجید سندھی نے منتخب ہونے کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ اگر شاہنواز بھٹو منتخب ہوگئے تو مسلمانوں پر "داڑھی ٹیکس” (Beard Tax) لگوا دیں گے۔ اس کے علاوہ عبدالمجید سندھی نے اچھوتوں کے رہنما ڈاکٹر امبیدکر کے پیغام پر مبنی ایک پمفلٹ تقسیم کیا کہ عبدالمجید سندھی کی جیت کی صورت میں تیس ہزار اچھوت مسلمان ہو جائیں گے۔ نتیجتاً سر شاہنواز بھٹو ایک اجنبی سے شکست کھا گئے۔ عزتِ نفس کا بڑھا ہوا احساس بھٹو خاندان کے مزاج کا حصہ ہے۔ شاہنواز بھٹو کے لئے شکست کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے سیاست سے کنارہ کش ہو کر بمبئی چلے گئے ۔ اس کے بعد وہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے چئیرمین بن کر سندھیوں کو نوکریاں دیتے رہے۔ مسلمان سوشلسٹ، ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں جب مذہب کے بارے میں فرد کا اختیار، ریاست کو دے کر احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا قانون بنوایا تو ان کے لاشعور میں اپنے بابا کی شکست کی تلخی اور شیخ عبدالمجید سندھی کا مذہبی کارڈضرور چمکے ہوں گے۔ اکثر فیوڈلز کی طرح بھٹو خاندان لبرل اور ماڈرن ہونے کے باوجود مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتا ہے۔ زمانہء قدیم سے مگر مذہب ، فرد کا اختیار رہا ہے ۔ مذہب ، خدا اور بندے کا معاملہ ہے ۔ شریعت ، عبادت ؛ اور طریقت، عرفان سے حقیقت تک پہنچنے کے راستے ہیں ۔ پیامبر فصل نہیں، خدا سے وصل کرانے اور بندے کو خدا سے ملانے آتے ہیں۔موسی علیہ السلام کو خدا اور بندے کے درمیان حائل ہونے پر تنبیہہ کی گئی تھی ! پاکستانی اشرافیہ اور ذوالفقار علی بھٹو نے فرد کا اختیار ریاست کو دے کر خدا اور بندے کے درمیان ریاست کو حائل کیا تو ایسا پینڈورا باکس کھلا کہ اب سنی، شیعہ کو اور شیعہ، سنی کو کافر قرار دلوانے کے لئے ریاست کو گھیرے رہتے ہیں اور ہماری محصور ریاست، مجبور تر ہو گئی ہے !
لاڑکانہ کے جاگیردار بھٹو خاندان کے نوجوان ، ذولفقار علی بھٹو ، ذہین ، روشن فکراور ایک شعلہ نوا مقررتھے۔خوب صورت، خوش پوشاک، رومانوی، پکے مسلمان اور انقلابی سوشلسٹ بھٹو میں اپنے عہد کے تضادات جمع تھے۔ وہ ایک بڑے رزمیہ المیے کا کردار بن کر پاکستانی سیاست پر چھائے ہیں ۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے زمانہ ء طالب علمی میں بھٹو نے امریکی سماج میں نسلی برتری کے مظاہر اور طبقاتی تقسیم کو قریب سے دیکھا اور مارکس کے کمیونسٹ مینی فیسٹو سمیت بائیں بازو کی فکر سے آگاہی حاصل کی ۔ اس عرصے میں وہ اکثر کالے امریکیوں کے علاقوں میں وقت گزارتے اور فلسفہ و سیاست کا مطالعہ کرتے ۔ تہذیب کا فکری ارتقاء اور ہم عصر استعماری تاریخ ان کے نصاب کا حصہ تھیں ۔ اس دوران وہ اکثر افریقی امریکیوں کے علاقوں میں جا کر رہتے اور ان کے دکھوں پر آنسو بہاتے ۔ اس کے بعد قانون کی تعلیم کے لئے آکسفورڈ گئے اور تین سال کی ڈگری دو سال میں مکمل کی تو گورے اساتذہ حیران رہ گئے ۔ 25 سال کی عمر میں وہ قائد اعظم والی لنکنز ان کے ممبر بنے ۔ اگر چہ قائد اعظم کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی مسلم شناخت مذہبی سے زیادہ ” cultural solidarity ” تھی مگر دونوں نے مسلمان اکثریت کے لئے بے مثال کام کیا ۔ پھر یوں ہوا کہ لبرل مسلمان، جناح ؛ اور مسلمان سوشلسٹ ، بھٹو، رجعت پسندی کے ہاتھوں مارے گئے!
ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو کی پہلی شادی اپنی کزن امیر بانو سے ہوئی تھی ۔ وہ ایک خان بہادر کی بیٹی تھیں۔ شادی، اولاد اور جائیداد تھی۔جائیداد کے بٹوارے کا خوف لڑکیوں کی قرآن سے شادی کراتا آیا ہے ۔ شاہنواز بھٹو کے تین بیٹے بھٹو خاندان کی جلدی مرنے کی عادت کا شکار ہوئے۔ بڑے بیٹے میر سکندر علی بھٹو نمونیا کے مرض سے سات سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔ امداد علی بھٹو 36 سال کی عمر میں جگر کے سروسس سے مرے اور لمبے بالوں اور آرٹسٹ مزاج رکھنے والے سکندر علی بھٹو (شاید بڑے بیٹے میر سکندر علی کی یاد میں رکھا گیا نام) پچاس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے انتقال کر گئے۔شاہنواز بھٹو کے دو سکندر، مقدر کے سکندر نہ تھے۔ سینتیس سال کی عمر میں شاہنواز بھٹو نے اٹھارہ سالہ لکھی بائی سے محبت اور شادی کی ۔وہ ہندو سے مسلمان ہوئیں تو ان کا نام خورشید بیگم ہوا ۔ یہی بھاگ وند خورشید بیگم سیاست کے خورشید _ جہاں تاب ذوالفقار علی بھٹو کی اماں ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو خورشید بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے ۔غریب ماں ، ہندو پس منظر اور غلام حسین ہدایت اللہ سے پر اسرار کنکشن کی وجہ سے جاگیردار بھٹوز نے خورشید بیگم کو کبھی قبول نہ کیا ۔ حساس ذوالفقار علی بھٹو کے لئے یہ عمر بھر کا آزار تھا۔ سلمان تاثیر نے اپنی کتاب ” ذوالفقار علی بھٹو” میں لکھا ہے :
"Even as a young boy, Zulfikar was aware of his clan’s hostility towards his mother and her anguish made a deep impression upon him. He never forgot his mother’s mortification at her treatment by the clan. "Poverty was her only crime” he once said and even attributed his own eqalitarian attitudes to his mother’s talk of inequities of the feudal system ” ۔
خورشید بیگم کی وفات پر ان کو خاندان کے قبرستان میں دفن کرنے کی مخالفت کی گئی ۔ عزت ِ نفس سے سرشاربھٹو کے لئے یہ ایک ناقابل فراموش صدمہ تھا!راولپنڈی جیل کی کال کوٹھڑی سے ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے نام خط لکھا:
"Your grandfather taught me the politics of pride , your grandmother taught me the politics of poverty.”
ذوالفقار علی بھٹو، پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں، پاکستان کے واحد با اختیار مقامی حکمران ہیں۔ 1972سے 1977کا پانچ سالہ عہد ، ایک مقامی کا یادگار دور ہے ۔ بھٹو سے پہلے اور اس کے بعد ریاست پر تنخواہ دار طبقہ مقتدر رہا اور تمام وزرائے اعظم اقتدار کے جونئیر حصہ دار رہے ہیں ۔ 1973کے آئین کو بدلنے کی خواہش بچی کھچی مقامیت کو تلپٹ کرنے کی خواہش ہے۔ حمزہ علوی کے بقول پاکستانی ریاست پر salariatیعنی نوکری پیشہ کلاس اور غیر مقامی اشرافیہ کا قبضہ رہا ہے۔ ڈاکٹر وسیم کی کتاب ” Political Conflict in Pakistan ” کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست پر پہلے دن سے مہاجر اور پنجابی اشرافیہ قابض رہی ہے جس سے مقامی آدمی کی ہاں مغائرت یا alienationپیدا ہوئی ہے ۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور پہلے وزیراعظم، بمبئی اور کرنال سے آئے ہوئے مہاجر تھے۔ روٹی ، کپڑے اور مکان کا نعرہ مقامی آدمی کا اپنی زمین اور وسائل پر حق کا دعوی ہے۔ زمین جو مقامی آدمی کا آسمان ہے۔ گندم اور گندم کی روٹی کا مطالبہ ، زمین پر اختیار اور روزگار کا مطالبہ ہے۔ موئن جو دڑو کی مساوات اور شاہ عنایت کے اشتراکی سماج کی باس روٹی میں بسی ہے ۔ دما دم مست قلندر کا نعرہ مقامیوں اور موالیوں کے دھمال سے دنیا کو بدلنے کی بات ہے ۔ دھمال کی دھم دھم میں مقامی آدمی کا دم (سانس)اور زمین ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان میں سندھ وادی کی مساواتی صدیاں بولتی ہیں۔ یہ نعرہ صدیوں کے بیٹے کی زبان سے ادا ہو کر صدیوں کا سچ بن گیا ہے۔ نعرہ جو موئن جو دڑو کی ادیم دیواروں پہ لکھا ہے :
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
گڑھی کے گنجِ شہیداں سے رخصت ہوتے وقت اندرونی دروازے کے باہر پھول بیچنے والے منظور لغاری کو گلے لگایا۔اس آدمی سے بوئے دوست آتی ہے ۔ اندر کاک کا کاپڑی ، مٹی کے بت پر سرخ مٹی ، سرخ چادر اور سرخ گلاب ڈارے سویا ہے ۔ لال اینٹوں کی مقامی تہذیب سرخ رنگ میں نمایاں ہے ۔ کرودھی کی ویران قبر سے دور ایک ویرانے میں مقامی سورما کا مزار ہے ۔ بھٹو، مزار سے ماورا غریبوں کے اجتماعی ضمیر کی زبان ہے ۔ زبان زمین میں گڑی ہے۔ گڑھی خدا بخش ، موئن جو دڑو سے 61کلو میٹر اور پانچ ہزار سال کے فاصلے پر ہے ۔ یہاں غریبوں کے خوابوں کے مدفن ہیں ۔ روزانہ عام لوگ دعاؤں ، پھولوں اور آنسوؤں کے نذرانے لئے اپنے مدفون خوابوں سے کلام کرنے آتے ہیں۔ خاص آدمی ، عام آدمی کے حق کی بات کرکے مقامیت کی صدیوں کی زبان بن گیا ہے۔ جھوک کے گنجِ شہیداں سے گڑھی کے گنجِ شہیداں تک کاک کے کاپڑیوں کی قبریں، در اصل ہاریوں کی حسرتوں کے مزار ہیں!

( سندھ کی سیر پر زیر_ تکمیل کتاب سے مقتبس) ٭٭٭

%d bloggers like this: