مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پانچ جولائی 1977: قتلِ جمہور کا سیاہ دن||حیدر جاوید سید

یوں جنوری 1984ء سے تادم تحریر ایک لاکھ کے قریب پاکستانی انتہا پسندوں کے ہاتھوں کھیت ہو چکے۔ ان ایک لاکھ میں افغانستان، مقبوضہ کشمیر اور دوسرے مقامات پر جہادی کاروبار کی بھینٹ چڑھے پاکستانی شامل نہیں ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5جولائی کوصبح سے سوچ رہا تھا پاکستانی تاریخ کے چند بدترین دنوں میں سے اس ایک دن کے بارے کیا لکھوں۔فقیر راحموں نے کہا ’’شاہ جی ” ابھی تو پانچ جولائی کی سپہر ہوئی ہے۔ شام ہو پھر رات اور رات ڈھلے تو کوئی بات کریں‘‘

کڑوا سچ یہی ہے 5جولائی 1977ء 5جولائی 2022 ء پر بھی تمام نہیں ہوا، جس تنگ نظری، عصبیت مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد 5جولائی 1977ء کو رکھی گئی وہ آج بے لگام ہے۔ درمیانی برسوں بلکہ یوں کہہ لیں پچھلے 45 سالوں سے ریاست عملاً ان عذابوں کو بڑھاوا دیتی چلی آرہی ہے۔ 45 برس خاک ہوئے ہمارے۔ جنرل ضیاء اور اس کے ہمنوا ؤں کا بیانیہ آج بھی چار اور مقبول ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مرے ہوئے ضیاء کو کوس رہے ہوتے ہیں تو ان کے اندر کا جنرل ضیاء ہنس رہا ہوتا ہے۔ کوئی ضیاء الحقی سی ضیاء الحقی ہے شیطان کی آنت کی طرح پھیلتی ہی جا رہی ہے۔

5جولائی 1977ء وہ سیاہ دن ہے جب طالع آزما اسٹیبلیشمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔

معاف کیجئے گا اصل اقتدار پر قبضہ آج بھی ضیاء الحقی سوچ کا ہے ہر سو ضیاء الحقیئے دندناتے پھر رہے ہیں۔

کاش بھٹو صاحب نے دستور کے خیمے میں مذہب کے اونٹ کو دوبارہ لا بیٹھانے کے معاملہ میں کمزوری نہ دیکھائی ہوتی۔ ہائے اب فقط کاش ہی کہا جا سکتا ہے۔

بھٹو جیسا نابغہ روزگارمذہب کے اونٹ کو دستور کے خیمے میں قیام کی اجازت دے گیا اور مولویوں کے ہاتھ میں بندر کی طرح اُسترا آگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس اُسترے کو اپنی ٹکسال میں دو دھاری تلوار کے طور پر ڈھال کر غیر ریاستی لشکروں کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

یوں جنوری 1984ء سے تادم تحریر ایک لاکھ کے قریب پاکستانی انتہا پسندوں کے ہاتھوں کھیت ہو چکے۔ ان ایک لاکھ میں افغانستان، مقبوضہ کشمیر اور دوسرے مقامات پر جہادی کاروبار کی بھینٹ چڑھے پاکستانی شامل نہیں ہیں۔

جولائی 1977ء کا مارشل لاء بظاہر مارچ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف چلنے والی قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجے میں لگا تھا ، قومی اتحاد کی تحریک تھی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مگر اتحاد میں شامل ملاؤں نے لوگوں کے جذبات ابھارنے کے لئے اسے تحریک نفاذ نظام مصطفیٰؐ کا نام دیا۔ تحریک نفاذ نظام مصطفیٰؐ کے نام پر بلوے ہوئے اور ہڑتالیں۔

یہاں یہ بات بطور خاص سمجھ لیجئے کہ پاکستان قومی اتحاد کے 32نکاتی منشور میں نظام مصطفیٰؐ کا ذکر نہیں تھا۔مذہب ملاؤں کا ہتھیار مسجدیں و مدرسے ان کے مذہبی دھندے کے مراکز ہیں ان مراکز کو حکومت مخالف تحریک کو بڑھاوا دینے کیلئے خوب بڑھ چڑھ کر استعمال کیا گیا ۔ جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کیا اور 90 دنوں میں انتخابات کروانے کا ایمانی و قرانی وعدہ کیا اور پھر اپنے وعدے سے مُکر گیا ۔

قومی اتحاد کی تحریک اور جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء دونوں سامراجی منصوبے کے عین مطابق تھے خطے میں ہوتی تبدیلیوں کی وجہ سے امریکی سامراج کو پاکستان میں ایک ایسے مہرے کی ضرورت تھی جو بوقت ضرورت کرائے کے سپاہی فراہم کرے اور امریکی مفادات کے تحفظ میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے ۔

جنرل ضیاء ایسے کردار کیلئے موزو ترین شخص تھے کیونکہ وہ اردن میں اپنی ملٹری اتاشی کے طور پر تعیناتی کے دنوں میں امریکہ و اردن کے مشترکہ منصوبے کو مکمل کر چکے تھے ۔

ہزاروں فلسطینیوں کے قتل عام کے امریکی و اردنی منصوبے کو فلسطینی آج بھی بلیک ستمبر کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

آرمی چیف کے طور پر جنرل ضیاء الحق کی تقرری اُردن کے شاہ حسین کی سفارش اور اس یقین دہانی کی مرہون منت تھی کہ جنرل ضیاء احکامات کی بجا آوری میں یکتا ہے ۔

کچھ پیچھے چلتے ہیں ۔ دسمبر 1976 ء اور جنوری 1977 ء میں پاکستان قومی اتحاد کے قیام کیلئے ڈیوس روڈ لاہور پر واقع مسلم لیگ ہاؤس میں اپوزیشن رہنماؤں کے صلاح مشوروں کے موقعہ پر امریکی قونصلر جنرل اور ایک خفیہ ادارے سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسر سمیت چنددیگر حکام بھی موجود پائے گئے ۔

یہی وہ نکتہ ہے جسکی بناء پر پچھلے چار عشروں سے یہ لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ قومی اتحاد کاقیام اس کی انتخابی دھاندلی کیخلاف خلاف تحریک اور تحریک میں مذہب کو استعمال کرنا اور پھر جولائی 1977 ء کا مارشل لاء سب کچھ امریکی سامراج کے منصوبے کے مطابق ہوا۔

جنرل ضیاء الحق کا پر آشوب دور گیارہ سال ایک ماہ اور بارہ دن تک چلا ضیاء 17 اگست 1988 ء کو طیارے کے ایک حادثے میں دنیا سے چلا گیا لیکن اس کی کرنیوں کے نتائج ملک کے عوام آج تک بھگت رہے ہیں ۔

مذہبی شدت پسندی ، اقلیتوں سے نامناسب برتاؤ ، دائرہ اسلام سے نکالے گئے ایک فرقے کیخلاف انتہاء پسندانہ طرز عمل اور ان کے خون کو مباح سمجھنے کی سوچ اور مسلمانوں کے ایک دوسرے فرقے کیخلاف تکفیری پروگرام یہ سب جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کی دین ہے ۔

5 جولائی 1977 ء کے 45 برس بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیوں سیاسی جماعتیں مذہبی شدت پسندی کو ختم کرنے میں ناکام رہیں ؟

فقیر راحموں کہتے ہیں ’’وجہ اس کی یہ ہے کہ ضیاء کے بعد جو بھی اقتدار میں آیا اس نے فوری سیاسی مفاد کیلئے ان مذہبی انتہا پسندوں کو بغل بچہ بنائے رکھا ۔ اس ملک کے مذہبی انتہا پسند کتنے خوش قسمت ہیں ریاست انہیں نازو نعم سے پالتی ہے دستیاب سیاسی قوتیں انہیں اتحادی بناتی ہیں اور عوام انہیں چندہ ، صدقہ ، زکوٰۃ اور خیرات دیتے ہیں ‘‘ ۔

ہم اور آپ اگر 5 جولائی سے نجات چاہتے ہیں تو پھر ہمیں متحد ہو کر اس بات کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی کہ ریاست سیاسی قوتیں اور عوام ان ضیاء الحقیوں سے کسی بھی سطح پر کوئی تعاون نہ کریں تاکہ ایک حقیقی جمہوری معاشرہ اور نظام معرض وجود میں آسکیں ۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: